• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جذبوں کا سویر ا زندگی کی تگ و تاز کے ہمراہ حیات افروز ہوا تو پاکستان کے گلی کوچوں اور نگر نگر سے کشمیر کی آزادی کی وہ صدا سنائی دی جو مودی سرکار کا دل دہلا دینے والی تھی۔یہ جذبے ماں کے پیار کی طرح سچے تھے۔ناعاقبت اندیش ان جذبوں میں بھی کھوٹ ڈھونڈتے ہیں مگر نہ سور ج کی روشنی میں کوئی فرق آسکتا ہے اور نہ چاند کی چاندنی بے اثر ہو سکتی ہے۔یہ جذبے کشمیریوں کے ساتھ ہم آواز تھے۔جوانوں کے جسموں میں گردش کرتا لہوکشمیر میں بھارتی ظلم وستم کو مٹا ڈالنا چاہتا تھا۔پاک فوج زندہ باد اورلے کے رہیں گے کشمیر،کشمیر بنے گا پاکستان،اور غزوہ ہند ہو گا اب وہاں کشمیر کے اندر کے نعرے سن کر واہ کینٹ میں جلوس کے ارد گرد فوجی جوانوں کا خون بھی سیروں بڑھ گیا تھا۔ ماضی پر نگاہ پڑتی ہے تو پچھلے ستر برسوں سے زائد عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب غاصب بھارتی فوجوں نے کشمیر میں خون کی ہولی نہ کھیلی ہو۔ہزار ہا مقبول بٹ شہادت کے رستے پر جان نچھاور کر چکے ہیں مگرکیسی عجیب بات ہے کہ کبھی ظالم ظلم سے باز نہیں آیا۔ اسے کبھی یتیمی کے دکھوں میں لپٹے ہوئے معصوم بچے دکھائی دئیے ہیں،نہ جوانی میں اپنا سہاگ لٹا بیٹھنے والی،بے بسی کی تصویر بنی بیوائیں اور نہ ان کے بوڑھے والدین جن کی زندگی کا کل اثاثہ لوٹنے والے بھارتی درندوں کی بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں کی آواز اب کچھ اور بڑھ گئی ہے۔ ہر نیا دن بھارت کے لیے تازہ لہو کی سوغاتیں لے کر نمودار ہوتا ہے اور ہر شب کشمیریوں کی آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سسکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔آسمان کی طرف دیکھتی ہوئی پھٹی پھٹی آنکھیں‘ ہلتے لبوں اوردعا کے لیے اٹھے ہاتھوں کے ساتھ اس وقت کے انتظار میں ہیں، جب دعا درجہ قبولیت کو پہنچے گی۔اہل کشمیر اس ناز ک مرحلے پر ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ جمعہ کے دن ہم ان کے درد کو سینے میں آباد کر کے گھروں،اسکولوں،کالجوں اور دفاتر سے نکلے ہیں۔ہم پھر بھی نکلیں گے اور ہماری آواز کی جھنکار بھارتی گیدڑوں کو اس وقت تک للکارتی رہے گی جب تک وہ اہل کشمیر کو حق خود ارادیت دینے کا اعلان نہیں کرتے۔ صبح ہو یا شام‘د ن ہو یا رات‘ ماہ ہو یا سال پچھلی پون صدی کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ ہمارے دل اہل کشمیر کے ساتھ دھڑکتے رہے ہیں۔ زخم ان کے جسم پرلگتا رہا ہے اور درد یہاں ہوتا رہا ہے۔موت وہاں ہوتی رہی ہے بین یہاں ہوتا رہا ہے۔ اب توایک ہونے کی خواہشات دل کے پھپھولے بن چکی ہیں۔ہم میں سے ہرشخص سوچتا ہے کہ کشمیر پر یہ شب ِتاریک کب تک طویل ہوتی رہے گی۔ کب تک جوان لوگ تاریک راہوں میں مارے جاتے رہیں گے۔کب تک ماؤں بہنوں کی عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی۔ کب تک معصوم ذہنوں پر خوف کے پہرے رہیں گے اور کب تک وہ جنت نظیر وادی ظالم درندوں کے ناپاک وجود سے لتھڑی جاتی رہے گی۔ بھارت کے جبر واستبداد سے نجات اورحق خود ارادیت کا حصول ہر کشمیری کے دل کی آواز ہے۔یہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ ہم سب پاکستانیوں کی بھی آواز ہے۔ ساری دنیا کے امن پسند لوگ مظلومانِ کشمیر کے ساتھ ہیں۔لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اس مسئلے کے حل میں واحد رکاوٹ ہے۔ ہم نے بھارت کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس چلا کر بھی دیکھ لی۔کشمیریوں کی بس سروس بھی آتی جاتی رہی۔ مشترکہ کرنسی اور دوطرفہ تجارت کی باتیں بھی خوب ہوئیں۔ ادیبوں، شاعروں اورفنکاروں کے تبادلے پر بھی خوشی منائی جاتی ہے مگر اس سب کا حاصل کیا نکلا۔بھارت کشمیر کے سوا سب ایشوز حل کرنے کو تیار تھا، اس نے انکار کیا تو کشمیر پر ہمارے موقف کو ماننے سے‘ اقوام متحدہ کی اٹھارہ قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ماننے سے۔۔کشمیر پرہم نے کتنی لچک دکھا ئی مگر بھارت نے لچک دکھانے سے ہمیشہ انکار کیا اور اب یہی انکار اس کے گلے کی پھانس بن چکا ہے۔بھارت کی دوستی کی خواہش میں تڑپنے والے پاکستانی، آخر بھارت سے وابستہ تلخ یادوں سے نتائج اخذ کیوں نہیں کرتے۔ بھارت پاکستا ن کا کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔اس کی دوستی کی خواہش لے کر امن کی کاغذی فاختہ اڑانے والے کیوں نہیں سمجھتے کہ اس نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی وہ کوشش کی ہے جس کا جواب دینے کا وقت آچکا ہے۔اقوام عالم کو چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کواستصواب رائے کا فوری حق دلوائیں ورنہ ہمارے فوجی جوانوں کے دل نہ جانے کب سے کشمیر کو پاکستان بنانے کے لیے دھڑک رہے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر اسد مصطفیٰ واہ کینٹ ڈگری کالج میں اردو زبان کے پروفیسر ہیں ۔انہوں نے یہ تحریر اس پیغام کے ساتھ مجھے ای میل کی۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کی باتیں بھی آپ اپنے کالم میں درج کریں۔ ‘‘میں نے غور کیا تو وہ ساری باتیں میرے دل کی بھی باتیں تھیں ۔ سو میں نے انہیں اپنے کالم میں شامل کرلیا ہے اس یقین کے ساتھ کہ یہی سب کے دل کی باتیں ہیں مگر جنگ اور پھر ایٹمی جنگ جس کےتصور سے بھی ہول آتا ہے ۔اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم پر مسلط ہو۔کل ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ترقی یافتہ اقوام چاہتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ ہو تاکہ ان کے وسائل کی طرف اٹھی ہوئی ایک ارب لوگوں کی نظریں کسی منطقی انجام تک پہنچیں ۔

تازہ ترین