• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی ہم نے1947ء سے کچھ عرصہ قبل کی ایک تصویر فیس بک پر دیکھی تھی، اس تصویر میں کراچی میں موٹر گاڑیاں اور ٹرام چل رہی ہیں، سپر مارکیٹیں بھی ہیں، بازار گلیاں اور سڑکیں یورپ کے کسی بھی ملک کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں، کراچی میں اس زمانے میں بہترین سیوریج کا نظام، لوگوں کےگھروں میں سرکاری پانی آتا تھا، کوئی ٹینکر کلچر نہیں تھا۔ سڑکیں کشادہ، پختہ اور سایہ دار تھیں۔ دنیا کے ہر ملک نے آزادی کے بعد ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دیں۔ ہر ملک کے شہر غلامی کے دور سے جب آزاد فضا میں آئے تو انہوں نے ترقی کی مگر ہمارے ہاں الٹی گنتی شروع ہو گئی، کراچی جو پہلے بڑا خوبصورت، صاف ستھرا شہر تھا آہستہ آہستہ اس کا سفر بربادی کی طرف شروع ہو گیا۔ کیا نہیں اس شہر نے دیکھا، قتل وغارت، بوری بند لاشیں، اغوا برائے تاوان، تشدد، ڈکیتی، بچوں کا اغوا، کچرے کے ڈھیر، بیماریاں، نفرتیں، فرقہ واریت، لسانی جھگڑے اور معروف لوگوں کے قتل۔

نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں

ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی

وہ شہر جہاں انگریز کے زمانے کی خوبصورت ٹرام چلا کرتی تھی اس کی پیاری پیاری گھنٹی جو اس کی آمد اور روانگی کا پتا دیا کرتی تھی، کسی نے سوچا کہ اسے بند کر دو چہ جائیکہ اس کا روٹ بڑھایا جاتا۔ اس ٹرام کو مزید آرام دہ بنایا جاتا۔ اس کو بند کر دیا گیا، اس کے لوہے سے کتنے لوگ مستفید ہوئے، کتنے لکھ پتی بنے، یہ کہانی پھر سہی۔

منتخب اور غیر منتخب حکومتیں دونوں کراچی کو تباہ ہوتے دیکھتی رہیں مگر کسی نے ٹھوس اقدامات نہ کئے۔ سندھ پر ایک مدت سے پی پی کی حکومت ہے۔ کیا دیا پی پی کی حکومت نے کراچی کے عوام کو؟ اس کی جمہوریت مال اڑائو، باہر پہنچائو تک محدود رہی۔

ایک علاقے کی ترقی کے لئے حکومت بلدیاتی نمائندوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز صاحبان کو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کرتی ہے۔ اگر ان فنڈز کا بیس فیصد بھی حکومت نے شہر میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے، سیوریج کو بہتر بنانے، بجلی کے پول کو محفوظ بنانے اور شہر کی صفائی پر صرف کئے ہوتے تو کبھی بھی حالیہ بارشوں میں دو درجن کے قریب افراد کرنٹ لگنے سے موت کے منہ میں نہ جاتے۔ بارشوں اور چھتوں کے گرنے سے مرنے والے افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ریاست میں اگر ایک فرد بھی حکومت کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جائے تو اس کی ذمہ دار حکومت ہی ہوتی ہے۔

کراچی کی صفائی پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے 24روپے نہیں 24ارب روپے خرچ کر ڈالے اور عالم یہ ہے کہ کراچی کی گلیوں اور بازاروں میں اس وقت ہزاروں ٹن کچرا پڑا ہوا ہے۔ شہر کراچی میں اگر ہم بیماریوں کے حوالے سے بات کریں تو ایک طویل فہرست ہے۔ کانگو وائرس، ڈینگی وائرس، پولیو وائرس، خسرہ، ہیپاٹائٹس، ایڈز، ہڈیوں کی بیماریاں، پیٹ کے امراض، شوگر، گردوں اور دل کی بیماریاں، وائرس سے پھیلنے والی بیماریاں۔ ڈینگی، پولیو، ہیپاٹائٹس،کانگو، ایڈز اور خسرہ کے مریضوں کی تعداد میں پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ان بیماریوں پر ریسرچ کا کوئی ادارہ نہیں، جرمنی کی حکومت کو ہم پر ترس آ گیا ہے اور اب شاید وہ وائرولوجی سنٹر بنانے میں ہماری مدد کرے گا۔ یہ پاکستان کا پہلا سنٹر ہو گا اگر کراچی والوں نے بننے دیا تو۔

دوسری طرف کراچی کے سول اسپتال کا ٹراما سنٹر جو 6ارب روپے کی لاگت سے تیار کیا گیا تھا، وہاں نہ ادویات ہیں اور نہ ہی پانی۔ بیماریوں کا عالم یہ ہے کہ رواں ماہ آٹھ افراد کانگو وائرس سے مر گئے جبکہ اب تک یعنی امسال 14افراد اس وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے اور 26افراد میں یہ وائرس تشخیص ہوا، کراچی میں ڈینگی وائرس بھی آچکا ہے اور اس کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تو کراچی میں آئندہ چند ماہ میں کئی خطرناک پیٹ اور جلد کی بیماریاں سامنے آنے والی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کا خون زیر زمین بارشوں کی وجہ سے کنوئوں میں چلا گیا ہے۔ گیسٹرو، ہیضہ اور کئی دیگر بیماریوں کے پھوٹنے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ کیا یہی منصوبہ بندی کی پچھلے تیس برس میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے؟ اس کے مقابلے میں پنجاب میں کراچی سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور اب بھی سلسلہ جاری ہے ایک بھی شخص کرنٹ لگنے سے نہیں مرا جبکہ کراچی میں غیر سرکاری ذرائع کے مطابق بیس کے قریب افراد کرنٹ لگنے سے مر گئے۔

ارے بابا! جن کے ووٹوں سے آپ منتخب ہو کر آئے ہو ذرا کچھ دیر ان غریبوں کے ساتھ ان کی بستی میں ایک رات تو بسر کرکے دیکھو، وہ جو پانی پیتے ہیں کبھی اس کے دوچار گھونٹ تو پی کر دیکھو، ارے وہ کھانا بھی کھا کر دیکھو۔

ان بارشوں کے بعد سے اب تک قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال (جناح اسپتال) میں 2ہزار بچے اور سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال میں 1500کے قریب بچے گیسٹرو اور ڈائریا کے باعث لائے گئے ہیں۔

سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کبھی بھول کر این آئی سی ایچ اور دیگر سرکاری اسپتالوں کا چکر بغیر پروٹوکول کے لگا کر تو دیکھیں، انہیں علم ہو کہ ان کے ووٹرز جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان حالیہ بارشوں نے ماضی کی تمام حکومتوں اور موجودہ حکومت کے تمام پول کھول دیئے ہیں۔ شہر کی ہر گلی گندے پانی کا تالاب بن چکی ہے۔ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات ہے۔ ابھی تو کئی اور بیماریوں کو سر اٹھانا ہے۔

کراچی کے میئر وسیم اختر نے سچ ہی تو کہا ہے کہ آخر کراچی کے حوالے سے ہم کون سی بات فخر کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں؟ وہ خوبصورت، روشنیوں کا شہر مدت ہوئی کہیں کھو گیا، اس خوبصورت بستی کو اسی کے رکھوالوں نے اغوا کر لیا۔ اس چمن کو اسی کے باسیوں نے نوچ ڈالا۔ ہائے کاش! کراچی کی غریب بستوں کے لوگ اپنے لیڈران کے گھروں میں کھائے جانے والی غذائیں دیکھ لیں تو حیرت سے مر جائیں۔

تازہ ترین