• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس پر کئی آراء سامنے آ رہی ہیں۔ جنگ دو قسم کی ہوتی ہے:ایک فکری جنگ اور دوسری عسکری۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ فکری کا تعلق افکار و نظریات سے ہوتا ہے جبکہ عسکری جنگ ہمیشہ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔ فکری جنگ، عسکری کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ نظریاتی جنگ میں انسانی ذہن کو تابع بنایا جاتا ہے۔ جب ذہن غلام بن جاتا ہے تو پھر انسان بے حس ہو جاتا ہے اور جب انسان بے حس ہو جائے تو جو کچھ بھی چھن جائے اس کی پروا نہیں کرتا۔ فکری جنگ کی صورت میں مذہبی، نظریاتی اور مادّی ہر طرح کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اس وقت عالمِ اسلام، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف دونوں ہی جنگیں عروج پر ہیں۔ عالمِ اسلام پر مسلط کردہ ہتھیاروں کی جنگیں تو پوری دنیا کو نظر آتی ہیں لیکن ’’فکری اور نظریاتی جنگیں‘‘ کم ہی منظر عام پر آتی ہیں۔ جب دشمنانِ اسلام مہلک ہتھیاروں اور جدید ترین اسلحے سے مسلمانوں کو ختم نہ کر سکے تو پھر منظم منصوبہ بندی کے تحت اپنی زیادہ توجہ فکری جنگوں پر مرکوز کر دی۔ انہوں نے جب یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو ہتھیاروں سے شکست دینا ناممکن ہے تو پھر خفیہ جنگوں کا طریقۂ کار اختیار کیا تاکہ مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی، وارفتگی، عقائد و نظریات سے گہرا تعلق نہ رہے، ان کو ذہناً مغلوب کر دیا جائے۔

عسکری جنگ کی بھی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک شکل باقاعدہ فوجوں کی جنگیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کی افواج بھارت کی حدود میں داخل ہو جائیں۔ اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لئے بہت بڑی تیاری درکار ہے۔ دوسری جنگ گوریلا جنگ کہلاتی ہے۔ گوریلا جنگ خفیہ اور طویل ہوتی ہے۔ اب سول یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت سے کون سی جنگ کی جائے گی؟ پہلا آپشن ہے دوبدو جنگ کا۔ پاکستان کی افواج بھارت کی افواج کی حدود میں داخل ہو جائیں۔ کیا ہم اس جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس کے ردعمل اور بین الاقوامی سطح پرجو انتظامات ہونے چاہئیں، وہ ہیں؟ ہمارے پاس کتنے دن کا پیٹرول ہے؟ ہمارے پاس کتنا اسلحہ ہے؟ سب سے پہلے یہ سب چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس وقت جب پورے عالم اسلام میں پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے، اگر اس کو اتنے جذبات میں آکر بغیر سوچے سمجھے، جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بس جنگ میں کود جائو، تو یہ حالات کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ گوریلا جنگ ہو۔ کشمیری مجاہدین پہلے سے وہاں پر موجود ہیں۔ ان کی مدد کی جائے۔ یہ بات درست ہے کہ گوریلا جنگ کے سائیڈ ایفیکٹس بہت ہوتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ بیس تیس سال میں دیکھا کہ جب عسکریت آزاد ہوتی ہے اور حکومت و فوج کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، اُس کے سائیڈ ایفیکٹس اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ کئی ممالک اس سے تباہ و برباد ہوگئے۔ افغانستان پورا برباد ہوگیا، لیبیا، شام، عراق، الجزائر، یمن، صومالیہ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اس کے بعد پھر آگے چیچنیا، داغستان ان سب جگہوں پر بغیر کسی سپورٹ کے گوریلا جنگیں چلی ہیں، اگر پاکستان عسکری تنظیموں کو کھلی چھٹی دے دے تو ان کے اندر داعش کے لوگ بھی ہیں، ان کے اندر ٹی ٹی پی کے لوگ بھی ہیں، ان کے اندر سی آئی اے، ایم آئی سکس کے لوگ بھی گھسے ہوئے ہیں تو اس سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس وقت جو حالات ہیں، اس سے پہلے امید نہیں تھی کہ کشمیر آزاد ہوگا، لیکن اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اگر اب پاکستان، ہماری افواج اور وزارتِ خارجہ، حکومت، اپوزیشن، ہمارے علمائے کرام، ہماری قوم صحیح طریقے سے پتے کھیلیں تو اب اس کے امکانات بہت ہیں کہ یہ مسئلہ کسی اچھے نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں جو 3کروڑ سکھ ہیں، وہ اس وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ کشمیر کے جتنے بھی گروپ ہیں چاہے وہ حکومتِ بھارت کے حامی لوگ تھے یا حریت کانفرنس کے لوگ یعنی پاکستان سے الحاق کرنے والے لوگ یا خودمختاری والے لوگ یہ تینوں گروپس اس وقت پاکستان کے ساتھ ہیں اور بھارت کے مخالف ہیں۔ پھر وہاں کے 4کروڑ دلت بھی ہمارے حامی ہیں، 11کروڑ لنگایت ہیں اور بھی بہت سارے علاقے ہیں، تری پورا، آسام اور مختلف جگہوں پر تحریکیں چلی ہوئی ہیں تو پاکستان کیلئے مواقع بہت ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم متحد ہوں۔ اس کی ہمیں کوشش کرنا چاہئیں کہ ہم ایک پیج پر آئیں۔ اگر ہم متحد نہیں ہوں گے تو شاید ہمیں مطلوبہ نتائج نہ مل سکیں۔ اس میں ایک اہم پہلو اور بھی ہے کہ کشمیر کیلئے ہم جتنا سوچ رہے ہیں، اس سے زیادہ بھارت میں موجود 25کروڑ مسلمان زیادہ خطرے میں ہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کیلئے تو اقوامِ متحدہ کی ریزولیشن بھی ہے، بھارت کے ساتھ ہونے والے الحاق کا معاہدہ بھی ہے، شملہ معاہدہ بھی ہے، تاشقند معاہدہ بھی ہے، لاہور ڈکلریشن بھی ہے۔ اس طریقے سے اور بہت سارے مواقع پر اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادیں بھی ہیں، خود بھارت کا آئین جو کچھ کہہ رہا ہے، وہ بھی ہے اور بھارت کے اندر جنگ لڑنے کیلئے قانونی طور پر ہر طریقے سے اس کا اور بین الاقوامی جواز بھی ہے۔ کشمیریوں کیلئے بہت سے جواز ہیں، ان کے پیچھے پورا پاکستان کھڑا ہے۔ وہاں تنظیمیں بہت زیادہ ہیں، وہاں کے نوجوانوں نے جنگیں لڑی ہیں، ان کے پاس لڑنے کیلئے اور آواز بلند کرنے کیلئے یا آزادی کی بات کرنے کیلئے یا مظالم سے نجات حاصل کرنے کیلئے بہت سے راستے ہیں، بہت ساری امیدیں ہیں۔

بھارت میں 20سے 25کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں، ان کا کوئی ولی وارث نہیں ہے وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں، تقریباً 10کروڑ مسلمان ایسے ہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، ان کی جان و مال، عزت، ان کے بچے بوڑھے خواتین سب کے سب خطرے میں ہیں۔ ہمیں ان کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔ کشمیر کے جو حالات ہیں، اس سے زیادہ برے حالات کیا ہوں گے؟

تازہ ترین