• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے کسی بھی ملک کے عقائد اور ثقافت کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کی ثقافت کے رنگ کتنے جدا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ثقافت کا تعلق زمین سے ہوتا ہے۔ ثقافت اپنے علاقے کی مٹی، ماحول، رنگوں اور خوشبوئوں کا رچائو ہوتی ہے۔ یہ دراصل انسان کی فکر اور جذبے کی عکاسی کرنے والے رویوں کا نام بھی ہے۔ ہماری فکر جذبات اور احساسات میں ڈھل کر نہ صرف ثقافتی قدروں کی شکل اختیار کرتی ہے بلکہ تمام تر فن کے چشمے بھی یہیں سے پھوٹتے ہیں۔ ثقافت کے لوک رنگ مٹی کی خوشبو اور دانش کا پرچار کرتے ہیں۔ ہمارا تمام تر لوک ادب، لوک موسیقی اور لوک فن ان بڑے لوگوں کے ذریعے وجود میں آیا اور آگے بڑھتا رہا جو کبھی کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے اس کی کسی سے تربیت لی۔ غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر مٹی اور ماحول نے اُن کے من میں جو کچھ کاشت کیا وہ اظہار کا رستہ پا کر لوک ادب کی صورت سامنے آیا۔ لوک ادب ایسی فصل ہے جسے کبھی خزاں کا سامنا نہیں ہوتا۔ یہ مسلسل پرورش پاتی رہتی ہے۔ ثقافت اور عقیدہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھتے ہیں اور انسانی و اخلاقی قدروں کے ترجمان بن کر معاشرے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ کچھ حوالوں سے ثقافت اور مذہب میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ مذہب جن چیزوں کی تبلیغ کرتا ہے وہ ثقافتی قدروں کے بھی اصول ہوتے ہیں مثلاً سچ بولنا، کسی کو اذیت نہ دینا، دوسروں کے جان و مال کا تحفظ کرنا، صالح زندگی گزارنا، خدمتِ خلق کرنا، دوسروں کی خوشی کا خیال کرنا، انصاف کرنا، ظلم نہ کرنا، کسی کی دل آزاری نہ کرنا اور اعلیٰ برتائو کرنا مذہبی احکام ہیں۔ اندر خانے ثقافت بھی یہی کام کر رہی ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ مذہب میں حکم صادر ہوتا ہے جبکہ ثقافت غیر محسوس طریقے سے انسانوں کے دلوں اور روحوں میں اس حکم کو اس طرح پیوست کر دیتی ہے کہ وہ ان کی عادت اور رویہ بن جاتا ہے، ثقافت بھی انسان کے کل پرزوں میں اس طرح رَچ بس جاتی ہے کہ اس کے روشن اور مثبت پہلو انسانی وجود کو اندر سے شفاف کر کے وہاں خوبصورتی کو اس طرح بھر دیتی ہے کہ انسان کی آنکھوں کو ہر طرف اچھائی نظر آنے لگتی ہے اور اگر وہ برائی بھی دیکھتا ہے تو اس کو اپنے رویے سے اچھائی میں بدلنے کی سعی کرتا ہے۔

کبھی پنجاب اپنی ثقافت کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا اور اس کی طاقت وہ منفرد رنگ تھے جو رنگا رنگی کو بڑھاتے ہوئے یکجہتی کی طرف لے جاتے ہیں۔ صوفی ہمارا ثقافتی ہیرو ہے۔ جس دور میں ٹیلی وژن، سینما، ریڈیو اور دیگر ذرائع وجود میں نہیں آئے تھے تب صوفیاء کے دربار ثقافتی تہواروں کی آماجگاہ تھے۔ عرس کے مواقع پر وہاں بڑے بڑے میلے لگتے تھے۔ اس دور میں دربار ایسا پلیٹ فارم تھے جہاں گلوکار، فنکار، قوال، خطاط، مصور اور دیگر فنون کے ماہر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہیں سے انہیں تشہیر ملتی تھی اور ان کی شہرت دور دور تک پھیل جاتی تھی۔ درباروں سے درباروں کا سفر انہیں عالمی سطح کے اسٹیج تک رسائی دیتا تھا۔ اِن میلوں میں ہر مکتبِ ٔ فکر اور عقیدے کے لوگ اکٹھے ہوتے تھے اور مل جل کر زندگی کے رنگوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ 1975ء کے بعد پاکستان میں جو ایک عجیب قسم کی ہوا چلی اس نے پنجاب کی ثقافت کا چمن بھی بے رنگ کر دیا، غیر ملکی اثرات کا لیبل لگا کر ثقافتی سرگرمیاں مفقود کر دی گئیں۔ غیر ملکی ثقافت سے مراد مغربی ثقافت نہیں تھی بلکہ برصغیر کے دیگر ممالک کی ثقافت کا حوالہ دیا جاتا تھا حالانکہ بہت سی ایسی رسمیں اور تہوار جو متحدہ برصغیر میں مسلمانوں نے شروع کئے تھے وہ بھی ہم سے چھین لئے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اظہار کے رستے مفقود ہونے کے بعد لوگوں میں مایوسی اور ذہنی تنائو بڑھنے لگا جس نے ان کے وجود سے برداشت، رواداری اور انسانیت کی قدریں منہا کر کے تلخی بھر دی۔ یہ تلخی تحریر، تقریر اور فکر کے ہر حوالے سے جھلکتی نظر آتی ہے۔ ہم آہنگی اور یگانگت کا ماحول دوبارہ واپس لانے کے لئے ثقافت کے اصل رنگوں کو اجاگر کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سمیت مختلف شہروں میں کانفرنسیں، سیمینارز، میلے اور رنگا رنگ پروگرام ترتیب دیئے گئے جس سے ثقافت کی ازسرنو تجدید ہوئی۔ اگست کے مہینے میں جشن آزادی کے حوالے سے رنگا رنگ تقاریب کے سلسلے میں پِلاک نے ملتان اور لاہور میں دو بڑے ثقافتی میلے منعقد کئے جن میں نوجوانوں کی سو فیصد شرکت یقینی بنائی گئی۔ انہوں نے بڑوں سے مکالمہ بھی کیا اور اپنے فن کا اظہار بھی۔ اگر ہمیں اپنے کل کو خوبصورت بنانا ہے تو آج اس کی منصوبہ بندی کرنا اشد ضروری ہے۔ نوجوانوں کو یہ بتانا کہ وہ جس زمین سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی جڑیں جس زمین سے وابستہ ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں، اس کی زبان کیا ہے، اس کے ثقافتی رنگ کیا ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے صوفیاء کا انگریزی اور اُردو میں ترجمہ کیا گیا جبکہ دیگر صوبوں کے صوفیاء کا پنجابی زبان میں ترجمہ کر کے ہم آہنگی کی فضا کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ لوک ادب اور لوک دانش کو محفوظ کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اُمید ہے کہ پنجاب کے تمام ثقافتی ادارے آنے والے دنوں میں ثقافت کے دلکش رنگوں سے فضا کو قوسِ قزح بنا دیں گے۔ تنائو کے ماحول میں لوگوں کو خوش ہونے کا موقع ملے گا، اُن کا کتھارسز ہو گا اور اُن کی شخصیت متوازن رُخ پیش کرے گی۔

تازہ ترین