• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرا میزبان اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے سنگ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے چکوٹھی لائن آف کنٹرول پر پہنچا ہوا ہے۔ جب تک وہ واپس آتا، موقع مل گیا کہ میں آزاد کشمیر کے لوگوں سے براہِ راست گفت و شنید کے ذریعے ان کے جذبات سمجھ سکوں۔میرے پاس دو راستے تھے، ایک یہ کہ سیاستدانوں بالخصوص حزبِ اقتدار سے ملوں، دوسرا وہ راستہ جس کی منزل عام کشمیری،استاد اور بیوروکریسی تھی۔ میں نے دوسری راہ چنی، پہلا راستہ اس لئے نہ چنا کہ میں کشمیر کو سیاسی سے زیادہ انسانی مسئلہ سمجھتا ہوں اور وزراء کے نخرے دیکھنے کا یہ موقع نہ تھا،کشمیر سے ہمارے رشتے کو قائد اعظم محمد علی جناح، تاریخ اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس قدر پکا جوڑ دے رکھا ہے کہ الحمدللہ! اس کو مزید استقامت زمانہ طالب علمی کی اس تنظیم نے بھی دی جس سے کبھی وابستگی تھی۔ میں نے آزاد کشمیر کو اپنی آنکھوں سے دو دفعہ غم میں نڈھال دیکھا، ایک دفعہ 2005 ء کے زلزلہ میں اور ایک دفعہ اب370 اور35 اے کی بھارتی آئین کی شقوں کے سبوتاژ کرنے پر، لوگ مضطرب کیوں نہ ہوں آزاد کشمیر کا دل گر مظفرآباد اور وادیٔ نیلم یا وادیٔ لیپا میں ہو تو دھڑکن سری نگر میں ہوتی ہے۔ لائن آف کنٹرول وہ ننگی تلوار ہے جو اِدھر اور اُدھر کے لوگوں کے درمیان میں پڑے ہوئے دل کے وسط پر گڑی ہے، ہر دوسرے گھر کے اپنے قریبی دوسری جانب ہیں، معلوم ہوا سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ و سابق چیف الیکشن کمشنر خواجہ محمد سعید کے کئی عزیز واقارب، مظفرآباد کے مرکزی کالج گورنمنٹ فاطمہ جناح ویمن پوسٹ گریجویٹ کالج کی پرنسپل پروفیسر نائلہ مصور کی والدہ اور بہن مقبوضہ کشمیر میں مقیم ہیں۔ میرے معروف کشمیری صحافی دوستوں میں سے امتیاز بٹ، خواجہ کاشف میر وغیرہ کے پیارے اُدھر ہیں، کسی کی بہن اُدھر تو کسی کا بھائی اُدھر، کشمیر انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ڈائریکٹر طارق بٹ کے دادا کی قبر بارہ مولہ میں ہے اور پھوپھی کی قبر سر ینگر میں، باپ کا سارا ننھیال اس پار، طارق بٹ کی بات دل کو لگی ’’کشمیر کا مسئلہ سیاسی المیے سے زیادہ عالمی انسانی مسئلہ اور عالمی جمہوری مسئلہ ہے‘‘ پس ان دنوں تڑپ کے علاوہ دونوں جانب کیا رکھا ہے۔ چکوٹھی ہو، وادیٔ نیلم ہو کہ شاردا، بس ایسے ہی لگتا ہے بیچ میں لہو کی لکیر ہے، اسے ایل او سی کہہ لیں یا حد بندی، جس کی اقوام متحدہ، او آئی سی، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور مودی ازم کو سمجھ نہیں آرہی، وادی میں آتش و آہن کی بارش ہے اور درد والم کی بازگشت لیکن جن کے دلوں اور بصارتوں پر مہر لگی ہے انہیں نہ انسانیت کی سمجھ ہے نہ کشمیریت کا ادراک۔

سابق سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اور موجودہ ایم ڈی ایس ڈی ایم اے سید شاہد محی الدین کا کہنا تھا کہ بڑی باتوں سے ہٹ کر محض اس پر غور کرلیں تو فرق صاف ظاہر ہے، آزاد کشمیر کے عوام یہاں کی حکومت سے مطمئن ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کے نگران، نگہبان اور سلطان اپنے معصوم اور نہتوں پر ظلم اور قہر کے پہاڑ توڑتے ہیں جو نجانے حقوقِ انسانی و حقوقِ نسواں کی تنظیموں اور عالمی عدالت کو نظر کیوں نہیں آتے؟ کمشنر مظفرآباد چوہدری امتیاز احمد نے دریا کو کوزے میں بند کیا کہ دونوں طرف دیکھ لیں کہ لوگ کس پرچم میں دفن ہونا چاہتے ہیں، بس یہی ہمارا فیصلہ ہے! انجینئر انیس الدین، پھر پروفیسر نرگس سعید سے میرا ایک ہی سوال تھا کہ آپ ان حالات میں کیا سوچتے اور کیا چاہتے ہیں ؛تاہم ہر طرف اور ہر کسی کا جواب تھا کہ’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور’’ ہمیں اپنی حفاظت کیلئے افواج پاکستان پر سوفیصد اعتماد ہے!‘‘

ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے مظفرآباد میں مقیم معروف ماہر قانون راجہ حنیف نے جمعہ کے روز وزیر اعظم پاکستان کے حکم پر پورے پاکستان کی جانب سے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کو سراہا مگر ان کی یہ بات نہایت قابلِ غور تھی کہ’’ پورے کشمیر کو پاکستان پر اعتماد ہے مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ عالمی برادری کو کشمیریت و انسانیت پر ظلم اور اس کی تاریخ سے آگاہ کرنے کا مربوط بندوبست کیا جائے!‘‘ راجہ حنیف کی خارجی بات ہی سے مجھے ایک داخلی بات یاد آگئی کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو کہنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کیلئے کشمیری بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی کتاب ’’رودادِ قفس‘‘ ضرور پڑھئے۔ اسی طرح ایک آسٹریلوی پروفیسر کرسٹوفر سنیڈن کی دو کتب’’انڈراسٹینڈنگ کشمیر اور کشمیری‘‘ اور ’’اَن ٹولڈ اسٹوری آف پیپل آف آزاد کشمیر‘‘۔

میرے میزبان خواجہ طارق سعید سابق چیئرمین بیت المال جب چکوٹھی سے واپس لوٹے تو دوران گفتگو وہ بار بار اس بات کا دکھ سے ذکر کر رہے تھے کہ امارات میں مندر سرکاری مال سے بنایا گیا اور اس کی افتتاحی تقریت کا حال بھی سب جانتے ہیں۔ طارق سعید کی بات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن اس وقت ضرورت ہے کہ ہم سمجھائیں کہ یہ صرف خطے یا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ایک مکمل انسانی المیہ ہے۔ پس ہمیں اقوام متحدہ اور ہر اس بدھ مت، یہودی و عیسائی و دیگر کی مدد لینی ہے جو انسانیت سے آشنا ہے، جو انسانیت سے آشنا ہوگا وہ یقیناً کشمیریت سے بھی آشنا ہوگا، جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ روس، ترکی، ایران، چین و دیگر ممالک سے بڑھ کر کشمیریت کو سمجھیں گے اور مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے! جنہوں مشرقی تیمور(2003) اور جنوبی سوڈان(2011) کی مدد کی ان انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خیال آنے والا ہے کہ یہ تحریک ان تحریکوں سے کہیں بڑی اور کہیں خالص ہے۔ یہ صرف کشمیری مسلمانوں کا نہیں دو کروڑ کشمیریوں کا مسئلہ ہے جن میں دیگر مذاہب بھی ہیں، بیک وقت کشمیری، پاکستانی اور ہندوستانی انصاف نہ ملنے کی پاداش میں چھلنی ہوتے ہیں اور دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے سو بھارتی نگہبانوں، سلطانوں کے ہاتھوں کشمیریت و انسانیت اور عالمگیریت کو بیک وقت خطرہ لاحق ہے جس کا تدارک انسانیت ہی کو کرنا ہوگا، ورنہ۔۔۔۔!!!

تازہ ترین