• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جزوی طور پر آئین کے مطابق ہونے والے انتخابات (عوامی عدالت) کے فیصلے سے پیدا ہونے والی لوٹ مار حکومتی کلچر کو جمہوریت کہنے والے کان کھول کر سن لیں کہ انتخابات روکے جاسکتے ہیں نہ ان کا آئین کے عین مطابق انعقاد۔ اعلیٰ عدلیہ کے رویے میں مطلوب تبدیلی برپا ہونے اور میڈیا کے حقیقی جمہوریت کے لئے قابل تحسین پوزیشن لینے کے بعد اب کوئی مخفی طاقت اس پوزیشن میں نہیں رہی کہ وہ ملک کی بربادی کا علاج ٹیکنوکریسی کے غیر آئینی حکومتی سیٹ اپ سے کرنے کا تجربہ کرسکے۔ سٹیٹس کو کے ٹوٹنے کے خوف میں مبتلا روایتی سیاسی قوتیں بھی یہ ذہن سے نکال دیں کہ وہ شفاف انتخاب کے لئے کسی بھی آئینی تقاضے سے صرف نظر کرکے فقط سماجی پسماندگی کے گارے سے بنی”عوامی عدالت“ سے فیصلہ لے کر آئندہ بھی عوام پر مزید پانچ سال کے لئے مسلط رہیں گی۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی پانچویں مدت کو تمام تر عوام دشمن حکومتی اقدامات کے باوجود، آئین کے تابع کیا گیا ہے تو اب کوئی وجہ نہیں رہی کہ آئین الیکشن سے متعلق کسی ایک شق کو بھی ناقابل عمل قرار دے کر اس کا مذاق ا ڑا کر اور اس پر طنز کے ڈوگرے برسا کر ٹیکس چور ، قرض خور، جعلی ڈگریاں بنانے والے جعلساز اور دوسرے ملکوں کے شہری سٹیٹس کو کی طاقت سے مرضی کا انتخاب کراکر برائلر اسمبلی بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ تو اب ثابت شدہ ہے کہ ملک میں کوئی خونی انقلاب آئے گا اور نہ جاری نظام کی شیطانیوں کے بعد فقط مارشل لاء کے نفاذ کا ہی راستہ ہوگا۔ لیٹرے سیاستدانوں کو عوامی گالی سے پریشان اور تبدیلی کے نام سے چڑھنے والے کتنے کوڑھ مغز ہیں کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کے خونی انقلاب کے بغیر ہی مطلوب تبدیلی کا عمل جاری و ساری ہے اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عوامی عدالت کا بنایا ہوا وزیر اعظم لاقانونیت مچانے پر وزیر اعظم نہیں رہا اور انتخاب کے لئے نااہل ہوگیا تو یہ سٹیٹس کو کی زہر آلود چٹان میں دراڑ ڈالتے ہوئے ایک موثر اور مطلوب تبدیلی کا آغاز ہی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ محدود ذہن کے مصنوعی سیاسی خاندانوں کے باجگزار مصنوعی دانشور وں کے نزدیک تبدیلی کا فقط ایک ہی ماڈل ہے اور وہ ہے خونی انقلاب۔
وہ اپنے دائرے میں بہت نازاں ہیں کہ یہاں تو نہ تحریر سکوائر بنا، نہ تیونس جیسا انقلاب آیا نہ شام کی طرح لوگ جانی قربانیوں کے لئے تیار ہوئے۔ سو سٹیٹس کو ناقابل شکست ہے۔ جاری نظام، بد تشکیل دینے والی سیاسی جماعتوں نے آئین 1973ء کی مکمل بحالی کو تو برسوں ہدف بنائے رکھا کیونکہ نیم فوجی یا نیم جمہوری ادوار کی ترامیم نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا تھا، لہٰذا ان کا یہ مطالبہ تو منطقی اور باجواز تھا کہ آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے لیکن اس کی بحالی کے پانچ سال میں یہ ثابت ہوگیا کہ سٹیٹس کو کی طاقتیں آئین کا جزوی اطلاق اسی حد تک چاہتی ہیں کہ یہ انتخاب کی ”عوامی عدالت“ لگا کر اپنی حکومت کے قیام کا فیصلہ لے سکیں۔ خود عوامی عدالت (الیکشن) لگانے کے لئے مطلوب آئینی تقاضوں کے ذکر سے بھی ان کی جان نکلتی ہے۔ آئین کا تقدس لمحے میں ختم ہوجاتا ہے اور یہ 62-63جیسی آرٹیکلز کو ناقابل عمل قرار دینے لگتے ہیں اور طرح طرح سے اس کی بھد اڑاتے ہیں۔۔ اب انہیں یہ بھی ڈر ہے کہ متحد ہو کر اگر اس دو تہائی اکثریت 62-63کے آرٹیکلز سے جان چھڑانے کی کوشش کریں تو میڈیا اور عوام نہ بپھر جائیں کیونکہ ہر دو آئینی آرٹیکلز62-63کا تعلق ایک عوام دوست معیاری مجلس قانون ساز کے قیام کو یقینی بنانے سے ہے۔ اب اگر ٹیکس چور قرض خور، کرپٹ اور جعلساز انتخابی امیدوار بننے کے لئے چھلنی میں سے گزرنے کے لئے کوئی سوراخ کریں گے یا پرانی چھلنی استعمال کریں گے تو عوامی شور شرابا مچے گا، لوگ عدالتوں کا رخ بھی کریں گے بلکہ شروع کردیا ہے۔
ڈرامائی دھرنے، یزیدیوں سے سمجھوتے کرنے اور پہلے سے خاصی نمایاں اپنی شخصیت کو اور نمایاں کرنے کے لئے بہت اچھل کود کے بعد بالآخر جناب طاہر القادری نے بھی صراط مستقیم پکڑ لیا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹادیا ہے ۔یہ طلبی انصاف اور قانون کا راستہ ہے، اس پر کوئی تنقید کی گنجائش نہیں، خاکسار نے تو انہیں دھرنے کے دوران بھی یہ راہ دکھائی تھی لیکن ان کا ا یجنڈا فقط وہ ہی ہے جو وہ کہہ رہے ہیں یا وہ بھی جو ابھی نظر نہیں آرہا۔ ویسے تھوڑا سا عوامی تحریک کا نقاب اٹھانے سے عیاں ہوا بھی ہے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں پیشہ ورانہ ابلاغ کی موثر معاونت اور آزاد عدلیہ کے آئین کی تشریح کے آئینی فرض کی ا نجام دہی سے جو تبدیلی برپا ہورہی ہے۔ اسے روکا جاسکتا ہے نہ اس میں اب رکاوٹیں ڈالی جاسکیں گی۔ سیاسی خاندانوں کے باجگزار دانشور اسی میں مست رہیں گے کہ”پاکستان میں خونی انقلاب نہیں آسکتا“ اور تغیر پسندوں پر طنز طعنہ کرتے رہیں گے۔ یہ بدمست سیاستدانوں کے غلام ہیں، مست رہیں اور تبدیلی کی قوتیں اپنا کام۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کا راستہ بلند ہوتے ہوئے عوامی شعور سے نکل رہا ہے جس میں اس کے معاون میڈیا اور عدلیہ ہے اور سب سے بڑھ کر آئین پاکستان جس پر ملک کی تمام پارٹیوں کا اتفاق ہے اورجو پاکستان کی مقدم قومی تاریخی دستاویز ہے۔ ہم امریکہ کو کوستے تو بہت ہیں وہ بھی ایسے کاموں سے باز نہیں آتا کہ ہم اس کی اچھائیوں پر نظر ڈالیں اور اس سے کچھ سیکھیں لیکن بدترین جمہوریت کو بھی دیوی ماننے والے اور تغیر پسند دونوں یاد رکھیں کہ امریکہ، طاقت اپنے اتحاد سے بنا اور”متحدہ“ کہلایا اس کا یہ اتحاد13ریاستوں کی فیڈریشن کے اس چارٹر پر بنا تھا جس نے بعد میں امریکی آئین کی شکل اختیار کی جس پر پوری قوم220سال سے متحد اور منظم ہے۔ کون ہے جو آج پاکستان میں آئین 1973ء سے اختلاف کرتا ہے، کرتا ہے تو باہر آئے اور کھل کر آئے، وگرنہ آئین کے کسی یا کچھ اجزاء کو معطل کرکے کھل کھیلنے کا زمانہ لد گیا۔ کیا آئین پاکستان ٹیکس چوروں ،قرض خوروں، ہزاروں ارب کی کرپشن کرکے پوری قوم کو اندھیروں میں غرق کرنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے احتساب کا حق قوم کو نہیں دیتا ہے؟یا انہیں دوبارہ اسمبلیوں میں لے جانے کا راستہ نکالتا ہے؟ اب یہ بھی نہیں مانا جائے گا آئین کے مکمل اطلاق کی روشنی میں الیکشن کے انعقاد کیلئے بہت وقت درکار ہے بالکل نہیں جو امیدوار آئین کی شرائط اور اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتا اسے الیکشن پراسس سے باہر کرنا کوئی مشکل کام نہیں،صرف ثابت ہونا چاہئے کہ وہ62-63آرٹیکلز کے مطابق امیدوار بننے کا اہل نہیں یا پھر الیکشن پراسس میں آئین کے کچھ متعلقہ اجزاء کو معطل کرکے ہی”عوامی عدالتیں“ ایسی حکومتیں بناتی رہیں جو فوری بعدازانتخاب عوام کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہوئے ان ہی کے دئیے ہوئے ”مقدم فیصلے“ کی بنیاد پر بدترین طرز حکومت کی مدد سے دھما چوکڑی مچاتی رہیں جس میں کرپشن کا بازار گرم ہوتا ہے۔ جاگیردارانہ جمہوریت کے پجاری، خطرناک اور تباہ کن اور سست ترین ”ارتقاء“ کے ذریعے جمہوریت کی میٹھی گولی سے پاکستان کو جاگیردارانہ جمہوریت کی بالا دستی سے زہر آلود کرنے والے ثناء خواہان جمہوریت ذہن نشین کرلیں کہ اگر اس بار الیکشن پراسس کسی بھی اعتبار سے غیر آئینی ہو ا تو اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی برائلر اسمبلیاں پانچ سال تو کیا پانچ ماہ بھی زندہ نہ رہ سکیں گی۔ ان کی موت ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوگی جس کا مرکزی نکتہ فقط آئین1973ء کا مکمل ا طلاق ہوگا جس کا آغاز اسی آئین کے مطابق انتخابی عمل کو یقینی بنانے سے ہوگا۔
تازہ ترین