• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انتخابات کی فضا پیدا ہوچکی ہے، اگرچہ اِس کو بہتر بنانے کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا دیا اور حکومت سے کچھ مطالبات منوائے، حکومت خاموشی سے اِس موقع کی تلاش میں ہے کہ کوئی بہانہ بنے تو انتخابات کو التوا میں ڈالا جاسکے مگر اُس کے جواب میں میاں نواز شریف بمع اپنے اتحادیوں کے اور عمران خان الگ چوکنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر دباوٴ بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے پارلیمان گاہ سے الیکشن کمیشن تک 4فروری 2013ء کو دھرنا دیا۔ فنکشنل لیگ اور جماعت اسلامی نے بھی ساتھ دیا۔ دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری سے پی پی پی کے مذاکرات 27 /جنوری 2012ء کو ہوئے جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ انتخاب مقررکرنے پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کو سوائے چیف الیکشن کمشنر کے ڈاکٹر طاہرالقادری نے غیرقانونی قرار دیا اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اس کے علاوہ دستور کی شق نمبر 62 اور 63 پر مکمل عملدرآمد پر اتفاق ہوا جس کے یہ معنی ہوئے کہ صرف صادق و امین اور اچھی شہرت کے حامل الیکشن میں کھڑے ہوسکتے ہیں اور الیکشن کمیشن کو ایک ماہ اس بات کا جائزہ لینے کیلئے دیا گیا کہ وہ دیکھ لیں کہ کوئی بھی امیدوار اس معیار پر پورا نہ اترے تو اس کو الیکشن لڑنے نہ دیا جائے، ڈاکٹر طاہرالقادری اور حکومت کے درمیان الیکشن کمیشن اور صوابدیدی فنڈز پر ڈیڈلاک ہوگیا۔ منہاج القرآن کے سربراہ جو اب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ 25 ہزار ارب روپے صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے موجودہ ممبران کو صوابدیدی فنڈز دیئے گئے ہیں جو اُن کے خلاف انتخاب کرانے والے کے برابری کے حق کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لئے انتخابات کس طرح منصفانہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ الیکشن کمیشن کا انتخاب غیرآئینی و غیرقانونی ہے، اُس کو اُن ہی قواعد کے مطابق منظم کیا جائے جو دستور میں طے کردیئے گئے ہیں۔ حکومتی جماعت اور اُس کے اتحادیوں نے اس پر اصولی طور پر اتفاق تو کیا اور مگر کہا کہ عملاً یہ ممکن نہیں ہے اس طرح الیکشن التوا میں پڑجائیں گے۔ اس پر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ وہ آزاد ہوں گے جو راستہ وہ اختیار کریں گے تاہم منظرنامہ اس وقت یہ بن رہا ہے کہ پاکستان میں میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے کی ناکامی کے بعد عوام پھر سے میاں محمد نواز شریف کی طرف رہنمائی کیلئے دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف پاکستانی پیپلزپارٹی ہر طرح سے ن لیگ کو کمزور کرنے کیلئے اتحادیوں اور حمایتیوں کو توڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ اُس کا انداز یہ ہے کہ ن لیگ کی وہ بااثر شخصیات جو الیکشن جیت سکتی ہیں اُن کو توڑ رہی ہے، جیسے مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور ڈیرہ غازی خاں کے اہم جاگیردار ذوالفقار علی کھوسہ کے بیٹوں نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد ق لیگ میں شامل سابق صدر فاروق لغاری کے خاندان اور بیٹوں کا مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ لغاری خاندان بھی ڈیرہ غازی خاں کے رہائشی ہیں اور آپس میں اختلافات رکھتے ہیں۔ ایک گروپ اگر ایک پارٹی میں جاتا ہے تو دوسرا گروپ دوسری پارٹی میں چلا جاتا ہے۔اس کے جہلم سے تین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران، راجہ محمد افضل خاں جو 1997ء، 1993ء، 1988ء، 1985ء میں بطور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1991ء میں سینیٹ کے ممبر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اب انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ دیا اور پی پی پی میں شامل ہوگئے۔ ان کے ساتھ راجہ محمد صفدر، ایم این اے اور راجہ محمد صفدر خاں سابق ایم این اے جن کا تعلق جہلم سے وہ بھی پی پی پی میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے کراچی میں 19 جنوری 2013ء کو بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور سے بلاول ہاوٴس میں ملاقات کی اور اپنی شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ تینوں حضرات پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ناراض تھے۔ اسی طرح ذوالفقار علی کھوسہ صاحب بھی اپنی قیادت سے ناراض تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن بھی اُن کے خلاف تھے۔اس کے علاوہ گورنر پنجاب کے تین صاحبزادے پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ ایم این اے سینیٹر مصطفی محمود، ایم پی اے علی محمود اور سید مرتضیٰ نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ گورنر پنجاب جو پہلے مسلم لیگ فنکشنل میں تھے اور پیرپگارا کے چچازاد بھائی تھے انہوں نے یہ چاہا کہ اُن کے صاحبزادے کو پنجاب میں مسلم لیگ فنکشنل کا صدر بنانے کو کہا جس کو پیرپگارا نے مسترد کردیا۔ اسکے بعد وہ پی پی پی میں شامل ہوگئے۔اس کے بعد سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر جو ق لیگ سندھ کے صدر تھے، نے مسلم لیگ فنکشنل میں 23 جنوری 2013ء کو شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور ممبران فنکشنل لیگ میں شامل ہوں گے۔یوں اس وقت سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) اور نہ ہی پی پی پی کیلئے یہ وقت اچھا ہے، دونوں زبردست توڑجوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
مگر اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ معروضی حالات میں کسی اور کے بطور مسیحا موجود نہ ہونے کی صورت میں میاں محمد نواز شریف ہی ایک اچھے سیاستدان کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو تین بڑے ہیروز میں سے ایک ہیرو ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے ایٹمی پروگرام شروع کیا، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں جنہوں نے ایٹم بم بنایا اور میاں محمد نواز شریف جنہوں نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ ہم نے میاں نواز شریف پر کچھ عرصے سے سخت تنقید کی ہے کہ وہ پی پی پی حکومت کے خلاف اٹھ کر عوام کو راحت فراہم کریں مگر وہ اپنی دوررس حکمت عملی کے تحت ایسا کرنے سے قاصر رہے اور اب موجودہ صورتحال میں ہم بھی اُن کو سارے سیٹ اپ میں ایک بہتر رہنما کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
تازہ ترین