• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارےملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو اس سے جان چھڑانے کے لیے فوراً ایک کمیٹی قائم کردی جاتی ہے۔ یہ جاننے بغیر کے مسئلہ کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کا حل کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ عموماً ایسی کمیٹیوں میں عہدے کے حصول کے خواہشمند افراد شامل ہوتے ہیں اورمیٹنگس کالامتناہی سلسلہ شرو ع ہوتا ہے اور پھر کسی حدتک تیسرے مسئلہ کے شروع ہوجانے پر دب جاتا ہے۔ یوں پہلا مسئلہ اپنی جگہ پر ہی رہتا ہے کہ اگلے مسئلے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جاتی ہے۔ یوں مسائل کے انبار کے ساتھ ساتھ کمیٹیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاچلاجاتا ہے جو کہ یقینی طور پر معیشت پر مالی بوجھ کی وجہ بنتا ہے…لہٰذا ضروری امریہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شہروں اور دیہاتوں میں موسم تبدیل ہونے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔ ایسے میں اگر بروقت اور طویل المدتی فیصلے نہ کیے گئے توآنے والے سالوں میں عوام کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ ہوجائے گا۔ ابھی ان مسائل کا سامنا صرف کراچی کو ہے۔ لیکن کچھ شک نہیں کہ اگرحالات اس طرح چلتے رہے تو لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد کو انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جو آج کراچی کے عوام کے مسائل ہیں۔ یعنی پانی کی کمیابی اور ٹینکرمافیا کی آمدنی، سیوریج کا خراب نظام،آئے دن گٹروں کا ابلنا، گندگی کا ڈھیر، ٹرانسپورٹ کی کمیابی، خالی سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا کا کنٹرول، بھیکاریوں کی بھرمار اور ان کی مضبوط مافیا، فٹ پاتھوں پر قبضہ وغیرہ وغیرہ یہ وہ مسائل ہیں جو کہ آبادی کے دباؤ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں جب دیہی علاقوں سے لوگ شہری علاقوں میں اس لیے منتقل ہوتے ہیں کہ دیہاتوں میں تعلیم سے لیکر تمام بنیادی سہولتوں کی ناکافی سہولیات موجود ہوتی ہے۔ لہذا لوگ تعلیم، صحت، روزگار کے لیے شہروں کارخ کرتے ہیں۔ وہاں رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں اور گھروں کی مانگ بڑھاتے ہیں۔ جس سے رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز متحرک رہتے ہیں۔ یوں اونچی اونچی عمارتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ بغیر یہ سوچے کہ پانی، گیس، بجلی، سیوریج، کچرے کو ٹھکانے لگانا،روڈ اورٹرانسپورٹ کی سہولیات آبادی کے مطابق بھی موجود ہوں گے یا نہیں۔ لیکن افسوس ایسا بالکل بھی نہیں سوچاجارہا ہے۔ اب تو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم میں تبدیلی کے بارے میں واضح طور پر بتایاجارہا ہے ۔لیکن سوائے کمیٹیوں کی تشکیل یا میڈیا میں آکربیان بازی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کہاجارہاہے ایسے میں آنے والے مشکل حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ کراچی، لاہور، اسلام آباد میں آنے والے وقتوں میں بارشوں کا زور زیادہ رہے گا ۔ابھی ہونے والی بارشوں میں یہ شہر دریاکامنظرپیش کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ جب بارشوں کا زور مزید بڑھے گا تو کیا ہوگا؟ کیا یہاں سمندر کی طرح تیزلہریں اٹھیں گی اور سب کچھ بہاکرلے جائیں گی؟ برائے مہربانی سنجیدگی اختیار کیجئے ۔ ایک مضبوط ماسٹر پلان بنایئے جو کہ اگلے سو سالوں کے لیے ہو ۔ کیونکہ موجودہ نظام کو سوسال سے زیادہ ہوچکے ہیں(انگریزوں کا بنایاہواتھا) اب اس پر گزارہ کرنا بے وقوفی ہوگی۔ لہذا آنے والے حالات کا تخمینہ لگاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائیں اور مزید چوڑا سیوریج نظام بنائیں تاکہ بجلی کی کمی، پانی اور نکاسی آب کے مسائل نہ بھگتناپڑے ۔ اسکے لیے کمیٹی نہیں بلکہ اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کی مدد سے شہروں کا نیا ماسٹر پلان بنائیں۔ وسائل کی کمی کا رونا بند کریں۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ ان مسائل کے انبار میں آپ بھی دب جائیں۔

تازہ ترین