• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے کسی بھی دور میں جمہوری اقدار کے تحت نہیں چلایا گیا جب سول حکومتوں کو موقع ملا وہ آئین اور قانون کی عملداری قائم کرنے میں ناکام رہیں، جب بھی الیکشن ہوئے ان میں دھاندلی کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جب یحییٰ خان کے دور میں انتخابات ہوئے اس میں بھی بدترین دھاندلی ہوئی اس وقت کے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے ہتھیار بند کارکنوں نے کسی غیر عوامی لیگی کو گھروں سے نہیں نکلنے دیا۔ ایسا خوف و ہراس تھا کہ پاکستان کے حامی گھروں سے نہیں نکل سکے اگر عوامی لیگی طاقت کا مظاہرہ نہ کرتے تب بھی وہ جیت جاتے اور اکثریت انہیں ہی حاصل ہوتی لیکن بدامنی اور خوف نے یہ تماشا دکھایا کہ پی ڈی پی کے نورالامین کے علاوہ کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا اور وہ بھی اس طرح کہ عوامی لیگ کی لیڈر شپ نے انہیں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کیا۔پھر ایک الیکشن پیپلزپارٹی کے دور میں ہوئے اور یہ الزام لگایا گیا کہ ان میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے اس کے خلاف نو جماعتوں نے مل کر تحریک چلائی نتیجے میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا۔ یہ مارشل لاء جو الیکشن کرانے اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر لگایا گیا تھا ایک عشرے تک قائم رہا۔ نئے دور کے آثار اس وقت نمودار ہوئے جب 1988ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے۔ اس وقت غلام اسحاق خان مرحوم صدر تھے الیکشن کے نتیجے میں مرکز میں بے نظیر صاحبہ کی حکومت بنی لیکن اس کا انجام بھی خاتمے پر ہوا، دوبار میاں نواز شریف وزیراعظم ہوئے دو دفعہ بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم رہیں لیکن یہ حکومتیں جو جمہوریت کے نام پر وجود میں آئی تھیں کرپشن اور غیر آئینی اقدامات، بدامنی اور قانون کی عملداری کے فقدان کو وجہ بنا کر حکومتوں اور اسمبلیوں کو تحلیل کیا جاتا رہا۔ سپریم کورٹ آزادی سے فیصلے نہیں کر سکتی تھی اور نہ انتظامیہ اسے ایسا کرنے دیتی تھی ایک دفعہ تو یہاں تک ہوا کہ جب بے نظیر نے اپنی حکومت کی تحلیل کو چیلنج کیا تو ان کا دعویٰ مسترد کردیا گیا اور جب بالکل ویسے ہی مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تو نواز شریف کی حکومت کو بحال کردیا اور اسمبلیوں کو بھی بحال کردیا گیا۔ سپریم کورٹ ہی کے ایک جج جناب سجاد علی شاہ نے ایک الگ مختصر فیصلہ لکھا اور یہ لکھا کہ نواز شریف کو اس لئے بحال کردیا گیا کہ وہ پنجابی ہیں اور بے نظیر کے دعوے کو اس لئے مسترد کردیا گیا کہ وہ سندھ کی ہیں۔آج سپریم کورٹ پوری آزادی کے ساتھ انتظامیہ میں شامل کرپٹ لوگوں وزیروں اور وزیراعظموں کے خلاف بھی فیصلے کر رہا ہے یہ اور بات کہ ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا لیکن یہ صورتحال اہل نظر کیلئے اور عوام کے لئے وہ منظر پیش کر رہی ہے کہ ماضی میں جسٹس منیر سے لیکر اور آج کی عدلیہ تک، انتظامیہ کیا کچھ نہیں کر رہی ہوگی۔ میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی آزادی نے عوام سے کچھ چھپا نہیں رکھا۔سیاستدان جس طرح معاشرے میں اور عوام کے سامنے Expose ہوئے ہیں اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے، پاکستان ساری دنیا میں بدنام ہو گیا ہے۔
خرابی نظام میں نہیں ہے جمہوریت ایک اچھا نظام حکمرانی ہے خرابی ہمارے یہاں سیاستدانوں میں ہے، جن کا تعلق طبقہٴ اشرافیہ سے ہے، بیورو کریسی میں ہے پاکستان کو ایک جدید فلاحی ریاست بنانے کا ایک ہی راستہ ہے آئین کا احترام ، قانون کی بالادستی، آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے ذریعہ جمہوری حکومت کا قیام، دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ آج تک کسی حکومت نے جو منتخب ہو کر آئی مملکت آئین کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کی، نہ آئین کا احترام ملحوظ رکھا اور نہ حلف کا جو انہوں نے آئین کے تحت اٹھایا تھا۔ حتیٰ کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جو ترامیم ان حکومتوں نے آئین میں اپنے مخصوص مفادات کی خاطر کی تھیں ان کو بھی بعض اوقات خاطر میں نہیں لایا گیا۔ عدالتوں کو دباؤ میں لانے کے حربے استعمال کئے گئے۔ اقتدار میں آنے کیلئے برائی اور اچھائی میں تمیز نہیں کی گئی یہ میں نے اپنے ایک کالم میں 8جولائی 2000ء میں لکھا تھا۔
یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں قانون کی عملداری نہیں ہے، آئین کو بالادستی حاصل نہیں ہے۔ یہ آج ہرطرف ہلچل ہے اور شور ہے یہ اس لئے ہے کہ اگر الیکشن آئین کے تحت ہو گئے تو موجودہ سیاستدان سیاست سے باہر ہو جائیں گے۔ میں نے 8 جولائی 2000ء کے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ آرٹیکل62 میں اسمبلیوں تک پہنچنے اور انتخاب میں حصہ لینے کیلئے جو شرائط ہیں وہ اپنی جگہ۔ ایسے کسی شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے جس نے بینکوں سے قرضہ لیا اور اسے نہیں لوٹایا اور معاف کرالیا۔ اس میں یہ بھی ہونا چاہئے کہ اگرکسی امیدوار نے کسی فرد یا کسی اور مالی ادارے سے قرضہ لیا ہے اور وقت پر ادا نہیں کیا ہے اور فوت ہو گیا ہے تو وہ قرضہ اولادوں سے وصول کرنا چاہئے۔ایک اور بات یہ کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت جب آئے گی جب الیکشن آئین کے مطابق ہوں گے اور رائے دہندگان آزادی اور بے خوفی سے اپنا ووٹ استعمال کر سکیں گے ورنہ جمہوریت خواب ہی رہے گی۔
تازہ ترین