• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ اسلام کو بُرا بھلا کہیں اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑائیں۔ اگر آپ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اگر آپ اس ملک کی نظریاتی اساس کو رد کرکے پاکستان ہندوستان بھائی بھائی کا نعرہ لگائیں اور اگر آپ پاکستان کی فوج کو گالیاں دیں اور ایک نئے ٹرینڈ کے مطابق پاکستان کی آزاد عدلیہ کو بھی لتاڑیں تو دنیا بھر میں آپ کی واہ وا ہوگی۔ بہتر سے بہترین انٹرنیشنل ایوارڈز سے آپ کو نوازا جائے گا اور پاکستان میں رہنے والا ایک مخصوص لبرل اور سیکولر طبقہ آپ کو ہیرو کی طرح دنیا بھر کے سامنے پیش کرے گا۔ کوئی اگر ان کی اسلام دشمنی، پاکستان دشمنی یا فوج اور عدلیہ کے متعلق ہرزہ سرائی پر بات کرے تو ایک دم پھدک کرچیخنے لگتے ہیں کہ اعتراض کرنے والوں نے تو اُن کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ خود تو پاکستان کو توڑنے تک کی عالمی کوششوں کا حصہ بن جائیں گے مگراُن کی اس ضمیر فروشی پر کوئی بات کرے توکہتے ہیں ظلم ہو گیا۔اسلام کو بدنام کریں گے مگر جب کوئی اسلام کا حوالہ دے کر اُن کو غلط ثابت کرے تو کہتے ہیں کہ اسلام پر بات نہ کریں۔ اپنی نام نہاد روشن خیالی اورمغرب کی بے حیائی کو ترقی تصور کرنے والے اسلام کو ریاستی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی امور سے الگ تھلگ رکھنے کا ہمیں سبق پڑھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ سیاست میں اسلام کو مت لائیں..... معیشت کو اُس انداز میں چلائیں جیسے آج کی ترقی یافتہ دنیا چلا رہی ہے جس میں سود ایک بنیادی جز ہے.......ریاست سے مذہبکا کیا تعلق....... اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ گویا اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہنے والا یہ طبقہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبیﷺ کی بات کو چھوڑ دیں۔ یہ ہم سے یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ ہم آئین پاکستان کو بھی تسلیم نہ کریں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی بشمول ریاستی ، سیاسی، معاشی اور معاشرتی امور کے بارے میں باقاعدہ اصول فراہم کرتا ہے مگر ہمیں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ ہم مذہب کو اپنی اپنی ذاتی زندگیوں تک محدود رکھیں۔ بقول علامہ اقبال
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
قرآن کے مطابق جو اللہ کے قانون کے تحت فیصلہ نہیں کرتے، وہی ظالم ہیں....وہی فاسق ہیں....وہی کافر ہیں۔قرآن پاک میں سود کا کاروبار کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایسا کر کے اللہ تعالیٰ اور نبیﷺ کے ساتھ جنگ کررہے ہیں اور یہ بھی کہ سود خور قیامت کے دن ایسے اُٹھایا جائے گا کہ جیسے شیطان نے اُسے چھو کر باولا کر دیا ہو ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قصاص میں زندگی ہے (یعنی خون کے بدلے خون) مگر ہمیں سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ موت کی سزا کو ختم کر دیا جائے کیوں کہ یہی نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کا رواج ہے۔ ہم سے توقع اس بات کی بھی کی جا رہی ہے کہ ہم اللہ اور نبیﷺ کے قوانین کو (معاذاللہ) رد کر کے ظالم ہو جائیں، فاسق ہو جائیں اور کافر ہو جائیں اور اس حد تک چلے جائیں کہ (معاذاللہ) ہم اپنے رب اور رسولﷺ سے جنگ کرنے پر اتر آئیں۔ اگر ہم سیاست ، ریاست ، معیشت یا معاشرہ سے اسلام کو الگ کر دیں گے تو پھر ہم مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان، جس کا آئین قرآن اور سنّت رسولﷺ کو تمام ریاستی معاملات میں بنیاد تسلیم کرتا ہے، کی معیشت کی بنیاد سود کی لعنت پر آج بھی قائم ہے اور اس مسئلہ میں کوئی ریاستی ادارہ،کوئی سیاستدان، کوئی آئینی عہدیدار، کوئی حکمران، کوئی جج، کوئی جنرل کچھ نہیں بول رہا۔ جب سے آصف علی زرداری صدر بنے پاکستان میں صرف ایک قاتل کو پھانسی دی گئی، وہ بھی اس وجہ سے کیوں کہ قاتل اور مقتول کا تعلق فوج سے تھا ورنہ ہم تو اللہ کے حکم کے برعکس مشرکوں کے حکم کے آگے جھک چکے۔ ہندوستان نے حال ہی میں پہلے اجمل قصاب کو پھانسی دی اور اب افضل گورو کو پھانسی دے کر شہید کر دیا۔ ہم ہیں کہ ہندستانی جاسوسوں اور مجرموں کو ایک ایک کر ہیرو بنا کر ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں۔ پاکستان ہندوستان کو خوش کرنے کے لیے بھارتی دہشتگرد اور کئی پاکستانیوں کے قاتل سربجیت سنگھ کی پھانسی کو عرصہ سے روکے ہوئے ہیجبکہ ہندوستان پاکستانی قیدیوں کی ایک ایک کر کے لاشیں بیچ رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ مسئلہ یہ رہا کہ اسلام کے نام پر ہم نے یہ ملک حاصل تو کر لیا اور اس کو ایک اسلامی آئین بھی دے دیا مگر اس کے باوجود ہم اُس نظام کا نفاذ نہیں کر سکے جس کا حکم ہمیں اسلام دیتا ہے۔ اسی وجہ سے پہلے یہ ملک دولخت ہوا اور آج بھی زبان اور فرقوں کی بنیاد پر بُری طرح تقسیم در تقسیم کے فتنہ کا شکار ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کا یہ المیہ رہا کہ وہ امریکا و مغرب کے زیر اثر رہے اور اب بھارت کی غلامی کو تسلیم کرنے کے رستے پر چل رہے ہیں۔ پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرنے کے لیے ریاست کی اسلامی اساس، اسلامی قوانین اور آئین کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں اسلام سے شرمندہ شرمندہ رہنے والوں کی خوب پذیرائی کی جا رہی ہے جبکہ ان پر اعتراض کرنے والوں کو کوسا جا رہا ہے۔میڈیا کے ذریعے امریکا و یورپ اور بھارت سے مقابلہ کرنے کے لیے شرم و حیا کو خیر باد کہہ کر بے غیرتی اور بے شرمی کورواج دینے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اگر ہمیں اپنی مسلمانیت اور پاکستانیت کو ان سازشوں سے بچانا ہے تو پھر اس کے لیے اسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر ہمیں فخر کے ساتھ چلنا ہے۔
تازہ ترین