• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں نے 2013 میں مجموعی طورپر162؍ارب روپے کا ٹیکس سے قبل منافع دکھلایا تھا جو 2014 میں 85 ؍ارب روپے کے اضافے کے بعد بڑھ کر 247؍ارب روپے ہو گیا۔ کسی بھی ایک برس میں بینکوں کے منافع میں 85 ؍ارب روپے کا یہ اضافہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔ اس پر بس نہیں 2015 میں پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کے ٹیکس سے قبل منافع میں 2014 کے مقابلے میں ایک مرتبہ پھر 82؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا اور منافع کا حجم 329؍ ارب روپے تک پہنچ گیا یعنی صرف دو برسوں میں بینکوں کے منافع میں 167؍ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ پاکستان میں کام کرنے والے پانچ بڑے بینکوں نے 1947 سے 2004 کے 57 برسوں میں مجموعی طور پر صرف تقریباً69؍ارب روپے کا منافع دکھلایا تھا۔2013ءاور2015ءکے دو برسوں میں بینکوں کے ڈپازٹس میں 25 فیصد ، قرضوں میں 17 فی صد، سرمایہ کاری میں 60فیصد اثاثوں میں 35فیصد اضافہ ہوا لیکن حیران کن طور پر منافع میں 103فیصد اضافہ ہوا۔ حکومتی شعبے کے یونائیڈ بینک کی 2002 ءاور حبیب بینک کی 2004ءمیں غیر شفاف و متنازع نج کاری کے بعد بینکاری کے شعبے کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور بینکوں نے اجارہ داریاں قائم کر کے کھاتے داروں کا استعمال کیا اور اپنا منافع بڑھانا شروع کر دیا۔ گزشتہ بر سوں میں بینکوں کے ٹیکس سے قبل منافع میں حیرت انگیز اضافے کی دو اہم وجوہات یہ ہیں۔
(1) اسٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت ملک میں کام کرنیوالے بینک ملکی کرنسی میں بچت اور معیادی کھاتے صرف نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہی کھول سکتے ہیں اور ان کھاتوں کی رقوم پر منافع بھی لازماً شرعی اصولوں کے مطابق ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔اسٹیٹ بینک نے شرعی اصولوں سے مطابقت کی شرط آج بھی برقرار رکھی ہوئی ہے مگر وہ طویل عرصے سے بینکوں کو ایسی ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کر رہا ہے جس سے بینکوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ نہ صرف کھاتے داروں کو اپنے منافع میں حقیقی معنوں میں شریک نہ کریں بلکہ ان کو دی جانے والی شرح منافع کو گرا کر اپنا منافع بڑھاتے جاتے چلے جائیں۔ یہ شریعت کے نام پر کھاتے داروں کا استحصال ہے۔
(2) ملک میں کام کرنے والے تجارتی بینکوں نے برس ہا برس سے اسٹیٹ بینک کی عملی معاونت سے صنعت تجارت، زراعت، برآمدات اور مائیکرو فنانس کیلئے قرضے فراہم کرنے کے اپنے اصل کام سے بڑی حد تک اجتناب کرتے ہوئے کرپشن اور ٹیکس کی چوری سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو قرضے فراہم کرنا شروع کئے ہوئے ہیں جن میں نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن بینکوں کا منافع بڑھتا رہتا ہے۔ نجی شعبے کے بینکوں کا بھی نجی شعبے کو قرضے فراہم کرنے سے عملاً فرار پریشان کن ہے اسٹیٹ بینک خود بھی بینکوں کو کم شرح سود پر رقوم فراہم کر رہا ہے تاکہ بینک حکومت کو اونچی شرح سود پر قرضے فراہم کر کے اپنا منافع بڑھاتے رہیں اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے معیشت کی شرح نمو سست ہو رہی ہے اور روزگار کے کم مواقع میسر آرہے ہیں۔ یہ عوام اور معیشت کیلئے تباہ کن ہے جب کہ بینکوں کیلئے نعمت غیر منزقبہ ہے۔ واضح رہے کہ چند دہائیوں قبل غیر ملکی بینکوں کا پاکستانی بینکاری کی صنعت کے ڈپازٹس میں حصہ تقریباً 10 فیصد تھا لیکن اب ان بینکوں کا حصہ جو غیر ملکیوں کی ملکیت ہیں تقریباً 50 فیصد ہے۔ یہ عالمی اداروں کے دبائو اور غیر شفاف نج کاری کے ذریعے ممکن بنایا گیا ہے۔بینکوں کے منافع میں ہوش ربا اضافے کی مندرجہ بالا وجوہات کے ضمن میں کچھ مزید گزارشات نذز قارئین ہیں۔
(1) 1950 سے 1990 کی دہائیوں میں بینکوں نے بچت کھاتے داروں کو اوسطاً 7فیصد سالانہ منافع دیا تھا۔ دسمبر 1997 میں نیشنل بینک نے بچت کھاتوں پر8.5 فیصد اور مسلم کرشل بینک نے 8.4 فیصد سالانہ منافع دیا تھا۔ گزشتہ 16 برسوں میں نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے ہوئے بچت کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع اور بینکوں کے ٹیکس سے قبل مجموعی منافع کی صورت حال یہ رہی۔
سال
بینکوں کا منافع روپے اربوں میں
کھاتوں پر سالانہ شرح منافع
1999
7
7.0 فیصد
2004
52
0.9 فیصد
2007
106
2.1 فیصد
2011
170
7.0 فیصد
2015
329
4.0 فیصد
یہ اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بینکوں نے کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع گرا کر اپنا منافع بڑھایا ہے۔ تخمینہ ہے کہ جنوری 2001 سے دسمبر2015 تک بینکوں نے اپنے کروڑوں کھاتے داروں کو تقریباً 1400؍ارب روپے اس رقم سے کم دیئے ہیں جو 2000 میں دی گئی حقیقی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔ (2) دسمبر2013 سے دسمبر2015 کے دو برسوں میں بینکوںکے قرضوں میں 1718؍ارب روپے اور سرمایہ کاری میں 5974؍ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ سرمایہ کاری کا بڑا حصہ حکومتی تمسکات میں لگایا گیا تھا تاکہ ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے میں حکومت کی مدد کی جائے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ دسمبر 2015ءمیں بینکوں کے قرضوں کا حجم 4816 ؍ارب روپے اور مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 6881؍ارب روپے تھا جبکہ 2008میں بینکوں کے قرضوں کا حجم ان کی سرمایہ کاری کے حجم سےتقریباً تین گنا تھا۔
یہ بات بھی خوش کن نہیں کہ بینکوں کے قرضوں اور ڈپازٹس کا تناسب جو 2008 میں 75 فیصد تھا (یعنی اگر ڈپازٹس 100روپے تھے تو قرضوں کا حجم 75 روپے تھا)۔ 2015 میں کم ہو کر 46 فیصد رہ گیا جو کہ پاکستان کی تاریخ کی کم ترین سطح ہے۔ اسی طرح بینکوں نے صرف 27 ہزار اداروں کو 3586؍ ارب روپے کے قرضے دئے ہوئے ہیں جو کہ بینکوں کے قرضوں کا 81 فیصد ہیں۔ یہی نہیں خیبر پختو نخوا میں بینکوں کے ڈپازٹس ملک بھرمیں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس کا 7.4 فیصد ہیں مگر اس صوبے میں بینکوں کے قرضوں کا تناسب ملک کے بینکوں کے مجموعی قرضوں کا صرف 1.2 فیصد ہے۔ بلوچستان میں یہ تناسب 2.2 فیصد اور 0.3 فیصد ہے۔ اس طرح بینک امیر اور غریب کا فرق بڑھا رہے ہیں اور دو صوبوں کو پس ماندہ رکھنے میں کردار ا دا کر رہے ہیں۔ بینکوں کے قرضوں کی معافی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں گزشتہ 9برسوں سے زیر التوا ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو 14 دسمبر2009 کو قرضوں کی معافی کے جار ی کردہ اسٹیٹ بینک کے سرکلر29 کو خلاف ضابطہ قرار دینے کے ضمن میں تفصیلی خط لکھا تھا جس کی ملکی وغیر ملکی میڈیا میں تشہیر بھی ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے 30 مئی 2011ء کو کہا کہ اس سرکلر کو اس لئے چیلنج نہیں کیا گیا کہ اس سے بڑے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے حالانکہ اس سرکلر کے ضمن میں بھی ہمارا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں جنوری 2009 سے زیر سماعت ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بھی 7 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود مقدمہ کا فیصلہ نہیں سنایا۔ بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کو منافع میں شریک نہ کرنے کے خلاف جس سے کھاتے داروں کو دسمبر 2015 تک 1400 ؍ ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے ہمارا مقدمہ7 برسوں سے وفاقی شرعی عدالت میں ہی زیر سماعت ہے۔ مزید گزارشات انشاء اللہ آئندہ۔
تازہ ترین