• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو میرا کئی بے ترتیبے انسانوں سے واسطہ ہے، ان میں بودی شاہ بھی شامل ہے۔ آج تو کمال ہی ہو گیا ہے، صبح سویرے منہ اندھیرے بودی شاہ نے آن کنڈی کھڑکائی ہے، میرے ملازم نے سوتے جاگتے، آنکھیں ملتے دروازہ کھولا اور شاہ صاحب کو ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بعد مجھے بتایا۔ میں نے اپنے ملازم سے پوچھا کہ خیر ہے پولیس آ گئی کیا۔ اس نے کہا نہیں سر، میں نے پھر پوچھا کہ کیا نیب والے آ گئے، اس نے کہا نہیں سر وہ آپ کے دوست شاہ صاحب آئے ہیں، خیر میں چار و ناچار اٹھا اور ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ آتے ہی میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ سورج اور آپ دونوں ایک ساتھ طلوع ہوتے ہیں، یہ جملہ سنتے ہی بودی شاہ کا چہرہ پہلے سے زیادہ سرخ ہو گیا۔ اس نے کہا تم بہت بدتمیز آدمی ہو، پہلے تم امریکہ میں پورا مہینہ لگا آئے اور واپس آکر بتایا بھی نہیں، یہ تو کل میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ تم وزیراعظم کے ساتھ کھڑے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر تم پر بہت غصہ آیا کہ ہمیں بتائے بغیر تم چلے گئے۔ شاہ صاحب ایک لمحے کے لئے رکے تو میں نے عرض کیا کہ حضور اس میں ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں مصروف تھا، آپ کو نہیں بتا سکا۔ میرا یہ سادہ سا جملہ شاہ صاحب کے مزاج کے سامنے کیا حیثیت رکھتا تھا، انہوں نے کہا ’’تم بہت نکمے اور نکھٹو ہو، تمہیں یہ بھی پتا نہیں کہ ایسے کاموں سے پہلے مجھ جیسے عقل مند آدمی کو بتایا جاتا ہے اور ایک یہ تمہارے ملازم، یہ بھی نواب کے بچے ہیں، صبح سے بیٹھا ہوں ابھی تک نہ ناشتہ آیا نہ چائے، پانی کا ایک گلاس پلا کر پتا نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اب حقہ بھی منگوا لو، اب کچھ منہ سے پھوٹو کہ کیا باتیں ہوئی تمہاری وزیراعظم کے ساتھ، بتاتے ہو یا میں اپنا جنتر منتر چلائوں۔ شاہ صاحب کے جملے کے اختتام کے ساتھ ہی ملازم کمرے میں داخل ہوا اور بولا سر ناشتہ لگ گیا ہے، ناشتے کی میز پر اگلا تنازع تیار تھا، شاہ صاحب نے پورے ناشتے پر قبضہ کر لیا اور کہنے لگے میں تمہیں ناشتہ نہیں کرنے دوں گا جب تک تم مجھے یہ نہیں بتائو گے کہ تمہاری وزیراعظم سے کیا باتیں ہوئیں۔ میں نے عرض کیا میرے پیارے شاہ صاحب آپ کی تقریر مسلسل جاری ہے، آپ کوئی سانس لیں گے تو میں عرض کروں گا، فی الحال آپ ناشتہ کریں اور مجھے بھی کرنے دیں، میں پھر آپ کو حقے کے کش لگاتے ہوئے ساری باتیں بتاتا ہوں، اللہ اللہ کر کے روٹھا ہوا بودی شاہ تھوڑا سا راضی ہوا۔ خیر ناشتہ کرنے کے بعد حقے کے کش شروع ہوئے تو میں نے عرض کیا، شاہ صاحب آپ مجھے بہت پیارے لگتے ہیں، آپ راج دلارے ہیں، ملاقات میں ہونے والی تفصیلی باتیں میں آپ کو تو نہیں بتائوں گا کیونکہ اس سلسلے میں وزیراعظم کے کئی وزیر اور مشیر پوچھ چکے ہیں کہ آخر آپ دونوں میں کون سی باتیں ہوئیں ہیں، اسے حسنِ اتفاق سمجھیں کہ میری اور وزیراعظم کی ملاقات کو دوران کوئی اسٹاف ممبر بھی نہیں تھا، ہماری کھل کر باتیں ہوئیں کیونکہ کسی ’’چڑیا‘‘ کا بھی خوف نہیں تھا بلکہ اب ادھر کوئی چڑیا بھی پَر نہیں مارتی، بس مختصر یہ کہ ہماری عالمی حالات، پاک امریکہ تعلقات، مسئلہ کشمیر، قومی سیاست، احتساب، کابینہ اراکین، نئی کابینہ، پارلیمانی امور، پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات، میڈیا، مہنگائی، معیشت اور پاکستان کے مستقبل پر باتیں ہوئیں۔

میں شاہ صاحب کو یہ بتا ہی رہا تھا کہ وہ غصے سے پھر لال پیلے ہو گئے اور کہنے لگے ’’میں نے تم سے تفصیل پوچھی ہے، ٹرخائو مت، اندر کی بات بتاؤ، نہیں تو میں ناراض ہوں جاؤں گا‘‘۔ میں نے کہا میرے پیارے بودی شاہ میں تمہاری ناراضی کہاں افورڈ کر سکتا ہوں؟ اندر کی باتیں تو ہمیشہ تم مجھے بتاتے ہو، مجھے بتاؤ کہ ہونے کیا جا رہا ہے؟ میں نے اسی دوران ایک اور تیر بہدف نسخہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی آپ مجھے مستقبل کی باتیں بتائیں میں پھر آپ کو تفصیل بتاؤں گا، بودی شاہ نے حقے کے تین چار لمبے کش لئے اور پھر بولا ’’دنیا کا نقشہ تبدیل ہو رہا ہے، آنے والا برس اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، حالیہ دنوں میں مودی کو جو ایوارڈ دئیے گئے ہیں وہ اسرائیلیوں اور امریکیوں کے کہنے پر دئیے گئے ہیں، تم صحافی بنے پھرتے ہو، تمہیں پتا ہے کہ اسرائیل بھارت میں ایک ایئر بیس قائم کر رہا ہے۔ اس سال کے جو چار ماہ باقی ہیں ان کا قصہ سن لیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مودی کی خوب درگت بنے گی، 22ستمبر کو مودی جب این آر جی اسٹیڈیم ہیوسٹن میں خطاب کرے گا تو اسٹیڈیم کے باہر بیس سے پچیس ہزار افراد مودی کے خلاف مظاہرہ کریں گے۔ اس مظاہرے میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کے علاوہ بدھسٹ، عیسائیوں اور سکھوں کی کثیر تعداد شریک ہو گی، یہاں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے علاوہ ’’آزاد ناگا لینڈ‘‘ اور ’’خالصتان‘‘ کے نعرے بلند ہوں گے۔ مودی امریکہ سے مایوسیوں کے سائے میں لوٹے گا۔ اکتوبر کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں کشمیر میں پلوامہ کے طرز پر ایک ڈرامہ رچایا جائے گا، اس ڈرامے کی بنیاد پر بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم میں اضافہ کر دے گی اور ساتھ ہی آزاد کشمیر پر حملہ کر دے گی۔ یہ حملہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے وسط تک ہو سکتا ہے۔ پاکستانی فوج اس کا بھرپور جواب دے گی۔ کشمیری بھی اپنا حق ادا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی افواج کو کشمیر چھوڑنا پڑے گا۔بھارت میں متشدد سوچ میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھارت کی یہی روایت رہی ہے، اس وجہ سے وہاں کی سیاسی قیادت بالخصوص نریندر مودی کی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ آج کل بھارتی ہندو نریندر مودی کو باپو کہہ کر پکارتے ہیں، یہ لوگ گاندھی کو بھی باپو کہہ کر پکارتے تھے، اور تمہیں پتا ہو گا کہ مہاتما گاندھی کو قتل کرنے والے آر ایس ایس کے لوگ ہی تھے۔ کشمیر کی آزادی کے بعد اگلے سال یعنی 2020میں بھارت پانچ ملکوں میں بٹ جائیگا۔ 2020ءخالصتان کے لئے بہت اہم ہے، 2020مشرق وسطیٰ کیلئے بھی بہت اہم ہے۔ خلیج کے بادشاہوں کی حکومت بھی خطرے میں ہے۔ اس سلسلے میں کام جاری ہے۔ بادشاہتوں کے خلاف تیزی سے ہونے والا کام سال سوا سال میں بادشاہتیں کھا جائے گا مگر اسرائیل مضبوط رہے گا۔ اسرائیل کی مضبوطی میں مسلمان ملکوں کے باہمی اختلافات مرکزی کردار ادا کریں گے۔ اگلے دو سالوں میں کسی بھی وقت ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے، یہ جنگ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ امریکہ 2025ءتک کمزور ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، اگر روس کے حصے ہو سکتے ہیں تو امریکہ کے بھی ہو سکتے ہیں۔ عروج و زوال کی نئی داستانیں قائم ہو سکتی ہیں مگر یہ سارا قصہ تھوڑے عرصے کے انتظار میں ہے‘‘۔ خواتین و حضرات آپ نے بودی شاہ کی بے تکی باتیں سنیں، ہماری طرف سے غالبؔ کا شعر سن لیجیے۔

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

تازہ ترین