• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”جب شیر جنگل سے نمودار ہوتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ مونث ہے کہ مذکر“(نظام الدین اولیاء)
وہ لوگ جو دہائیوں سے شریف الدین پیرزادہ جیسے جادوگر سامری اور، بقول شخصے مارگلہ پر”کرائے کیلئے خالی ہے“ جیسے لگتے ایوان صدر میں فوجی وردی والے حکمران دیکھنے کی عادت میں مبتلا ہوں ان کو فخرالدین جی ابراہیم کا فوٹو کب اچھا لگے گا! ان کے ہاضمے سے کب عاصمہ جہانگیر اترتی ہے۔ نیز یہ بھی کہ جب اعلیٰ عدالتوں میں شاہد اورکزئی، مولوی اقبال حیدر اور مولانا خیری جیسے (مفاد عامہ سے زیادہ مستقل مفاد کے ایجنٹ) سائل عرضیاں لے کے آکر پہنچیں تو شنید ہو کہ ملک میں مریل بکری جیسی جمہوریت کی قربانی کیلئے چمچے چھریاں تیز کردی گئی ہیں۔
کل تک زرداری مخلوط حکومت اور بڑی حزب مخالف پارٹی مسلم لیگ نواز شریف کی طرف سے مبینہ طور پر مجوزہ مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ سرگرم کارکن اور پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ عاصمہ جہانگیر کا نام آنے والے دنوں میں بطور نگران وزیر اعظم گردش میں آ جانے پر میڈیا کے ایک بڑے حصے اور کن سیاسی حلقوں میں ایک طوفان اٹھا گیا۔ عاصمہ جہانگیر کے خلاف اس طوفان بدتمیزی میں کچھ ہمارے مقتدر دوست بھی جوش خطابت یا زرداری کرپٹ حکومت دشمنی میں عاصمہ پر ترچھے تیکھے وار کرنے میں آگے نکل گئے۔ وہ اس عالم وجد میں یہ بھی بھلا بیٹھے کہ پاکستان میں یہ جو تھوڑی بہت آزادی صحافت یا عدلیہ کی آزادی ہے اس میں بھی اہم کردار اس نہتی لڑکی کا ضرور ہیجو خوفناک بھیڑیوں کے راج میں ایک بے جگر چیتی کی مثال رہی ہے۔ سندھی میں کہیں گے کہ اس خاتون کے سینے میں ایک نہیں دو دل ہیں پھر وہ بھیڑیوں کا راج عورتوں کے حقوق اور ان کی تعلیم و ترقی کے خلاف ہو یا بھیڑیئے وردی پوش ہوں کہ فل سوٹ یا شیروانی و اچکن میں ملبوس ہوکر جمہوری و شہری آزادیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے ہوں۔ لسانی و مذہبی دہشت گرد ٹولے ہوں کہ جرنیلوں کی بندوق کے ساتھ انصاف کے دوسرے پلڑے میں بقلم خود سرنگوں ہونے والے منصف۔ عاصمہ انصاف کے قاتلوں کے چہروں سے معصومیت کے لبادے دن کی روشنی میں تار تار کرتی رہی تھیں۔
ایسے منصف و اہل قلم جب آمروں کے دربار میں حلف اٹھا کر کورنش بجا لارہے تھے تب ایک نوجوان لڑکی اپنے والد کی جبس بیجا کی بنیاد پر ملک میں نظر بندیوں کے سیاہ امتناعی آمرانہ قوانین اور اپنے ملک پر غاصبانہ فوجی قبضے کی جنگ عدالتوں اور کچہریوں میں لڑ رہی تھیں جب نہ کوئی جج، نہ سیاستدان۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں قتل عام کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے کی جرأت کرسکا تھا تب ملک جیلانی نام کا ایک بہادر سیاستدان تن تنہا لاہور کے مال روڈ پر پاک فوج کے ہاتھوں اپنے بنگالی ہموطنوں کے قتل عام کے خلاف نعروں والے تحریری کتبے اٹھائے کھڑا ہوتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن سمیت ملک کے قدآور لیڈروں کے ذاتی دوست اور اپنے وسیع دسترخوان کیلئے مشہور ملک جیلانی اکثر نظربند کئے جاتے تھے تو گھر پر ان کی فقط دو بیٹیاں حنا اور عاصمہ رہ جاتی تھیں۔ حنا اور عاصمہ ہی اپنے جیل میں نظربند اباّ کے مقدمات کے سلسلے میں تھانوں اور کچہریوں میں بھاگ دوڑ کیا کرتی تھیں۔ آگے چل کر یہی بھاگ دوڑ حنا اور عاصمہ کو بے یار و مدد گار انسانی حقوق کی پامالی کی شکار پاکستانی خواتین اور اقلیتوں کیلئے تمام عمر بغیر کسی معاوضے اور لالچ کے لڑنے کے کام آئی۔ جب ملک جیلانی جیل میں نہیں ہوتے تھے تو پھر وہ میاں محمود علی قصوری کی طرح سیاسی قیدیوں اور سیاسی کارکنوں کے مقدمات عدالتوں میں مفت لڑا کرتے تھے۔ بے شک ہمارے شاہین صہبائی بھی ملک میں صحافیوں کے حقوق و آزادی صحافت کیلئے کئی صعوبتیں برداشت کرنے والے ایک ایسے ہی باپ کے بیٹے ہیں۔
جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے اکثر جج یحییٰ خان جیسے آمر کے آگے دو زانو و سربسجود تھے تو اس وقت عاصمہ جیلانی نام کی لڑکی لاہور ہائی کورٹ میں ملک میں آمریت اور اس کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے خلاف عاصمہ جہانگیر بنام ریاست کے نام سے لڑ رہی تھی۔ ”عاصمہ جیلانی بنام ریاست“ نام سے یہ مقدمہ آج بھی پاکستان کی عدالتی، چاہے آئینی و سیاسی تاریخ کے دوچند سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے کیسوں میں سے ایک ہے۔ عاصہ جہانگیر کیس کا فیصلہ انسانی بنیادی حقوق کے مقدمات میں اہم ترین مثال یا قانونی اتھارٹی ہے۔ اسی مقدمے میں جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں یحییٰ خان کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کو مسترد کرتے ہوئے یحییٰ خان اور اس کے ساتھی جنرلوں کو ”غاصب“ قرار دیا تھا لیکن عاصمہ جہانگیر کیس سننے والے جج صاحبان یحییٰ خان اور ان کی فوجی جنتا کو فقط اس وقت غاصب قرار دے سکنے کی جرأت کرسکے تھے جب یہ غاصب جنرل اقتدار سے سبکدوش ہو چکا تھا۔ وگرنہ جج صاحبان محض پانچ سال بعد پھر عوام کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرنے والے ایشیاء کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو بھی تو ”غاصب“ قرار دیتے نہ! لکیر تب پیٹی گئی جب سانپ وہاں سے گزر چکا تھا۔
ریٹائرڈ ائیر مارشل ظفر چوہدری، جسٹس دوراب پٹیل، آئی اے رحمن، عزیز صدیقی، اقبال حیدر (مولوی نہیں گرووی) اور عاصمہ جہانگیر نے مل کر پاکستان میں فوجی آمر ضیاء الحق کے دورحکومت میں پاکستان میں پہلی بار انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی ) بنائی۔ ایچ آر سی پی پہلی پاکستانی انسانی حقوق کی تنظیم تھی۔ ایچ آر سی، ویمن ایکشن فورم یا ویف اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (اس وقت کا پی ایف یو جے برنا گروپ) جیسی تنظیموں نے اس وقت کٹھور ترین فوجی آمر کے خلاف جدوجہد کا پرچم بلند کر رکھا تھا جس کے طفیل آج کے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں۔ وہ آزاد میڈیا جس کے ایک حصے کا نشانہ عاصمہ جہانگیر بھی بنتی ہیں۔ اس کی صحافی بیٹی بھی، تو کبھی ہیومن رائٹس واچ کا علی حسن دایان بنتا ہے( اس سے پہلے کہ ہزاروں کے قتل عام میں ملوث بھیڑیوں کو ڈھونڈ کرغیرت مند بریگیڈ علی حسن دایان اور اس کے انسانی حقوق کی عالمی ادارے پر چڑھ دوڑے۔ حالانکہ ہیومن رائٹس واچ کی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اس تنظیم کے ساتھ بھارتی فوج بھی اتنی ہی ناراض ہے جتنی اس کی ورلڈ رپورٹ میں ہزاروں کے قتل عام کی تفصیلات پر پاکستان کے ریاستی ادارے۔
اسی طرح جب اگلے دن ایک ٹی وی چینل پرعاصمہ کہہ رہی تھیں تو ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں کہ کوئی بات نہیں میڈیا ان کے خلاف کتنی بھی باتیں کرے لیکن وہ پھر بھی میڈیا کی آزادی کے حق میں بات کرتی رہے گی اور اس پر پڑنے والی قدغن کی مذمت۔
کیونکہ پھر وہ آمر ضیاء الحق کے دنوں میں خواتین اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین تھے کہ سیاسی مخالفین پر بے مثال ریاستی تشدد، پنجاب میں بھٹہ مزدور تھے کہ چائلڈ لیبر، نواب پور کی خواتین تھیں کہ مختارہ مائی، سندھ میں وڈیروں کی نجی جیلوں میں قید ہاریوں کا مسئلہ تھا کہ فوجی آپریشن یا کراچی میں لسانی دہشت گردی اور بارہ مئی اور عدلیہ پر پرویز مشرف کے مارشل لا اندر ایک اور مارشل لا ہوکہ پنجاب میں ونّی کا مسئلہ، بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہو کہ بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کا قتل اور تب سے اب تک سندھ بلوچستان سمیت ملک کے کونے کھدرے سے ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ لوگ ہوں کہ پختونخوا کے قبائلی وسیٹلڈ علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف وزریاں، عاصمہ ہر دور کے سول و فوجی آمر کے سامنے حق کا کلمہ پڑھتی رہی ہے۔ جہاں جنریلوں کی قوت برداشت ختم ہوتی ہے وہاں سے عاصمہ کا کام شروع ہوتا ہے۔ اب پاکستان کی اس جیتی جاگتی مجسمہ آزادی پر حملے چہ معنی؟ مقتدر دوست بھی کس کے ہاتھوں انجانے میں مہرے بنے ہوئے ہیں جو کہتے ہیں کہ عاصمہ کو نواز شریف یا آصف زرداری استعمال کرسکتے ہیں!
وہ آصف زرداری جو خود اپنا راج چلانے پر موٹومل جوتشی اور کالے بکروں اور بادام پستے کھلائے جانے والی بکری یا پرائیویٹ آرمی نما یاروں پر تکیہ کرتے ہوں تو عاصمہ اور فخرو بھائی جیسے لوگوں کو استعمال کرنے کیلئے نہرو جیسا دماغ کہاں سے آئے گا؟ رہی عاصمہ یا محمو خان اچکزئی یا عطاء اللہ مینگل جیسے لوگوں کا نگران وزیراعظم بنائے جانیوالی باتیں تو اگر وہ حقیقت کا روپ دھار بھی جائیں تو کون سا آسمان گرجائے گا! نہ اس سے ملک ٹوٹے گا اور نہ ہی کسی کا نکاح۔ اگر معین قریشی اور شوکت عزیز جسی امپورٹیڈ جنسوں سے اس ملک کا عارضی نکاح ہو سکتا ہے تو پھر اول الذکر خاتون و حضرات تو اس ملک کے اصیل بیٹے اور بیٹی ہیں۔
تازہ ترین