• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں برسوں سے جاری خونریزی اور دہشت گردی کے بیک وقت کئی عوامل اور کئی اسباب ہیں چنانچہ ان سے نمٹنے کے لئے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا طریقہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ جرائم پیشہ عناصر کی لوٹ مار، بھتہ خوری اور قتل وغارت سے نجات کے لئے یقینی طور پر قانون کے ڈنڈے کا پوری سختی سے استعمال ضروری ہے جبکہ سیاسی ، نظریاتی اور مسلکی اختلافات کے سبب ہونے والی خونریزی کے خاتمے کے لئے افہام و تفہیم اور بات چیت کا راستہ اپنایا جانا لازمی ہے۔ خودکش حملوں سے پہچانی جانے والی تحریک طالبان پاکستان بھی اسی دوسری قسم کے ذیل میں آتی ہے۔ کسی کو اس تنظیم سے اتفاق ہو یا اختلاف یہ حقائق بہرحال واضح ہیں کہ یہ لوگ مخصوص سیاسی ، مذہبی اور مسلکی فکر کے حامل ہیں۔ افغانستان پر امریکہ اور نیٹو ممالک کی فوج کشی سے خطے میں رونما ہونے والی صورتحال پر ان کا ایک اٹل موقف ہے۔ ان کے نزدیک افغانستان پر امریکہ کا فوجی طاقت کے بل پر تسلط کم ازکم اتنا ہی ناجائز اور قابل مذمت ہے جتنا پچھلی صدی کے آٹھویں عشرے میں افغانستان کے خلاف روس کا فوجی اقدام تھا۔ اس لئے ان کے مطابق امریکی تسلط کے خلاف افغانوں کی مزاحمت بھی سو فی صد جائز ہے اور اس میں تعاون اسلامی اخوت ہی کا نہیں انسانیت دوستی، انصاف پسندی اور زندہ ضمیری کا بھی تقاضا ہے۔ اپنے اس موقف میں یہ پوری طرح مخلص نظر آتے ہیں جس کا ثبوت اپنے مقصد کے لئے ان کی سخت جان اور ایثار و قربانی سے بھرپور جدوجہد ہے۔ ڈرون طیاروں سے میزائلوں کی ہلاکت خیز بارش اور دوسرے حربے ان کے حوصلوں کو پست کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ان کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقوں کے ان بہادر قبائل سے ہے جو ہماری بہت بڑی دفاعی قوت ہیں اور وطن کی حفاطت کے لئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان انہی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ ان کے متعدد گروپ ہیں اور ممکن ہے کہ ان میں پاکستان مخالف قوتوں نے اپنے ایجنٹ بھی داخل کر دیئے ہوں لیکن بحیثیت مجموعی یہ پاکستان دشمن لوگ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں نے کئی بار ان سے مذاکرات کئے جن کے نتیجے میں امن معاہدے بھی ہوئے اور ایک دوسرے کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار بھی کیا گیا۔ نومبر2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت کی دھمکی دی گئی تو29 نومبر کو ہماری عسکری قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کے بارے میں کھلے لفظوں میں کہا کہ یہ لوگ ملک دشمن نہیں ہیں اور بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا تو ہم شمالی علاقوں میں آپریشن بند کر کے ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اختلافات کا حل تلاش کریں گے اور ان علاقوں میں موجود ایک لاکھ فوج پاک بھارت سرحد پر لے آئیں گے۔ اس بریفنگ کی رپورٹ تمام قومی اخبارات میں30نومبر2008کوشائع ہوئی۔ فروری2009ء میں سوات امن معاہدہ بھی اسی لئے ممکن ہوا کیونکہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت جانتی تھی کہ یہ لوگ ملک دشمن نہیں ہیں اور ان کے بارے میں اسی یقین کی بنا پر پارلیمینٹ، قومی سلامتی کی پالیسی کے حوالے سے اپنی متفقہ قراردادوں میں شمالی علاقوں میں فوجی آپریشن بند کر کے بات چیت کے ذریعے امن وامان کی بحالی کی راہ تلاش کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ اس تناظر میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ماہ رواں کے پہلے ہفتے میں مذاکرات کی پیشکش کا حکومت کی جانب سے مثبت جواب ہی دانشمندی اور ملک و قوم کے مفادات کا تقاضا ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے یہ کہہ کر کہ گولی کسی مسئلے کا حل نہیں، عقل کی بات کی ہے لیکن مذاکرات کے لئے ہتھیار پھینکنے کی شرط ناقابل فہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہتھیار پھینک دینے والا فریق مذاکرات کی پوزیشن ہی میں کہاں رہے گا اور حکومت کو اس سے بات چیت کی ضرورت ہی کیا رہ جائے گی۔ تحریک طالبان نے بات چیت کے لئے نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کی ضمانت اور اپنے تین لیڈروں کی رہائی کی شرط عائد کی ہے۔ جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ ان رہنماوٴں میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ موجودہ حکومت کے وعدوں کی تکمیل کی یقین دہانی کرا سکے۔ میثاق جمہوریت اور بھوربن معاہدے وغیرہ کے معاملے میں صدر زرداری نے بدترین عہد شکنی کے جو مظاہرے کئے ہیں، اس کے بعد کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ موجودہ حکمراں اپنے کسی قول کی پابندی کریں گے۔ اسلئے ضمانت کی کوئی اور شکل تلاش کی جانی چاہئے جو شاید عدالتی بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک تین طالبان رہنماوٴں کی رہائی کا سوال ہے تو ماحول کو سازگار بنانے کی خاطر حکومت کو یہ پیشگی شرط پوری کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے۔ اس بات کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے کہ ماضی میں ہونیوالے معاہدے کیوں ناکام ہوئے۔ برسرزمین حقائق گواہ ہیں کہ اس کا ایک بہت بڑا سبب امریکہ کا دباوٴ تھا۔ سوات امن معاہدہ ہوا تو امریکی وزیر خارجہ بیگم کلنٹن عراق کے دورے پر تھیں، انہوں نے وہیں سے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ دوسری طرف مولانا صوفی محمد نے پاکستان کے آئین، جمہوریت، پارلیمینٹ اور عدالتوں سب کے غیر اسلامی ہونے کا فتویٰ صادر فرما کر عملاً امریکہ کے مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار کر دی۔ یہ موقف پاکستان کی ممتاز اسلامی جمہوری قوتوں کے لئے بھی قابل قبول نہیں۔ پاکستان میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ، اہل تشیع اور تصوف کے مختلف سلسلوں سے وابستہ حلقے سب ہی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے توسط سے پارلیمانی سیاست میں شریک ہیں۔ انتخابات میں حصہ لے کر ان کے نمائندے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی جیسا محتاط عالم دین اور دیگر جید علماء وفاقی شرعی عدالت میں جج کی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل میں ہر مکتب فکر کے علماء شامل ہیں، پاکستان کا دستور قرارداد مقاصد کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس میں خالص اسلامی نقطہ نظر کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ رب العالمین ہے، زمین پر انسان کے خلیفة اللہ ہونے کی حیثیت سے ملک کے عوام اقتدار کی اس امانت کے امین ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانیت کو عطا کئے جانیوالے نظام زندگی کے اس زمین پر نفاذ کے لئے وہ اقتدار کی اس امانت کو اپنے منتخب نمائندوں کے توسط سے استعمال کریں گے۔ قرارداد مقاصد کے بعد ملک میں دستور سازی کے عمل میں اسلام کے مطابق رہنمائی کے لئے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے 31 علماء نے متفقہ طور پر22 نکات مرتب کئے اور پاکستان کے دستور میں ان نکات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دستور پر ملک کی دینی جماعتوں سمیت پوری قوم متفق ہے۔ اسکے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اس موقف میں جس کا اظہار سوات امن معاہدے کے بعد مولانا صوفی محمد نے کیا تھا، مزید آگے بڑھ چکی ہے۔ اگر اس کا یہ موقف کہ پاکستان کا پورا نظام کافرانہ ہے، برقرار رہتا ہے تو کسی سمجھوتے کا راستہ نکلنا محال ہوگا لہٰذا ملک کے ممتاز علماء بالخصوص دیوبندی مکتب فکر کے علمائے کرام ، نیز اس مکتب فکر کے دینی سیاسی رہنماوٴں مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق وغیرہ کو اس متشددانہ موقف کو دلائل سے بدلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی جمہوریت، مغربی جمہوریت سے مختلف ہے۔ مغربی جمہوریت قانون سازی کا حق عوام کے نمائندوں کو دیتی ہے جبکہ پاکستانی جمہوریت اللہ رب العالمین کو قانون ساز مانتی ہے اور پارلیمینٹ کا مقصد تمدن کی ترقی کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کی بنا پر قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین بنانا ہے۔ رہنمائی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے ادارے موجود ہیں۔ اب ضرورت صرف نیک نیتی کے ساتھ اس نظام کو چلانے کی ہے۔ یہ ضرورت انتخابات میں دیانتدار اور اہل افراد کے انتخاب ہی سے پوری ہوسکتی ہے۔اگر علمائے کرام، طالبان اور ان کے ہم خیال دوسرے عناصر کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ پاکستان کا موجودہ آئینی نظام شریعت کے منافی نہیں تو یہ ایک انقلابی کامیابی ہوگی جبکہ اسکے نتیجے میں طالبان کیلئے تشدد کے بجائے پُرامن طریقوں سے ملک میں تبدیلی لانے کی راہیں کھل جائیں گی۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت مذاکرات کے معاملے میں شرائط عائد کئے بغیر پیش قدمی کرے، ڈرون حملوں پر مضبوط موقف اختیار کرے، اس مسئلے کو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورموں پر اٹھائے اور ثابت کرے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، تو انشاء اللہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور ملک میں جاری تشدد کا ایک بڑا سبب ختم ہو جائے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ مسئلہ طاقت سے حل ہوسکتا ہے تو یہ نری خام خیالی ہے۔
تازہ ترین