• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کیا رونا رویا جائے،بیورو کریسی، سیٹھوں کی ملی بھگت تو چن چڑھا ہی چکی تھی، یہ تو بھلا ہو عمران خان کا جنہوں نے ٹیکس خور تاجروں کو 50فیصد ٹیکس معافی کا فیصلہ واپس لے لیا، یہ وزیراعظم کا اچھا فیصلہ مگر سوال یہ، اسد عمر نے 54کمپنیوں کو 3سو ارب معافی کے 9نکاتی صدارتی آرڈیننس کی بنیاد کیوں رکھی، وفاقی کابینہ نے منظوری کیسے دیدی، صدر عارف علوی نے صدارتی آرڈیننس جاری کیسے کر دیا، یہ معاملہ پارلیمنٹ کیوں نہ لے جایا گیا، وزارت قانون، پلاننگ ڈویژن سمیت متعلقہ اداروں سے اس پر کیوں رائے نہ لی گئی، عمران خان اس سارے عمل سے بے خبر کیسے رہے، کیا اسد عمر، عارف علوی، کابینہ ارکان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ٹیکس خور جنہوں نے عوام سے ٹیکس اکٹھا کر کے پیسے حکومتی خزانے میں جمع نہیں کروائے، انہیں 3سو ارب کی معافی تو ظلم، ڈاکا، وہ بھی عمران خان کی حکومت میں، وہ عمران خان جو ایسے فیصلوں پر لیگیوں، پپلیوں سے کہا کرتے تھے ’’اوئے شرم کرو، یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے‘‘، سوال یہ بھی، یہ ہمارا کیسا نظامِ انصاف کہ حکومت ٹیکس لگائے، کمپنیاں عوام سے 741ارب ٹیکس اکٹھا کر لیں، 290ارب حکومتی خزانے میں جمع کروا کر باقی 451سے مکر جائیں، حکومت دباؤ ڈالے، یہ سب مگرمچھ صنعتکار عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے لیں، یعنی عدالتیں ٹیکس خور تاجروں کو یہ سہولت دے رہیں کہ آپ عوام سے وصول کردہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہ کرائیں، حیرت، حیرت، حیرت، اندازہ کریں، سندھ ہائیکورٹ نے 209، اسلام آباد ہائیکورٹ 14، لاہور ہائیکورٹ 10، پشاور ہائیکورٹ 9، سپریم کورٹ نے 6مگرمچھ صنعتکاروں کو اسٹے آرڈر دیئے، سوال یہ بھی، ندیم بابر، رزاق داؤد کوا س ڈاکے پر فارغ نہیں کر دینا چاہئے، سوال یہ بھی، یہ کیسے غلاموں کا ملک، ایک دن عمر ایوب، ندیم بابر پریس کانفرنس کرکے پیسے معافی مطلب صدارتی آرڈیننس کی فضیلتیں بیان فرما رہے تھے، اگلے دن حفیظ شیخ کی سربراہی میں یہی سب لوگ صدارتی آرڈیننس واپس لینے کے فیصلے کی برکات پر روشنیاں ڈال رہے تھے، سوال یہ بھی، خزانہ، صحت، تجارت، انڈسٹری، پٹرولیم، اطلاعات جیسی اہم وزارتیں مشیروں کے رحم وکرم پر، آخر کب تک یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا، سوال یہ بھی، کیا اب حکومت بیورو کریسی بااختیار سیٹھوں اور مہربان نظامِ انصاف کے چنگل سے 451ارب نکلوا پائے گی۔

کیا کیا رونا رویا جائے، ذہنی مریض صلاح الدین پولیس حراست میں مر گیا یا مار دیا گیا، سانحہ ساہیوال کے بعد ایک اور کارنامہ، دکھ یہ، سال گزر گیا، اصلاحات ہوئیں نہ پنجاب پولیس سے گلو بٹ نکالے جا سکے، دکھ یہ بھی ایک بینک کی اے ٹی ایم مشین کا ایک کارڈ چرانے والا ذہنی مریض صلاح الدین یوں مرا، لیکن وہ جو پاکستان کے ہر محکمے، ہر بینک، ہر شعبے کو لوٹ گئے، ملکی خزانہ ہی ڈکار گئے، جنہوں نے پوری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا، وہ سب ڈاکو، گاڈ فادر سیون اسٹار جیلوں، حوالاتوں میں موجیں، یہ مدینہ کی ریاست، یہ نیا پاکستان۔

کیا کیا رونا رویا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ معاملہ عجب موڑ پر، کہا جائے صدر عارف علوی کا ریفرنس غلط، ریفرنس میڈیا کو لیک بھی وہیں سے ہوا، کہا جائے سب کچھ عمران خان کروا رہے، کہا جائے چیف جسٹس کھوسہ جانبدار، سپریم جوڈیشل کونسل جانبدار، سپریم جوڈیشل کونسل سیکرٹری جانبدار، اٹارنی جنرل جانبدار، کہا جائے ایجنسیاں بیوی، بچوں کی مانیٹرنگ کر رہیں، کہا جائے انکم ٹیکس کا نوٹس غلط، ایف آئی اے، ایف بی آر، نادرا، پاسپورٹ آفس دفترو ں میں خاندان کا خفیہ ڈیٹا دیکھا گیا، میڈیا میں کردار کشی ہوئی، مطلب سب کے سب غلط، صحیح صرف ’’وہ‘‘، رہے نام اللہ کا۔

کیا کیا رونا رویا جائے، 3ججز کیا تبدیل ہوئے، ایسی ایسی سازشی تھیوریاں، خدا کی پناہ، کئی ارسطو گلے پھاڑ پھاڑ یہی بتاتے رہے، تبدیلی وٹس ایپ کے ذریعے ہوئی، ججز کو وٹس ایپ میسج کے ذریعے تبدیل کیا گیا، گو کہ تردید ہو چکی کہ وٹس ایپ میسج نہیں بھیجا گیا لیکن یہ مان بھی لیا جائے کہ ججز کو تبدیلی لیٹر وٹس ایپ کے ذریعے بھیجا گیا تو کیا حرج، سپریم کورٹ میں الیکٹرونک مطلب آن لائن کسیوں کی سماعت ہو رہی، ہائیکورٹس کمپیوٹرائزڈ ہو رہیں، ہم سب عام زندگیوں میں ہر وقت وٹس ایپ میسجز بھیج، وٹس ایپ کالیں کر رہے، مگر عدالتوں میں وٹس ایپ کال، وٹس ایپ میسج سازش ہو جائے، کیوں؟، باقی ججز تبدیلی، خلاصہ یہ، تبدیل ہونے والوں میں نعیم ارشد، مشتاق الٰہی احتساب عدالتوں، مسعود ارشد انسدادِ منشیات عدالت کے جج، پہلے بات احتساب عدالت ججوں کی، نعیم ارشد، مشتاق الٰہی، امیر محمد خاں تین ججوں کو وزارتِ قانون 27مئی 2019کو لاہور احتساب عدالتوں کا جج لگائے، 18جون 2019کو لاہور ہائیکورٹ انہیں نوٹیفائی کر دے، 6دن بعد 24جون کو وفاقی وزارتِ قانون لاہور ہائیکورٹ کو خط لکھے، مشتاق الٰہی جانبدار جج، انہیں ہٹا دیا جائے، 6جولائی، مریم نواز جج ارشد ملک وڈیو کانفرنس کریں، لاہور ہائیکورٹ احتساب عدالت ججوں کی اسکروٹنی شروع کرے، نعیم ارشد کے حوالے سے مبینہ طور پر بہت کچھ سامنے آئے، اسی دوران 11جولائی وزارتِ انصاف و قانون اپنے خط میں رانا ثناء کے جج مسعود ارشد کی جانبداری، دیانتداری پر سوالات اٹھا کر لاہور ہائیکورٹ سے کہے انہیں بھی تبدیل کر دیں، 23اگست 2019کو لاہور ہائیکورٹ کا وزارتِ قانون کو خط، نعیم ارشد، مشتاق الٰہی، مسعود ارشد تینوں ججز تبدیل، جمعہ 23اگست، یہ خط وزارت قانون کو ملے، ہفتہ، اتوار چھٹی، سوموار 26اگست کو وزارتِ قانون نوٹیفکیشن جاری کرے، منگل چھوڑ کر بدھ کو ججز کو آگاہ کر دیا جائے۔

اب پتا نہیں کہ اس سارے عمل میں سازش کہاں، ہاں یہ حیرانی ضرور، ہمارا اسکروٹنی، انٹیلی جنس نظام اتنا ناکارہ کیوں کہ جج ارشد ملک کی 2005میں غیر اخلاقی وڈیو بنے، وہ ججی کرتے رہیں، کسی حکومت کو پتا ہی نہ چلے، 2018ء میں ان کی مزید وڈیوز بنیں، وہ مدینہ میں حسن نواز سے ملیں، وہ جاتی امرا جاکر نواز شریف سے بھی مل لیں مگر کسی حکومتی، ریاستی ادارے کو کانوں کان خبر نہ ہو، اسی طرح ان 3ججز کے حوالے سے جو سنا، سنایا جا رہا، جو بتایا جا رہا، جو جانبداریاں، بے ایمانیاں، جو رابطے، جو ہو چکا، یہ سب تب کیوں پتا نہ چلا جب انہیں جج لگایا جارہا تھا، باقی جو کچھ ابھی تک پتا چل چکا، اگر یہ سچ، یہی بتا دیا جائے تو یقین جانئے سازشی تھیوریاں گھڑنے والوں کو ٹھنڈ پڑ جائے۔

تازہ ترین