• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی، انتخابات کے ذریعہ وزیراعظم بنے، اس الیکشن میں RSSکو صرف دو سیٹیں ہی ملی تھیں۔ جب انکی جماعت کو طعنے دیئے گئے تو پارٹی سربراہان نے کہا کہ ہمیں خیمے میں سر گھسانےکا موقع ملا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہت سی سینئر پوسٹوں پر مسلمان متعین تھے۔ ادھر پاکستان میں پہلے ضیاء الحق پھر بےنظیر کے زمانےمیں جہادیوں کو فتح یاب کرانے کے لئے، مراکز میں تربیت دی جا رہی تھی۔ اسی دوران دہلی اسمبلی سے لے کر بمبئی حملوں تک کو پاکستان پہ تھوپ دیا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ سارے مسلمان ملکوں میں کہیں داعش، کہیں الشباب، کہیں طالبان، کہیں مجاہدین کے نام سے قافلے در قافلے جس میں خواتین بھی شامل تھیں، بڑھتے گئے۔ ادھر ہندوستان میں بھی انتہا پسندی بڑھنے لگی، آر ایس ایس نے بابری مسجد پہ حملے کو حوالہ بنا کر گیروے رنگ میں دھوتیاں باندھ کر، جلسے کرنے اور نوجوان ہندوئوں کو اپنی جانب راغب کرنا شروع کیا۔

ساتھ ہی ساتھ امریکہ اور دیگر ملکوں نے اسرائیل کو مستحکم کرنا اور فلسطینیوں کو زدو کوب کرنا شروع کیا چونکہ مودی صاحب گجرات کے قتل عام سے صاف چھٹ گئے اور اٹل بہاری واجپائی کے متضاد، نوجوانوں میں مغلوں اور مسلمانوں کی غلامی کے حوالے بنا کر یہ شہہ دینا شروع کی کہ ہندوستان تو ہے ہی ہندوئوں کا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کو بہت استعمال کیا گیا۔ اب سنگھ پریوار نے پیر پھیلانے شروع کیے۔ ہر روز کسی نہ کسی دیوی دیوتا کا دن منایا جانے لگا۔ مندروں میں پوجا کے نام پر ڈانس شروع کئے گئے۔ نہرو جی کے بر خلاف ہندستانی زبان کو سنسکرت میں تبدیل کرنےکے مواقع کے لئے ہر طرح کے میڈیا کو استعمال کیا گیا۔ اب تو یہ ہونے لگا کہ چاہے میرٹھ ہو کہ جبل پور، گجرات کی طرح مسلمانوں کی بستیاں بہانے بہانے جلائے جانے لگیں اور ہر منزل پرمودی صاحب سرخرو ہو کر نکلے اور یہ باور کرایا جانے لگا کہ یہ جتنے بھی مسلمان ہیں یہ پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔ گائے کا پیشاب پینے کے نسخے میڈیا پر زیر بحث آنے لگے اور اب انہیں مل گئی ’’گائے‘‘ ادھر دوسری جماعتیں معہ کانگریس اپنی ناتجرباتی اور سنگھ پریوار کے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث، منظرنامہ یہ بنا کہ ہندوستان کو ہندو ریاست بنانے کا نظریہ فروغ پانے لگا۔ ہندو اور مسلمان دونوں جذباتی قوم ہیں۔ RSS کے نوجوانوں کو کھلی چھٹی دیدی گئی کہ چاہے وہ کسی گھر میں گھسیں، گائے کے گوشت کھانے کا الزام لگا کر، لوگوں کی تکہ بوٹی کر آئیں۔ سرکار اپنی جگہ مطمئن، اس پر طرہ یہ کہ کانگریس سے لیکر دیگر سیاسی جماعتیں کھل کر مسلمانوں کے حق میں نہیں بولیں۔ نہرو جی کا سیکولرازم اتنا پیچھے ڈال دیا گیا کہ اب تو کمیونسٹ پارٹی بھی خود کو سیکولر نہیں کہہ رہی یا کہ اونچی آواز میں نہیں بول رہی۔ وہ سارے ہندو شاعر جو نعتیں لکھتے اور پڑھتے تھے۔ ان کو Disown کر دیا گیا۔ ادھر علی گڑھ چلے جائیں یا لکھنؤ، مسلمان خود ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ’’آپ نماز پڑھتے ہیں کہ نہیں‘‘۔ مغرب کے وقت دروازہ کھٹ کھٹا کر کہتے… آئیے مسجد چلیے، نماز کے لئے۔ مسلمان چاہے کیرالہ کے ہوں کہ میرٹھ کے، زیادہ مذہبی ہوتے گئے۔ وہ ہندو جو میرے ابا کے زمانےمیں ہندوستان میں کہا کرتے تھے ’’یار بھابھی کو کہیں کسی دن کباب، کوفتے اور پلائو کھلا دیں‘‘۔ اسی سوچ والے ہندو تو اب بھی بہت سے ہیں۔ جامع مسجد کے سامنے کریمہ کی دکان پہ نہاری اور قورمہ کھاتے ہیں مگر چھپ کے، بھینس کے گوشت کوبھی گائے کا گوشت کہہ کر مسلمانوں کے چیتھڑے اڑائے جانے لگے۔ غضب یہ ہوا کہ الیکٹرونک میڈیا پہ مودی سرکار کے بغلی بچے، سرعام مسلمانوں کو کھل کر گالیاں دینے لگے۔ کہا گیا کہ چونکہ 79فیصد، اس ملک میں ہندو ہیں۔ اس لئے یہ ملک قطعی کٹر ہندوئوں کا ہے۔ ادھر پاکستان اور افغانستان میں اسلام بیچنے والے والے، گلی گلی سرمہ بیچنے والوں کی طرح اپنی ہٹی بنانے لگے۔ اب چونکہ دلی میں انگریزوں کے زمانے سے مغلوں کے نام پر شاہراہوں کے نام تھے۔ ان کی جگہ وہ کالی داس، میرا یار ادھا یا گیتا کے نام پر رکھے جاتے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ عجیب و غریب نام سے لکھنؤ اور مراد آباد کو متعون کر دیا گیا۔ اب ہر چھابڑی والا امردو، بیچتے ہوئے تو یہی کہےگاکہ الہ آباد کی مٹھی ڈالیاں امرود، بہرحال ہولےہولے وہ بھی سیکھ جائیں گے۔

ہم نے مذہبی انتہا پسندی پہ توبحث کر لی۔ اب آئیے ذرا پھر کشمیر چلیں۔ آپ مانے یا نہ مانیں۔ جب تک ہندوستا ن اور پاکستان کی فوجیں ہٹا کر، وہاں رائے شماری نہیں کی جائیگی۔ اقوام متحدہ یہ نہیں کہے گی بلکہ اس پر سختی سے عملدر آمد نہیں کرائیگی۔ نہ رائے شماری ہو گی۔ نہ دونوں ملکوں کی فوجیں ہٹیں گی بلکہ روز سناتی رہیں گی کہ ادھر اتنے مرے ادھر اتنے شہید ہوئے۔ ہم دونوں ملکوں میں ہو کیا رہا ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی ، چیزوں کو ہاتھ لگانے نہیں دیتی۔ چلئے مودی صاحب! ہم مان لیتے ہیں کہ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے تو پھر میری ناقص سوچ پر، عمران خان اور مودی صاحب عمل کریں، ورنہ کشمیر میں مذہبی جنونیت سنگھ پریوار کی طرح پھیلتی جائے گی۔ جنگ سے بھی اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ باجوہ صاحب! آپ ہی عمران خان کو اور مودی صاحب کو سمجھائیں شاید بات بن جائے۔

تازہ ترین