• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے، جو اب تک پاک افواج کے گیارہ جوانوں کو مل چکا ہے۔ نشانِ حیدر حضرت علی ؓ سے موسوم ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر کرار ہے اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان جانبازوں کو دیا گیا ہے، جو وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ذیل میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے جانبازوں کا سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

کیپٹن محمد سرور شہید

1948ء میں کشمیر آپریشن کے دوران کیپٹن محمد سرور نے اڑی کے مقام پر دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ جوابی کاروائی میں دشمن کی کئی گولیاں انہیں لگیں، پھر بھی زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنے 6 ساتھیوں کے ہمراہ خاردار تاروں سے نکلتے ہوئے دشمن کے مورچے پر آخری حملہ کردیا۔ اس حملے سے دشمن بوکھلا گیا اور اپنی توپوں کا رخ کیپٹن سرور کی طرف کردیا، ایک گولی ان کے سینے میں لگی، جس کے باعث انھوں نے وہیں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے ساتھیوں نے دشمن پر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ وہ مورچے چھوڑ کر بھاگ گیا۔

سوار محمد حسین شہید

1971ء کی جنگ میں سوار محمد حسین کا بنیادی کام وائرلیس پر احکامات وصول کرنا اور انہیں آگے پہنچانا تھا۔ لیکن اپنے ساتھیوں کو لڑتے دیکھ کر وہ اپنے جوش پر قابو نہ پاسکے اور جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو ناکوںچنے چبوادیے۔ 10دسمبر کو دشمن کی گولیوں نے ان کاسینہ چھلنی کردیا اور محمد حسین شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔

میجر طفیل محمد شہید

اگست 1958ء میں میجر طفیل محمد شہیدکو لکشمی پور (مشرقی پاکستان) میں مورچہ بند بھارتی دستوں کی بیخ کنی کا مشن سونپا گیا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے بھارتی چوکی کو گھیرے میں لیا اور15گز کے فاصلے پر پہنچ کر حملہ کردیا۔ جب بھارتی فوجیوںنے مشین گن سے فائرنگ کی تو میجرطفیل قیادت کرتے ہوئے سب سے پہلے گولیوں کا نشانہ بنے۔ زخمی حالت میں انہوں نے گرینیڈ پھینک کر دشمن کی ایک مشین گن کو خاموش کروادیا جبکہ دوسری کو بھی تباہ کیا۔ اس کے علاوہ دوبدو لڑائی میں ایک بھارتی فوجی کو زخمی کرکے اپنے ساتھی کی جان بچائی اور جامِ شہادت نوش کیا۔

میجر راجہ عزیز بھٹی شہید

6ستمبر 1965ء کو جب دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا تو میجر عزیز بھٹی دو پلاٹون کی قیادت کرتے ہوئے بی آر بی نہر پرڈٹے رہے۔ 9ستمبر کی رات دشمن نے حملے کیلئے جب اپنی پوری بٹالین جھونک دی اور نہر پر قبضہ کیا تو عزیز بھٹی لڑتے ہوئے راستہ بناکر نہر کے کنارے پہنچے اور دشمن کو اس علاقے سے باہر نکال دیا، وہ اس وقت تک دشمن کے سامنے ڈٹے رہے جب تک ان کے جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ اس کے بعد گھمسان کی جنگ میں دشمن کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ٹینک کا ایک گولہ ان کے سینے پر لگا اور وہ موقع پر ہی جامِ شہادت نوش کرگئے۔

پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید

20اگست1971ء کو راشد منہاس اپنی تیسری فلائٹ کیلئےکاک پٹ میں بیٹھے ہی تھے کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر ساتھ سوار ہوگیا۔ اس نے پرواز کے دوران طیارے کا رُخ بھارت کی جانب کردیا۔ راشد منہاس نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور پر رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ ہر حالت میں طیارے کو اغوا ہونے سے بچایا جائے۔ راشد اور مطیع الرحمان کے درمیان اگلے پانچ منٹ دست بدست لڑائی ہوئی ۔ مطیع الرحمان نے جب طیارے کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی تو راشد منہاس نے اسے ناکام بنادیا۔ راشد منہاس نے جب محسوس کیا کہ وہ طیارہ واپس نہیں موڑ سکتے تو انھوں نے اس کا رُخ زمین کی طرف کردیا اور یوں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

میجر شبیر شریف شہید

میجر شبیر شریف کو 3دسمبر 1971ء کو سلیمان کی سیکٹر میں فرنٹیئر کور کی قیادت کرتے ہوئے ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کا ہدف ملا۔ انھوں نےدشمن کی شدید گولہ باری میں بارودی سرنگوں سے گزرکر100فٹ چوڑی اور 18فٹ گہری دفاعی نہر کو تیرتے ہوئے پار کیا۔ وہ دشمن پر ایسے ٹوٹے کے اسے شام تک اپنے مورچوں سے بھگادیا۔ 6دسمبر کو دشمن کے ایک حملے کا دفاع کرتے ہوئے میجر شبیر شریف اینٹی ایئر کرافٹ گن سے دشمن کے ٹینکوں پر فائرکررہے تھے کہ ٹینک کا ایک گولہ انہیں لگا اور جامِ شہادت نوش کیا۔

کیپٹن کرنل شیر خان شہید

کرنل ان کا نام اور کیپٹن ان کا عہدہ تھا۔17ہزار فٹ کی بلندی پر شیرخان نے حکام بالا کے حکم پر یہاں ایک چوکی قائم کی، جس سے بھارتی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا اور یہ صورتحال بھارتیوں کیلئے وبال بن گئی۔13مئی1999ء کو بھارتی فوجیوں نے 5گھنٹے کی مسلسل گولہ باری کے بعد سمجھا کہ انھیں اس چوکی پر قبضہ مل گیا ہے، اس زعم میں اپنے ہیلی کاپٹر سے اترے لیکن برفانی تودوں  کے پیچھے چھپے کرنل اور ساتھیوں نے ان پر ہلہ بول دیا۔ آدھے بھارتی مارے گئے جبکہ باقی فرار ہوگئے۔اسکے بعد ٹائیگر ہل کے محاذ پر ساتھیوں  کے شہید ہونے کے بعد کرنل شیر خان نے تن تنہا دشمن کے بیسیوں فوجیوں کو جہنم واصل کیا اور جب شہادت پائی تو دشمنوں کے بیچ ان کاسینہ مشین گن پر ٹکا اور سر تنا ہوا تھا۔

میجر محمد اکرم شہید

1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے علاقے ہلی کے محاذ پر میجر اکرم نے اپنی فرنٹیئر کور کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کی پیش قدمی کو مسلسل پانچ دن روکے رکھا اور اس کے دانت کھٹے کردیے۔ اس کارنامے کی وجہ سے انہیں ’’ ہیرو آف ہلی ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتاہے۔

لانس نائیک محمد محفوظ شہید

1971ء کی پاک بھار ت جنگ میں محمد محفوظ نے واہگہ اٹاری کے مقام پر دشمن کی گولہ باری سے زخمی ہونے کے باوجود بنا کسی اسلحہ کے دشمن کے بنکر میں گھس کر بھارتی فوجی کو دبوچ لیا اور اسے گلا دبا کر مارنا چاہا مگر ایک دوسرے بھارتی فوجی نے سنگین مار کر انہیں شہید کردیا۔ لیکن ان کے اس کارنامے کی بدولت بھارتی گولہ باری کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

حوالدار لالک جان شہید

1999ء کی کارگل جنگ میں لالک جان کو اہم ترین چوکی کی حفاظت کا فریضہ سونپا گیاتھا۔ جب دشمن نے رات کے وقت چوکی پر حملہ کیا تو لالک جان دشمن کے سامنے ڈٹ گئے اور اسے بھاری جانی ومالی نقصان کے بعد پسپائی اختیار کرنی پڑی ۔ اگلی رات دشمن مزید تیاری کے ساتھ چوکی پر حملہ آور ہوا ، جس کا جواب دیتے ہوئے وہ شدید زخمی ہوگئے۔ واپس جاکر طبی امداد لینے کے بجائے وہ دشمن پر گولیاں برساتے اور للکارتے رہے، تاہم اگلی صبح وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرگئے۔

نائیک سیف علی جنجوعہ

1948ء میں بھارت نے کشمیر پر حملہ کرکے ایک پہاڑی پر قبضہ کرکے چوکی قائم کردی، جس کا قبضہ چھڑانے کیلئے نائیک سیف علی جنجوعہ اپنی مختصر پلاٹون کے ہمراہ چوٹی پر پہنچےاور وہاں سے گزرنے والے بھارتی طیارہ مار گرایا پھر وہ اور ان کے ساتھی دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ بھارتی اپنے ساتھیوں کی لاش چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ ایک فوجی نے بھاگتے ہوئے توپ کا گولہ داغا جو سیف علی کے سینے پر لگا اور وہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔

تازہ ترین