• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آصف زرداری بیمار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمٰن اور فعال رہنما نیئر بخاری نے سابق صدر کو فی الفور جیل سے اسپتال منتقل کرنے کا مطالبہ کیا (ہو سکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک وہ اسپتال ہی میں ہوں)۔ سابق صدر کو وہیل چیئر پر اسپتال سے چوری چھپے جیل منتقل کیا گیا۔ جیل میں آصف زرداری کو تکلیف پہنچانے کے لئے ان کو بنیادی سہولیات نہیں دی جا رہیں۔ نیئر بخاری کا کہنا تھا آصفہ بھٹو زرداری کو والد سے ملنے سے روکنا نہ صرف توہین عدالت ہے بلکہ انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے بتایا ’’آصف زرداری کی دل کی شریانیں بند ہیں، ان کی حالیہ میڈیکل رپورٹس ابھی تک نہیں دی گئیں۔ نیب کے میڈیکل بورڈ نے خود آصف زرداری کی صحت کو قابل تشویش قرار دیا ہے‘‘۔

ایک نقطہ نظر شیخ رشید صاحب کا بھی ہے۔ ان کے نزدیک ’’آصف زرداری نہیں چاہ رہے لیکن پی پی پی کے خیر خواہ رقم دینے کو تیار ہیں۔ نون لیگ کو بھی یہی راستے اختیار کرنا چاہئیں۔ مرکز میں مسلم لیگ نون ’’2‘‘ بننے جا رہی ہے تاہم اس کی قیادت شہباز شریف کرتے ہیں یا چوہدری نثار، کچھ کہہ نہیں سکتا‘‘۔

قومی بدقسمتی کیا ہے اور قومی خوش نصیبی کیا ہوتی ہے، اس حیات آمیز مسئلے کو مزید تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں پاکستان کی دو اہم ترین اور مقبول ترین جماعتوں کے سربراہ بیماری کی زد میں ہیں لیکن مخالفین، ناقدین یا عام شغل بازوں کے مسائل کا ملک و قوم کے حوالے سے اس معاملے میں کوئی معتدل طرزِ عمل تو درکنار الٹا انہوں نے اسے دشمنی یا مزاح کا وتیرہ بنا لیا ہے۔

اب آپ دیکھیں، ان دنوں کراچی میں ’’کچرا‘‘ اور ’’کراچی پانی میں ڈوب گیا‘‘ کے دو ایشوز جس طرح پروجیکٹ کر کے انسانی عقل کی تذلیل کی جا رہی ہے، اُس کا تو جواب ہی نہیں مثلاً کیا ایک صوبے کے برابر جیسا شہر واقعی ’’پانی میں ڈوب گیا ہے‘‘ اور کیا ایک صوبے جیسے شہر کی ہر گلی اور بازار ’’کچرے‘‘ سے اٹے پڑے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں، شہر کا ایک محدود ترین حصہ اس ناگفتہ بہ حالت کا شکار ہے جسے ٹی وی پر فلمانے کے بجائے تھوڑی سی محنت سے درست کیا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا؟ کیوں نہیں ہوا؟ ظاہری اسباب کو چھوڑ کر پردے کے پیچھے کی منفی قوتوں پر دھیان دیں جنہوں نے اس ملک کے عوام کو پہلے روز سے ذہناً حواس باختگی کا شکار کر رکھا ہے، وہ جب تک طاقتور ہیں شاید ہی کبھی اس سے باز آئیں، کراچی بھی اسی شقی القلب کھیل کا ہدف ہے۔

صرف کراچی کا ڈرامہ ہی نہیں تحریک انصاف کے جیالے ہر روز سندھ کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں ریلیز کرتے رہتے اور سندھ کی ساری خرابیوں کا ایک منتخب صوبائی جمہوری حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی قابلِ شرم مہم چلائے ہوئے ہیں۔ عملاً فلسفہ کیا ہے؟

عملاً نقشہ یہ ہے کہ ایک رائے کے مطابق جب گزشتہ ’’جمعہ‘‘ کو پورے ملک میں کشمیریوں کے ساتھ ’’کشمیر آور‘‘ منایا جا رہا تھا ایسی اطلاعات بھی گردش کر رہی تھیں کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کو ان کے منصب سے محروم کر کے گرفتاری کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور پھر اس کے پردے میں صوبہ سندھ سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کا پلان ہے۔ اس مقصد کے لئے پیپلز پارٹی میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں کیونکہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد 99ہے اور کسی بھی طریقے سے سندھ میں مخالفین کی حکومت بننے کا کوئی امکان نہیں۔ جس فارورڈ بلاک بننے کی باتیں کی جا رہی ہیں اس کا تھوڑا عرصہ قبل پنجاب میں بھی بڑا چرچا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ ’’نون‘‘ میں بھی فارورڈ بلاک بن رہا ہے لیکن آج تک ایک بھی رکن ایسا سامنے نہیں آیا جس نے فارورڈ بلاک کی حمایت کی ہو، چند ارکان کو کسی نہ کسی طرح وزیراعظم سے ملاقات کے لئے بنی گالہ ضرور لے جایا گیا لیکن یہ ارکان بھی ایک ایک کر کے وضاحت کرتے رہے کہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ ہیں اور وزیراعظم سے ملاقات کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ وہ اپنی جماعت میں کوئی فارورڈ بلاک بنا رہے ہیں۔ وہ تو اپنے بعض مطالبات کی منظوری کے لئے وزیراعظم سے ملے تھے۔

پنجاب میں تو مسلم لیگ ’’نون‘‘ کی حکومت بھی نہیں، اس لئے اگر یہاں کوئی فارورڈ بلاک بن بھی جاتا ہے تو اس سے اسے حکمران جماعت کو کوئی زیادہ فائدہ نہ پہنچتا لیکن سندھ میں جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت جوڑ توڑ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی بھی طرح مستحسن نہیں، ماضی میں بھی کئی بار مراد علی شاہ کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑ کر حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی کی جاتی رہی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بدنیت مگر باز نہیں آیا کرتے، گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آخر بلاوجہ تو یہ فیصلہ کن اعلان نہیں کیا کہ ’’مراد علی شاہ گرفتار ہوں یا نہ ہوں، وزیراعلیٰ سندھ وہی رہیں گے‘‘۔

فتنہ گری بعض افراد کی روحوں کا سیاہ نغمہ ہے جس کے بول انسانی زندگی کی تقدیر میں اندھیرے پیدا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف میں ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں، میڈیا ہی کو لے لیں، جس انداز سے پریس کی آزادی کا قلع قمع کیا جا رہا ہے، اس کا جواب نہیں، سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بقول شخصے ہماری سیاسی پالیسی ہے کہ ہر مخالف کو اندر کر دو، نیب کے مقدمات کو عدالتوں میں گھسیٹو، صحافت اتنی رہ گئی کہ جو سرکاری سچ نہ بولے، بند کر دیا جائے۔

ضروری نہیں یہ تمام آرا درست ہی ہوں مگر درخت اپنے پھل سے پہچانے جایا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جمہوری حکومت نے اپوزیشن اور میڈیا کے ساتھ اول روز سے جو سلوک روا رکھا ہے، وہ ایسی آرا کی تائید میں جاتا ہے بالخصوص عمران خان نے اصولی موقف کی تقدیس کو ’’یوٹرن‘‘ کی جس دنیاوی فلاسفی کی بھینٹ چڑھایا اس کا تو جواب ہی نہیں!پاکستان پیپلز پارٹی مخالف حکمرانوں کے مظالم اور زیادتیوں کے خلاف جدوجہد کی امین ہے مگر کہنا یہ ہے، آپ جن راہوں پر چل پڑے ہیں ان کا اختتام بھی نزدیک تر محسوس ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین