• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گاؤں کا نام اب مجھے یاد نہیں لیکن جس سڑک پر میں سفر کر رہا تھا انتہائی تنگ تھی ایک وقت میں ایک گاڑی ہی چل سکتی تھی، بارش کی وجہ سے گاڑی کو کچے پر اتارنے کا خطرہ بھی مول نہیں لیاجاسکتا تھا اور میں سوچ رہا تھاکہ اس سڑک پراگر آگے سے گاڑی آگئی تو ہم دونوں سے کوئی بھی گاڑی کو کچے پر نہیں اتارے گا کیونکہ سڑک کے ساتھ کچا راستہ شدید بارش کی وجہ سے سخت دلدلی شکل اختیار کئے ہوئے تھا، سڑک بڑی سیدھی اور طویل تھی اور مجھے چکوال کے قریب اس گاؤں میں ایک فوتگی پر دعا کرنے جانا تھا، میں ابھی یہ سوچ رہا تھاکہ مجھے کچھ دور اس سڑک پرایک گاڑی نظر آئی لیکن میں یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ یہ گاڑی آرہی ہے یا جا رہی ہے۔ جب تھوڑا قریب پہنچا تو معلوم ہواکہ ایک ڈبہ نما گاڑی جا رہی ہے۔ گاڑی کی باڈی میکنیکلی آؤٹ تھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس گاڑی کا پچھلا حصہ ابھی اگلے حصہ کو چھوڑ کر جھاڑیوں میں گر جائیگا لیکن گاڑی فن کا ایک عجیب نمونہ نظر آرہی تھی۔ گاڑی کی چھت پر پچھلی جانب ایک چھوٹا سا اسپیکر لگا ہوا تھا جس سے فل آواز میں کسی فوک گانے کی آواز آرہی تھی لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ گانے کا گلوکار کو ن ہے اور گانے کے بول کیا ہیں۔ میں پہلے ہی سڑک کی وجہ سے گاڑی آہستہ چلا رہا تھا لیکن آگے ہچکولے کھاتی اور پرانی گاڑی نے میری اسپیڈ اور بھی آہستہ کر دی تھی اور مجھے یقین ہو گیا تھا کہ جب تک یہ گاڑی خود کہیں موڑ وغیرہ نہ مڑ جائے، میں اس سے آگے نکل نہیں سکتا اس لئے ہارن دے کر راستہ مانگنا ایک فضول ایکسرسائز تھی حالانکہ گاڑی کے پیچھے یہ لکھا تھا کہ ہارن دیکر پاس کریں، میں گاڑی بہت آہستہ چلا رہا تھا ،اور میں نے گاڑی کے پیچھے لکھے ہوئے دلچسپ فقرے پڑھنا شروع کردیئے تھے گاڑی پر ”پھول بوٹے“ بھی بنے ہوئے تھے مختلف اشعار بھی لکھے ہوئے تھے لیکن کچھ فقرے مجھے بڑے دلچسپ لگے۔ لکھا تھا”کراس کر یا برداشت کر“ اور میں کافی دیر سے برداشت کر رہا تھا۔ ایک اور فقرہ تھا ”خرچے مالکاں دے نخرے لوکاں دے“ گاڑی کی حالت دیکھ کر کوئی یہ جرأت نہیں کرسکتا تھا لیکن پھر بھی لکھا تھا ”جلنے والے کا منہ کالا“ لیکن ایک دوسرا اس سے بھی دلچسپ فقرہ لکھا تھا جس نے مجھے مسکرانے کے ساتھ ساتھ میرے اندر ایک تجسس بھی پیدا کردیا تھا،۔ یہ فقرہ تھا”اَگ گڈی بم ڈریور“ (آگ گاڑی اور بم ڈرائیور) اور میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ ”اَگ گڈی“ تو میں نے دیکھ لی ہے اور اگر مجھے موقع مل جائے تو میں ”بم ڈریور“ کا بھی دیدار کرلوں، لیکن نہ یہ سڑک ختم ہونے کو آرہی تھی نہ میں ”بم ڈریور“ کا دیدار کر پا رہا تھا کہ اچانک ایک موڑ پر ”اَگ گڈی“ بائیں جانب مڑ گئی اور میں”بم ڈریور“ کو دیکھنے کی حسرت لئے بغیرآگے نکل گیا۔ ایسی آگ گاڑیاں اور بم ڈرائیور صرف ایسے چھوٹے علاقوں میں ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے شہروں میں بھی چل رہی ہیں جو ٹریفک کا ستیاناس کرکے رکھ دیتی ہیں۔ بڑے شہروں میں وی آئی پی شخصیات کے گزرنے پر بھی آدھا آدھا گھنٹہ ٹریفک بلاک کردیتی ہیں اور جب ”اَگ گڈی بم ڈریور“ گزر بھی جائیں تو ٹریفک بلاک رہنے کی وجہ سے ٹریفک بحال ہوتے ہوتے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ دس پندرہ لوگوں کو احتجاج کرنا ہو تو وہ بھی شاہراہوں پر ٹائر جلاکر یادھرنا دے کر ان شاہراہوں کو بلاک کردیتے ہیں جو ٹریفک کی بڑی گزرگاہ ہوتی ہیں کسی نے اسکول جانا ہوتا ہے تو کسی نے کالج یا یونیورسٹی پہنچنا ہوتا ہے، کسی نے اپنے دفتر میں فرائض کی ادائیگی کیلئے جانا ہوتا ہے تو کسی مریض کو ایمرجنسی میں پہنچنانا ہوتاہے لیکن ان حالات میں سب شاہراہوں پر پھنس کر رہ جاتے ہیں ایسی صورتحال نہ بھی ہو تو پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے شہروں میں دفاتر یا کاروبار پر جانے کیلئے اپنی گاڑی استعمال کریں جو کہ ٹریفک کے اژدھام کا باعث بنتی ہیں ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو بروقت منزل مقصود پر پہنچانے کے لئے ماس ٹرانزٹ کے زبردست اور سستے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ لاہور میں شروع کیاجانے والا میٹروبس ایک بہترین منصوبہ ہے یہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا اپنا علیحدہ ٹریک ہونے کی وجہ سے ”اَگ گڈی اور بم ڈریور“ والے ان بسوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکیں گے اور چھوٹے مزدور سے دفاتر کے بابو اور چھوٹے افسران سے لیکر بڑے افسر سب باعزت طریقے سے ان بسوں میں سفر کرسکیں گے ایسے منصوبے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں شروع ہونے چاہئیں لیکن ایک خطرہ ہے جو ہمارے ہمارے اچھے سے اچھے منصوبوں کا ستیاناس کردیتا ہے وہ ”اگ گڈی اور بم ڈریور“ یعنی نہ عوام اپنی چیزوں کا احترام کرتے ہوئے انہیں سنبھالتے ہیں اور نہ ہی ان منصوبوں کا مینٹی ننس کا مناسب انتظام ہوتا ہے نتیجتاً گاڑیاں کچھ عرصہ بعد ٹائروں کی بجائے اینٹوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ ہرشہری سے لیکر اس کو سنبھالنے کا ذمہ دار ادارہ تک،سب اپنے بچوں کی طرح اس منصوبے کو سنبھال کے رکھیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔
تازہ ترین