• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ تب بھی طاقتور تھا وہ آج بھی طاقتور ہے۔ وہ کھیل کے شعبے میں تھا تو اس پر راج کرتا تھا، سیاست کے شعبے میں آیا تب بھی راج کرتا ہے۔ کھیل میں تھا تب بھی اس کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا تھا، سیاست میں بھی وہ جو کہہ دے اسے سب کو ماننا پڑتا ہے۔ کرکٹ میں تھا تو سب سمجھاتے تھے کہ منصور اختر نہیں چل پائے گا مگر وہ کہتا تھا نہیں، اس کا بلا سیدھا ہے، اس سے اچھی کور ڈرائیو کوئی نہیں کرتا، اسے کھلائو، یہ ہر صورت کھیلے گا۔ سب کو منصور اختر کو کھلانا پڑتا، وہ کھیلتا رہا مگر چمک نہ سکا اور پھر رفتہ رفتہ غروب ہوگیا۔ کہتے ہیں پرانی عادتیں مشکل سے جاتی ہیں، یہی چلن سیاست میں جاری ہے۔ ہر کوئی کہتا یہ وسم اکرم پلس نہیں، منصور اختر ہے۔ وہ کہتا ہے نہیں، یہ صاف شفاف ہے، سادہ ہے، پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتا ہے، تابع فرمان ہے، یہ چمکے گا، یہ وسیم اکرم کی طرح چھائے گا مگر ابھی تک وہ منصور اختر بنا ہوا ہے۔ دیکھیں فیصلہ کرنے والا سوچ بدلتا ہے یا پھر منصور اختر گھر جاتا ہے۔

سیاسی منصور اختر ملنے جلنے میں بہت اچھا ہے مگر گورننس پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک سال سے کم عرصے میں ایک صوبائی محکمے کے 10سیکرٹری بدل چکے ہیں۔ محکمہ لائیو اسٹاک میں ایک سال میں 3سیکرٹری آچکے ہیں۔ 2ماہ میں ایک ڈپٹی کمشنر کے 3تبادلے ہوئے، اکھاڑ پچھاڑ کا تماشا لگا ہوا ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ اور اوکاڑہ پر پنجاب سیکرٹریٹ کا حکم نہیں چلتا بلکہ وہاں روحانیت کے ہالے قائم ہیں جن پر کسی اور کا بس نہیں چلتا۔ سیاسی منصور اختر اپنے لیڈر سے ہر ملاقات میں وعدہ کرتا ہے کہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں آکر پروٹوکول کی تام جھام میں کھو جاتا ہے۔ ابھی پی ٹی آئی کے ورکرز کو ایڈجسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں، زکوٰۃ کمیٹیاں اور بے شمار سیاسی اسامیاں خالی ہیں لیکن ان پر کسی کی تعیناتی نہیں کی جا رہی۔ بلدیاتی ادارے توڑ دیئے گئے، ان کے کروڑوں کے فنڈز نوکر شاہی کے پاس ہیں لیکن پی ٹی آئی کو ان فنڈز سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ وفاقی وزرا، ارکانِ اسمبلی اور لیڈروں کو شکایت ہے کہ ان کے علاقوں میں ان کی مرضی کے افسر تعینات نہیں کئے جا رہے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب میں ہر رکن صوبائی اسمبلی کو اپنی مرضی کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز دیئے گئے ہیں۔ لامتناہی کہانیاں ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ منصور اختر ہی کھیلے گا، یہی وسیم اکرم پلس ہے۔

وہ بڑی آن اور شان والا ہے، اپنی اّنا پر آنچ نہیں آنے دیتا، کرکٹ میں تھا تب بھی اسی کے فیصلے چلتے تھے، سلیکشن کمیٹی اور بورڈ جو مرضی کہتے رہیں، چلتی اسی کی تھی۔ اسی لئے منصور اختر نے 19ٹیسٹ میچ کھیلے، 25رنز کی اوسط رہی۔ اس سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں اور یوں بالآخر وہ غروب ہوا۔ اب وہ سیاست میں ہے، یہاں بھی اس نے نئے منصور اختر سے امیدیں لگا لی ہیں۔ ایجنسیاں، ادارے اور شخصیات سب اس کے بارے میں رپورٹس دے چکے ہیں، بڑے صاحب بھی مطمئن نہیں مگر وہ نہیں مانتا۔ اپنی اّنا پر آنچ کیسے آنے دے؟

پی ٹی آئی حکومت کا پنجاب میں ایک سال گزر گیا۔ 40سال کے طویل عرصے کے بعد صوبے میں شریف خاندان کی مخالف حکومت آئی تھی، اس کو سیاسی حقائق بدلنے تھے مگر ایک سال میں نون لیگ کا ایک بھی ووٹ توڑا نہیں جا سکا، تکالیف کا شکار ہونے اور جیلوں میں بند ہونے کے باوجود نون لیگ کا ووٹ بینک برقرار رہنا دراصل پنجاب حکومت کی سیاسی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک سال کے اندر نئے بلدیاتی انتخابات کروا کے گراس روٹ پر پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی مگر یہ منصوبہ بندی کون کرے؟ پنجاب کے شہری مراکز یعنی لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جہاں نون لیگ کی اصل طاقت ہے ، وہاں سرے سے کوئی سیاست ہی نہیں کی جارہی۔ ان شہروں میں نون لیگ کی اصل طاقت مڈل کلاس تاجر ہیں، حکومت انہیں ناراض کرنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رہی۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے پنجاب حکومت نے کوئی بھی ایسا منصوبہ نہیں بنایا جو مقبولِ عام ہوا ہو۔ زمینداروں اور کاشت کاروں کو نون لیگ سے ہمیشہ شکایت رہی کہ وہ کسان دوست پالیسیاں نہیں بناتے، تحریک انصاف کے لئے سنہری موقع تھا کہ وہ کاشتکاروں کے دل جیت لیتی، کسان دوست پالیسیاں بناتی اور نون لیگ کا ووٹ بینک توڑ لیتی مگر اس طرف سوچا ہی نہیں گیا۔ وقت کے ساتھ جو تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے وہ محروم طبقات میں عمران کی مقبولیت ہے۔ کسی زمانے میں پنجاب کا یہ طبقہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوتا تھا لیکن اب اس کا رجحان پی ٹی آئی کی طرف ہے۔ یہ انتہائی وفادار ووٹ بینک ہے مگر پنجاب حکومت نے تاحال اس کو کوئی سہولت دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ کل کو جب آئندہ انتخابات ہوں گے تو پنجاب میں مقابلہ نون لیگ اور تحریک انصاف میں ہوگا، پیپلز پارٹی تاحال پنجاب میں اپنے قدم نہیں جما سکی۔ نون لیگ کی لیڈر شپ مطمئن ہے کہ اس کا ووٹ بینک برقرار ہے اور پی ٹی آئی کی معاشی پالیسیاں نون لیگ کے ووٹ بینک کو اور مضبوط کر رہی ہیں۔ متوسط اور تاجر طبقات کو نون لیگ کی معاشی پالیسیاں بڑی راس آئی تھیں اور پچھلے تیس سال میں تاجروں کے معاشی مفادات میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا اس لئے انہیں اپنے معاشی مفادات پر پی ٹی آئی کی ٹیکس تلوار پسند نہیں آرہی اور وہ اپنے بزنس کو سکیڑ کر بیٹھ گئے ہیں جس کا ملک پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ نون لیگ اور شہباز شریف کا طرزِ حکمرانی نوکر شاہی کو ساتھ ملا کر چلنے کا تھا، پنجاب حکومت ابھی تک گورننس کا کوئی بھی ماڈل طے نہیں کر سکی، آدھا تیتر، آدھا بٹیر چل رہا ہے۔ طوائف الملوکی کی سی صورت حال ہے، طاقت کے مراکز بنی گالا سے لے کر لاٹ صاحب تک پھیلے ہوئے ہیں، بڑی بڑی شخصیات اور ناموں والے تو اپنے کام نکلوا رہے ہیں مگر غریب کارکن کی کوئی شنوائی نہیں۔

وقت گزر رہا ہے، گزرتا جائے گا، سال ہوگیا وہ منصور اختر کو ہی کھیلائے گا اور اس کے اندر وہ خوبیاں ڈھونڈے گا جو کسی اور کو نظر نہیں آ رہیں۔ کرکٹ کا منصور اختر تو خاموشی سے غروب ہوگیا، سیاسی منصور اختر ناکام ہوا تو اپنے محسن کو بھی غروب کر جائے گا۔

تازہ ترین