• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستقبل میں پاکستان کا سیاسی نقشہ کیا بننے جا رہا ہے ؟ یعنی کون سی سیاسی قوتیں موثر ہو ں گی اور کیا ان میں کوئی سیاسی توازن ( Equilibrium ) قائم ہو گا یا نہیں ؟ یہ آج کے پاکستان کا ایک ایسا متعلق سوال ہے ، جس کا موجود حالات میں معروضی اور درست جواب تلاش کرکے اس پر قومی مباحثہ کرنا چاہئے کیونکہ تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال سے صر ف سیاسی طور پر مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی نبرد آزما ہو سکتا ہے ۔ دوسری کوئی صورت مثالی نہیں ہو گی۔

اس وقت پاکستان کی جو سیاسی صورت حال ہے ، اسے معروضی طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن ) اور پاکستان پیپلز پارٹی تاحال زیادہ موثر ہیں ۔ دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی اہم سیاسی کردار کی حامل ہیں ۔ وہ سیاسی کردار پریشر گروپ کے طور پر بڑے فیصلوں کا محرک تو بن سکتا ہے مگر خود مضبوط کن نہیں ہے ۔ سیاسی توازن بگڑا ہے کیونکہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن ) او رپاکستان پیپلز پارٹی احتساب کے عمل کی زد میں ہیں ۔ ان کی قیادت بہت زیادہ سیاسی اور اعصابی دباؤ میں ہے ۔ وہ اپوزیشن کی سیاست نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنے دفاع کی سیاست کر رہی ہیں ۔ وہ مزاحمت سے زیادہ ’’ Hobnob ‘‘ کے طریقے ڈھونڈ رہی ہیں ۔ اس سے پاکستان کا سیاسی توازن مزید بگڑ رہا ہے ۔ اگر انہوں نے مزاحمت کی کوئی حکمت عملی طے کی تھی تو مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال کے باعث وہ حکمت عملی کارگر نہیں رہے گی ۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنی ساکھ اور اپنے اعتبار کو قائم رکھنے کی تگ و دو میں ہے ۔ ففتھ جنریشن پروپیگنڈا وار فیئر میں حالات کا معروضی ادراک بہت مشکل ہو گیاہے ۔ یہ افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت مبینہ طور پر ڈیل کے لیے راضی ہو گئی ہیں ۔ قیاس آرائیوں کے مطابق وہ اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے بڑی رقوم دینے کے لیے آمادہ ہو گئی ہیں لیکن وہ تھرڈ پارٹی کے ذریعہ ڈیل چاہتی ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ ان کا نام اس ڈیل میں نہ لیا جائے ۔ اس کے بدلے میں کچھ اہم پارٹی قائدین ملک سے باہر چلے جائیں گے اور کچھ عرصے کے لیے سیاست نہیں کریں گے ۔ اگرچہ یہ قیاس آرائیاں ہیں لیکن حالات اور واقعات ان قیاس آرائیوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں ۔

اگر یہ قیاس آرائیاں درست ثابت ہوئیں تو منطقی طور پر مذکورہ بالا دونوں سیاسی جماعتیں سیاسی طور پر بہت زیادہ کمزور ہو جائیں گی اور پاکستان کی سیاست میں بالترتیب تین عشروں اور پانچ عشروں سے زائد اپنے موثر سیاسی کردار کو وہ نہیں بچا سکیں گی اور ملکی سیاست میں پنڈولم ( لٹکن ) والاتوازن بھی ختم ہو جائے گا اور نیا توازن قائم ہونے کیلئے نیامرکز بنے گا اور نئی سیاسی قوتیں ابھریں گی ۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیامیں یہ صورت حال پاکستان کے لیے مثالی نہیں ہو گی ۔ اگرچہ موجودہ حالات میں بھی پاکستان کی سیاسی قوتوں کا داخلی اور خارجی معاملات میں عمل دخل بہت کم رہ گیاہے ، قیاس آرائی والی صورت حال میں بالکل ختم ہو جائے گا۔ ان قیاس آرائیوں کی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مسلسل تردید کر رہی ہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ہے ، وہ کیوں بڑی رقوم دے کر بقول ان کے جھوٹے مقدمات ر سودے بازی کریں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بڑھاپے اور بیماریوں کے باوجود ڈیل کرکے بیرون ملک نہیں جائیں گے ۔ مریم نواز بھی دس سال کے لیے سیاست نہ کرنے کی کوئی ڈیل نہیں کریں گی اور بلاول بھٹو زرداری بھی کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں کریں گے ، جس کے ذریعہ آئندہ دس سال کے لیے کوئی سیاسی مشکلات پیدا نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہو ۔ اگر یہ تردید یں اور بیانات بھی درست ہیں تو بھی ان دونوں سیاسی جماعتوں کا فوری طور پر کوئی موثر اور سیاسی تبدیلی لانے والا کردار نہیں بن رہا، جو سیاسی توازن میں مسلسل بگاڑ کو روک سکے ۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ قوتوں کے پاس مستقبل کے سیاسی نقشے کا بلیو پرنٹ یعنی خاکہ موجود ہو ۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ مستقبل میں اس خاکے میں حقیقت کا رنگ بھر جائے ۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ احتساب کا عمل درست ہے یا نہیں ۔ ہم کسی فریق کے موقف کو بھی معروضی حقائق سے جوڑنے کی مشق فی الحال نہیں کرتے ۔ تاریخ اپنا راستہ اختیار کرتی ہے ۔ فی الوقت یہ نظر آ رہا ہے کہ سیاسی توازن بگڑ رہا ہے ۔ ملک سیاسی طور پر کمزور ہو رہا ہے ۔ سیاسی قوتوں کے ابھرنے کے حالات بن رہے ہیں ۔ چونکہ دنیامیں ترقی پسند تحریک کمزور ہے ۔ لہذا فی الوقت یہ بھی نظر آرہا ہے کہ نئی قوتیں ترقی پسند سوچ کی حامل نہیں ہوں گی ۔ نیا سیاسی توازن قائم ہونے میں وقت درکار ہو گا ۔ موجودہ او ر مستقبل قریب کی سیاسی صورت حال بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان کے لیے مثالی نہیں ہے ۔ نئے سیاسی نقشے کے خط و خال نمایاں ہو رہے ہیں ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت والے موجودہ سیاسی توازن کے پنڈولم کو ایک انتہا پر زیادہ دیر بھی نہیں رکھا جا سکے گا۔

تازہ ترین