• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لو جی! محکمہ صحت نے پھر ایک نیا تجربہ شروع کر دیا۔ پچھلے 72برس سے محکمہ صحت ہر کچھ عرصے بعد نیا تجربہ شروع کر دیتا ہے، جب وہ بری طرح ناکام ہو جاتا ہے تو پھر ایک نئے تجربے کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔

عزیز قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے کئی برس قبل محکمہ صحت کے دو حصے کر دیئے گئے تھے۔ دو وزیر صحت، دو سیکریٹری صحت۔ ایک محکمہ صحت دیہاتی علاقوں میں قائم اسپتالوں کے معاملات سے متعلق تھا۔ دوسرا محکمہ صحت اربن علاقوں میں قائم اسپتالوں اور کلینکوں کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس تقسیم سے مریضوں کو کیا فائدہ ہونا تھا؟ ڈاکٹرز بے چارے خوب ذلیل ہوئے، کبھی ان کی فائل اربن والے کے پاس تو کبھی رول والے کے پاس، اس کے بعد دونوں محکمہ صحت پھر ایک کر دیئے گئے۔ نون لیگ کی حکومت آئی تو اس نے پھر ایک مرتبہ محکمہ صحت کے دو حصے کر دیئے۔ ایک اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن اور دوسرا پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر، یہ تجربہ بھی ناکام ہوا۔ مریض اور ڈاکٹر دونوں ہی رُل گئے۔ اب پھر محکمہ صحت کے دو حصے ہیں البتہ وزیر ایک اور سیکرٹری صحت دو ہیں اور دو اسپیشل سیکرٹری صحت بھی ہیں۔

اب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نے اسپتالوں کی نجکاری کا شوشہ چھوڑ دیا۔ ہمیں حیرت تو اس بات پر ہے کہ پنجاب کی وزیرصحت جو 35برس تک خود میڈیکل ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ پڑھاتی بھی رہیں اور گائنی کی ڈاکٹر بھی ہیں، وہ اسپتالوں میں مریضوں کے مسائل اور تکلیفوں سے جس قدر بخوبی واقف ہیں، کوئی اور نہیں۔ پھر انہوں نے اسپتالوں کی نجکاری، اسٹاف کی سرکاری ملازمت کا درجہ ختم کرکے کوئی نیا طریقہ کار اپنانے کی حمایت کیونکر کی؟

گزشتہ ہفتے پنجاب کی حکومت نے سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں کو پرائیویٹ افراد پر مشتمل بورڈ آف گورنرز سےچلانے کے لئے آرڈیننس نافذ کر دیا۔ ایم ٹی آئی ایکٹ 2019بھی نافذ کر دیا گیا۔ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن ریفارمز آرڈیننس 2019کے مطابق ٹیچنگ اسپتالوں کا نظام پرائیویٹ اسپتالوں پر مشتمل بورڈ آف گورنرز کے سپرد کیا گیا۔ حکومت ان اسپتالوں کو صرف فنڈز فراہم کرے گی۔ ڈاکٹروں یا پیرا میڈیکل اسٹاف اور نرسوں کی بھرتیوں اور برطرفیوں کا اختیار بورڈ کے پاس ہو گا۔ حتیٰ کہ فری علاج و معالجے کا فیصلہ بھی بورڈ آف گورنرز کرے گا۔

قابل توجہ امر یہ ہے کہ محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نے ٹیچنگ اسپتالوں کے ملازمین کے احتجاج پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اسپتالوں میں اجتماع بھی نہیں کر سکے گا۔ اگر حکومت کو اسپتالوں کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ کرنا تھا تو اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر ایک /دو اسپتالوں میں یہ اقدام کرتے اور اس کو تھوڑا عرصہ چلاتے۔ اگر یہ نیا نظام کامیاب رہتا تو پھر باقی ٹیچنگ اسپتالوں میں بھی نافذ کر دیتے۔ سوال یہ ہے کہ اسپتالوں کا تعلق مریضوں سے ہے، کیا اس نئے سسٹم سے مریضوں کو بھی کچھ ملے گا، کیا ان کے کلینکل ٹیسٹ اور ادویات فری ہو جائیں گی؟ کیا اسپتالوں کے بستروں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا؟ کیا پروفیسروں، ایسوسی ایٹ پروفیسروں اور اسسٹنٹ پروفیسرز کی اسپتالوں میں شام کو موجودگی قابلِ عمل ہو جائے گی؟ ہمارے خیال میں اس نئے سسٹم سے مریضوں کو کوئی سہولت حاصل نہیں ہوگی۔ کہا گیا کہ بورڈ آف گورنرز کے پاس ڈاکٹروں کی بھرتیاں، برطرفیاں غریب مریضوں کا مفت علاج، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی بھرتیوں کا اختیار ہو گا۔ جس معاشرے میں سفارش اور رشوت بہت زیادہ ہو اس معاشرے کا کسی بورڈ آف گورنرز سے یہ توقع کرنا کہ وہ صرف اور صرف میرٹ پر کام کرے گا، ممکن نظر نہیں آتا۔ اس نئے سسٹم میں مریض ناصرف ذلیل وخوار ہو جائیں گے بلکہ آج جو ٹوٹا پھوٹا علاج مل رہا ہے اس کی بھی سہولت نہیں رہے گی۔ پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں میں روزانہ آئوٹ ڈور میں تین لاکھ مریض آتے ہیں، کوئی ایسا قدم اٹھانے سے قبل مریضوں کے حالات اور بڑھتی ہوئی بیماریوں کا پوری گہرائی سے جائزہ لینا چاہئے تھا۔

اگلے روز ہماری پنجاب یونیورسٹی کے ہر دلعزیز وائس چانسلرز پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر سے فون پر بات ہوئی ہم ان کے علم میں یہ بات لائے کہ بعض شعبے جہاں اردو زبان میں تھیسس ایم اے /ایم ایس سی کی ڈگری کی تکمیل کے لئے بعض اسٹوڈنٹس لکھتے ہیں، ان کی اردو کے حوالے سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور انگریزی زبان میں تھیسس لکھنے پر زور دیا جاتا ہے تو انہوں نے اس حوالے سے بڑی دلچسپ اور خوبصورت بات کہی کہ ہم تو سائنس کے مضامین میں بھی اگر کوئی اردو میں تھیسس لکھنا چاہئے تو اس کو منع نہیں کرتے۔ ہم نے عرض کی کہ ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں جہاں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کام ہوتا ہے اور پاکستان کے 99فیصد ٹی وی چینلز اور اخبارات اردو زبان میں ہیں، طالبعلموں سے کہا جاتا ہے کہ انگریزی میں تھیسس لکھو۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی یونیورسٹیوں میں اپنی قومی زبان اردو میں تھیسس لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ میں کسی زمانے میں اسٹوڈنٹس اردو میں تھیسس لکھا کرتے تھے، ہمیں اردو زبان کو ترقی و فروغ دینا چاہئے۔ ایم فل میں جو اسٹوڈنٹس داخلہ لیتے ہیں انہیں ایم اے /ایم ایس سی کے نمبروں، تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔ ایم فل میں داخلہ انگریزی زبان میں تھیسز لکھنے کی بنا پر کوئی اضافی نمبر یا ترجیحی سلوک نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا ہم پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بورڈ آف اسٹڈیز سے کہیں گے کہ جو اسٹوڈنٹس اردو زبان میں تھیسس لکھنا چاہیں ان کی اگر آپ حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو حوصلہ شکنی بھی نہ کریں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ جو اسٹوڈنٹس بی ایس آنر اور ماسٹرز میں ہیں ان کو اردو بھی لکھنی نہیں آتی۔ اگر ہم کبھی آپ کو ماس کمیونیکیشن میں زیر تعلیم اسٹوڈنٹس کے اردو الفاظ دکھائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔

تازہ ترین