• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ تو فقط تین عشرے کی ہے، ہنوز بن رہی ہے، کیسے بن رہی ہے؟ اور کیا بن رہی ہے؟ موجودہ ملکی صورتحال میں دونوں سوالات کے مفصل جوابات، پھر شیئرڈ پالیسی اور اس کے مطابق حکومتی اقدامات، اب اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی حصول حقِ خودارادیت کی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کا لازمہ ہے۔

سرد جنگ (1947-91) کا اختتام، 1917ء میں ماسکو میں گھڑی ’’انسانی تہذیب‘‘ اور اس کے وسیع پیمانے پر تسلط کے خاتمے سے ہوا تھا۔ وارثا پیکٹ کی چھتری میں جرمنی کی تقسیم دیوارِ برلن سے ہوئی، جسے نومبر 1989ء میں دونوں جانب کے جرمنوں نے منہدم کر دیا تو کمیونزم کے جھوٹے بیانیوں سے تراشی سرخ جنت بھسم ہو گئی۔ البانیہ تا پولینڈ اور بالٹک تا قازقستان سوویت کشور کشائی کے تنے آہنی پردے آزادی کی تازہ فضائوں میں تحلیل ہوگئے۔ گویا نئی تاریخ سازی نے وسط ایشیائی اور مشرقی یورپ کی بلا جرم عشروں سے مقہور و محبوس کروڑ ہا آبادی کو بری کر دیا۔ جنم تا موت، اذیتوں کے کوہِ گراں سے گزر جانے والی نئی نسل آج دونوں نو آزاد خطوں کی اکثریت تادم آزادی کے حقیقی مفہوم سے شناسا نہیں ہو پا رہی۔ کیا عجب ہوا کہ تاریخ انسانی کے ہر دو سب سے بڑے قید خانوں وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ میں کروڑ ہا مسلمان اور اتنے ہی عیسائی بھی عشروں قید رہے۔ ان کی آزادی کے بعد دنیا نے یوٹوپیا (تخلیلاتی، مکمل سکھ چین والا عالمی معاشرہ) تو کیا بننا تھا کہ یہ دنیا عالم خیر و شر ہے، تاہم ممکنہ امن عالم کے تمام تر سازگار حالات ضرور پیدا ہوگئے تھے لیکن مقابل دوسری حقیقت یہ ثابت ہوئی کہ انسانی دل و دماغ میں شطانیت کا بسیرا جو بدستور موجود، بلکہ تبدیل کے مقابلے میں زیادہ مستحکم، 20ویں صدی ختم ہونے سے پہلے آخری عشرے کے سازگار حالات کے باوجود انسانی دل و دماغ میں شیطانیت مر نہ گئی تھی، سو یہ عود آئی، عالمی شر کے طور پر ’’تہذیبوں کے ٹکرائو‘‘ (Clash of Civilization) کا نظریہ نومولود لیکن ناجائز اور بڑے بڑے ’’قومی مفادات‘‘ کے حصول کے لئے اسے سچ ثابت کرنے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سائنسی انداز کی کوششوں کے باوجود جب جھوٹے تھیسس کی عالمگیر پذیرائی نہ ہوئی اور دوسری جانب مختلف النوع آمریتوں کے خاتمے کا وقت بھی آن پہنچا تھا اور راہیں ہموار لیکن سازگار حالات کو بدلنے کا فیصلہ ہوا۔ ’’نئے اور وسیع تر قومی مفادات‘‘ کو ترجیح اول دیتے ہوئے کچھ آمریتوں کو قائم رکھنے اور کچھ کو ختم کرنے کا۔ کہیں حصول حقِ خود ارادیت کو آسان تر بنانے کا اور کہیں ناممکن بنانے کا۔ دو مسلم ممالک میں ایسٹ تیمور (انڈونیشیا سے کاٹ کر) اور جنوبی سوڈان، سوڈان کو تقسیم کرکے دو نئی آزاد ریاستیں بنیں۔ تاحال کشمیر اور فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے بھارت اور اسرائیل کی آمادگی کا مضحکہ خیز اور شیطانی انتظار کیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی معاہدوں کی متنازع خلاف ورزی اور ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے باعث عالمی اقتصادی پابندیاں ایران کے لئے مقدم ٹھہریں اور پاک چین مشترکہ ترقیاتی منصوبہ سی پاک باعثِ تشویش، اسی طرح ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن بھی۔

کمال تاریخ سازی پر محیط اس دورانیے (1919-79) میں مقبوضہ کشمیر میں حصولِ حق خودارادیت کو مکمل پُرامن اور خالصتاً انتفادہ نے 1989ء میں جنم نہیں لیا، آزادی کی ہوا نیپال تک گئی جہاں ریاست کا آئینی تشخص ختم ہو کر سیکولر جمہوریہ نئی شناخت بنی اور بالٹک و جارجیا سے لے کر قازقستان تک مذہبی آزادی کا حق تیزی سے یا بتدریج بحال ہوا۔

اس پس منظر میں عراقی آمر شیطان قرار پایا اور وہاں وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs)کے فرضی ذخائر سے یکطرفہ جنگ کا راستہ نکالا گیا، پھر کوفی عنان کے اختلافی بیان اور یورپی صدر مقامات میں عراق پر حملے کے خلاف حقیقی ملینز مارچ کے باوجود حملہ ہوگیا۔ عراق مقبوضہ، پھر مرضی کی جمہوریہ بھی بن گیا۔ عراق میں WMDsکے ذخائر کے الزام اقوام متحدہ کی انسپکشن سے غلط ثابت ہوئے۔ صدر بش نے وائٹ ہائوس سے رخصتی سے قبل مان لیا کہ ’’اطلاعات غلط تھی، غلطی ہوگئی‘‘ لیکن تب تک لاکھوں بے گناہ عراقی قتل ہو چکے تھے۔ اسی عراق میں جو افغانستان کی طرح مقبوضہ بھی ہے اور امریکی مرضی کے مطابق جمہوریہ بھی، ’’باغیوں اور سرکشوں‘‘ کے لئے بغداد کے نواح میں ابوغریب کی ’’عبرتناک‘‘ جیلیں بڑے خرچے سے تیار ہوئیں جہاں رات دن جنیوا کنونشن کے بنیادی انسانی اور جنگی قیدیوں کے حقوق کو روزانہ قتل کیا جاتا تھا۔ تاوقتیکہ وہاں اپریل 2004ء میں خاتون امریکی فوٹو جرنلسٹ کی پہنچ نہ ہوئی اور اس کی عقوبت خانے میں باقی قیدیوں پر اذیت ناک اور انسانیت سوز مظالم کی تصاویر CBSکی پبلیکشنز میں شائع نہ ہوگئیں، جسے اگرچہ قدامت پسند امریکی میڈیا جواز ثابت کرتا رہا، تاہم امریکی رائے عامہ کی طاقت سے بش انتظامیہ کو وضاحت ہی نہیں کرنا پڑی، تحقیقات بھی کرانا پڑیں جن میں جیل انتظامیہ کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ ابوغریب کے 94فیصدی قیدی بے گناہ ہیں جن پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ بش انتظامیہ نے وضاحت کی کہ یہ کوئی حکومتی پالیسی نہیں، جیل عملے کے اعمال ہیں، ذمہ داراں کو سزا ہوئی۔

آج عالمی میڈیا کے تجزیوں میں Troops-Locked مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے، جہاں 34روز سے 90لاکھ سے زائد بوڑھے، بچے، مرد، عورتیں اور نیم فاقہ زدہ شہری قید ہیں جو دوائیوں اور ہر قسم کی اطلاعات وصول کرنے اور بھیجنے کے آئینی اور انسانی حق سے محروم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور ابوغریب میں کتنی مماثلت ہے اور یہ دونوں ہولناک کیسز کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس پر ائندہ کے’’آئین ِ نو‘‘ میں۔ یار زندہ صبحت باقی، ان شاء اللہ۔

تازہ ترین