• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال کا یہ بیان کہ اب دو ہی راستے ہیں مارشل لایا نئے انتخابات،ایک سیاستدان کا ملک کے سیاسی مستقبل سے مایوسی کا اظہار ہے۔مگر ایک اتنے سینئر سیاستدان کی طرف سے جمہوریت کی بجائے کسی دوسرے آپشن کی تجویز دینا افسوسناک اور سیاسی انحطاط کی نشاندہی ہے۔اس ملک کی 70سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آدھے سے زیادہ وقت یہ ملک آمریت کی گرفت میں رہااور دراصل جمہوریت کے مسائل انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ایوب خان نے جب اس ملک کا اقتدار سنبھالااور تمام اختیارات اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے ایک آئین نافذ کیا تو مشرقی پاکستان،سندھ،بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے عوام میں مایوسی پیدا ہوئی۔پھر جب ایوب خان نے صدارتی انتخابات کرائے اور بانی پاکستان جناح صاحب کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکست دی تومشرقی پاکستان کے عوام میں یہ احساس تقویت پا گیا کہ اب اصل اقتدار کے مالک انہیں کبھی اقتدار نہیں دیں گے اور یوں پاکستان میں معاشی،سیاسی اور سماجی استحصال بڑھتا رہا۔ایوب خان کے دور میں کراچی اور لاہور میں ترقی ہوئی،اسلام آباد کا شہربھی تعمیر ہوا،لیکن مشرقی پاکستان سمیت پورا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکا،تعلیم کی شرح اور صحت کی سہولتیں دیہات تک نہیں پہنچ سکیں،ایک عام آدمی کو قانون اور ریاستی تحفظ فراہم نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں ایک غیر فطری معاشرہ وجود میں آیا جس کا انجام بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نمودار ہوا۔ایوب خان کے دور میں جہاں اور بہت سارے مسائل پیدا ہوئے وہیں آزادی اظہار پر پابندی لگا دی گئی ۔آزاد اخبارات کو بند کردیا گیا جس کے نتیجے میں عوامی اظہار کے تمام طریقے بندہوگئے۔یحییٰ خان کے دوسرے مارشل لامیں شفاف انتخابات تو ہوئے لیکن عوامی لیگ کی اکثریت تسلیم کرنے کی بجائے فوج کشی کی گئی جس کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوا ،اور یوں 16دسمبر کو بنگلہ دیش وجود میں آیا،نوے ہزار فوجی قید ہوئے،ہزاروں میل کا علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا گیا،اور یوںپاکستان کے عوام کا اپنے نظام سے اعتماد اُٹھ گیا۔اس کے بعد جب جنرل ضیاالحق نے 5جولائی 1977ء کو اقتدار سنبھالاتو انہوں نے امریکی پالیسی کے نتیجے میں مذہبی انتہاپسندی اور جہاد کو بطور ہتھیار استعمال کیاجس کے نتیجے میں پاکستانی سماج کاسوشل فیبرک تباہ ہوا۔ مگریہی وہ وقت تھا جب راجیو گاندھی نے ہندوستان میں آئی ٹی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا شروع کیا اوریوں 80کی دہائی سے ہندوستان میں آئی ٹی کی ٹیکنالوجی کی ترقی شروع ہوئی ۔پھر جنرل پرویز مشرف کا دور تباہی و بربادی کی شکل میں نمودار ہوا۔پاکستان کا اتحادی فوج اور پراکسی وار میں شامل ہونے سے کابل اور قندھار میں لڑی جانے والی جنگ پشاور اور کوئٹہ سے ہوتی ہوئی پنجاب اور کراچی تک پہنچ گئی۔سونے پہ سہاگہ سردار اکبر بگٹی کا قتل بھی اسی دور میں ہوا،جس کے نتیجے میں بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو تقویت ملی اور وہاں آپریشن ہواجس کے نتیجے میںبلوچستان کے لوگوں میں مایوسی پھیلی ۔یہ تمام مسائل آمریتوں کے ادوار میں پیدا ہوئے۔ شاید احسن اقبال عمران خان کی پالیسیوں سے مایوس ہیں جو کہ ایک حقیقت ہے ۔اگرآج جمہوریت اور جمہوری ادارے نہیں پنپ رہے تو اس کی اصل ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت ہے جنہو ں نے نہ ہی اچھی پارلیمانی روایتوں کو اور نہ ہی میثاق جمہوریت کی اقدار کو مشعلِ راہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ادوار میں شدید اختلافات کے باوجود اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جیسے معرکتہ لآراء جمہوری فیصلے کیے گئے لیکن اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نہ صرف کوئی نئی قانون سازی نہیں کی ہے بلکہ منظم طریقے سے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی روش پر گامزن ہے۔عمران خان کی حکومت نے آئین کی بنیادی روح کو پامال کرنا شروع کردیا ہے ۔الیکشن کمیشن میں انہوں نے جس طرح دو نئے ججز کا انتخاب کیا وہ آئین سے ماورا اقدا م ہے اور اگر ان ججز نے حلف اٹھا لیا تو آئندہ شفاف انتخابات پاکستانی عوام کے لیے ایک خواب ہی بن کر رہ جائیں گے۔عمران خان کے دور میں جس طرح عدلیہ کو مفلوج کیا گیا، ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کیے گیے اور پھر میڈیا پر جس طرح پابندیاں لگائیں گئیں،صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا گیا اور ایک وزیر نے تو فخریہ طور پر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب پرنٹ میڈیا کا دور نہیں رہا لحٰذا میڈیا پڑھانے والے یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹ بند ہوجانے چاہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کو وفاق کے کنٹرول میں لینے کے لیے کوسٹل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا ہے جو کہ اٹھارویں ترمیم اور آئین کی شق 172کے خلاف ہے۔جس سے پھربلوچستان میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ گوادر کو وفاقی تحویل میں لے لیا جائے گا ایسا ہی خدشہ کراچی اور ٹھٹہ کے باسیوں کو بھی پیدا ہوگیا ہے۔اس حکومت نے آئینی اداروں کی موجودگی میں ایسے ادارے قائم کرنا شروع کردیئے ہیں جن میں سولین کی بالادستی نہ ہونے کے برابر ہے اس سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان کو صدارتی نظام کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو اس ساری صورتحال میں احسن اقبال نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے مگر مسئلے کا حل مایوسی میں نہیں بلکہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے میں ہے ۔جمہوری نظام کے نتیجے میں ہی اس ملک کے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔یاد رہے کہ اسی ہفتے حکومت کو دو سو ارب روپے کی سبسڈی کا نوٹیفکیشن واپس لینے پر مجبور کیا گیاجس کا اجراء انہوں نے اپنے من پسند لوگوں کے لیے کیا تھا۔یہ صرف پارلیمنٹ کی موجودگی اور میڈیا کی بھرپور آواز کی وجہ سے ہی ہو سکا ہے ورنہ آمرانہ ادوار میں ایسے نوٹیفکیشن کا واپس لینا بھی محال تھا۔اس لیے ضروری ہے کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کو عوامی جدوجہد کے ذریعے مستحکم کیا جائے او ریہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ مارشل لاء چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو اس نے اس ملک کو ہمیشہ نقصان پہنچایاہے۔اس صورتحال میں احمدفراز نے کیا خوب کہا ہے!

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے

صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

تازہ ترین