• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک مرتبہ پھر فرمایا ہے کہ قانون کی حکمرانی معاشرے کو تبدیل کر سکتی ہے اور مجھے ایک مرتبہ پھر قانون کے ساتھ ”حکمرانی“ کا لفظ مناسب اور موزوں نہیں لگا مگر چیف جسٹس نے تو قانون کی حکمرانی کی بجائے انگریزی میں ”رول آف لاء“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں قصور اردو ترجمہ کا ہے کہ جس نے اِسے ”قانون کی حکمرانی“ بنا دیا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی 66سالہ قومی زندگی میں ہم نے جس نوعیت کی ”حکمرانیاں “ دیکھی ہیں اُن میں سے بیشتر اور خاص طور پر براہ راست فوجی وردیوں کی 33سالہ ”حکمرانیوں“ کیقانون کا آئین اور دستور سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ان ”حکمرانیوں“ نے ہمارے ساڑھے چھ ہزار سال کے عرصے میں ترتیب و تہذیب پانے والے معاشرے کا حلیہ بگاڑنے بلکہ اس کے پرخچے اڑانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے سیاست کو اس قدر بگاڑا نہیں ہو گا جس قدر حکمرانوں نے حکمرانی کو مسخ کیا ہے۔
”قانون کی ایک حکمرانی“ جنرل ایوب کی حکومت بھی لائی تھی جس نے جمہوریت کی بنیادیں تلاش کرتے کرتے جمہوریت کو بے بنیاد کر دیا تھا۔ قانون کی ایک حکمرانی مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق نے بھی پھانسیوں اور ننگی پیٹھوں پر کوڑوں کی صورت میں صادر فرمائی تھی جس کے انتہائی خوفناک اثرات کو آج بھی قوم کا ہر فرد ہاتھ لگا لگا کر روتا ہے۔ قانون کی ایک حکمرانی جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء کے بعد چوتھے نجات دہندہ جنرل پرویز مشرف نے بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کے لئے مسلط کی تھی جو ہر چھری اور خطرے کے سامنے ”سب سے پہلے پاکستان“ کی گردن پیش کرتی تھی اور آج دنیا بھر میں لیکچر دیتی پھرتی ہے مگر وطن واپسی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اس کے لئے اسے علامہ طاہر القادری کی تین سالہ نگران حکومت اور تمام مسلم لیگوں کے مشترکہ متنجن کی ضرورت ہو گی اور شاید دفن ہونے کے لئے کوئے یار میں دو گز زمین بھی دستیاب نہیں ہو گی۔ ملک کے ایک نجات دہندہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے عہد حکومت کا لب لباب اپنی زندگی کی شاید واحد حقیقت بیانی میں پیش کیا تھا کہ ”قانون کی سختی سے صرف رشوت کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ “ یہ نجات دہندہ اپنے پیچھے اپنی راکھ کے علاوہ ہیروئن، کلاشنکوف، بددیانتی اور دہشت گردی کے کلچر کے جراثیم بھی چھوڑ گئے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان صحیح فرماتے ہیں کہ ”رول آف لاء“ معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے مگر ”رول آف لاء “ کا صحیح ترجمہ ”قانون کی حکمرانی“ نہیں ”قانون کا تحفظ“ ہے اور قانون کایہ تحفظ ہر خاص و عام کو بغیر کسی تمیز کے یکساں طور پر فراہم کرنے سے مہیا کیا جا سکتا ہے۔ قانون جب ہر کسی کو تحفظ فراہم کرنے لگے گا تو لوگوں کے دلوں میں قانون کا رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہو گی ہر کوئی قانون کا احترام قانون سے پیار اور محبت کرنے لگے گا۔ قانون سے عام لوگوں کی محبت قانون فراہم کرنے والے جج صاحبان تک بھی پہنچے گی۔ انہیں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی علیحدہ کوششیں نہیں کرنی پڑیں گی اور یہی قانون کے تحفظ کی وہ فضا ہے جس میں معاشروں میں مثبت اور قابل قدر ، واجب العزت تبدیلیاں آنا لازمی اور ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قانون کے تحفظ کی فضا میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والے خود اپنے آپ سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ٹریفک رولز کی معمولی سی خلاف ورزی کے خلاف چھوٹے چھوٹے بچے بھی میدان عمل میں آ جاتے ہیں اور یہی معاشروں کی خوشگوار اور مثبت تبدیلی ہے جو پاکستان کے چیف جسٹس چاہتے ہوں گے۔
تازہ ترین