• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی حالات میں دن بدن ہونے والی ڈویلپمنٹ پر جہاں ملک کے معاشی ماہرین اور کاروباری طبقہ بڑا پریشان اور متفکر ہے وہاں نئے مالی سال کا بجٹ بنانے والے وزارت ِ خزانہ اور دیگراداروں کے حکام پریشان ہیں کہ وہ یکم جولائی کو شروع ہونے والے نئے مالی سال کا بجٹ کس کے لئے بنائیں؟ اگر تواس دوران نگران حکومت برقرار رہتی ہے تو ظاہرہے کہ اس کے لئے بجٹ دستاویزات اوروزیرخزانہ کی تقریر کامسودہ مختلف ہوگا اور اس میں موجودہ حکومت کی زیادہ ترخرابیوں اور ناکامیوں کو اجاگر کیاجائے گا لیکن اگر کوئی اورسیاسی پارٹی یا گرینڈ سیاسی اتحاد ( جس کے امکانات زیادہ ہیں بشرطیکہ عام انتخابات وقت پرہوجائیں) الیکشن جیت جاتی ہے تو پھر ساری دستاویزات اور پوری بجٹ تقریر موجودہ حکومت کے تمام کاموں پرتنقید اور الزامات پر مبنی ہوگی لیکن اگر صورتحال معمول کے مطابق چلتی رہی تو وزیرخزانہ کی تقریر میں ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کا سیلاب ہوگا۔ یہ سیلاب بھی ایسے ہی تباہی کرے گا جیسے قدرتی سیلاب سے انسان اور معیشت سب کچھ تباہ ہوتا ہے۔ اس وقت عملاً صورتحال بڑی دلچسپ ہے ایسے لگتا ہے کہ نیا بجٹ بنیادی طور پرمعاشی شعبوں کی بیوروکریسی کا امتحان ہے جبکہ پورے ملک کی انتظامی مشینری کا بھی امتحان ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں روز تبصرے ہورہے ہیں کہ کیا بجٹ نگران وزیراعظم منظور کریں گے یا منتخب وزیراعظم کو یہ اعزاز ملے گا۔ نئے بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف اور عالمی بنک سمیت مختلف مالیاتی اداروں کے حکام بھی سوچ بچار کر رہے ہیں کہ اگلے تین ماہ کے بعد اسلام آباد کس کے پاس ہوگااورصوبوں کے حالات کیا ہوں گے؟ دوسری طرف عوام پریشان ہیں کہ نیا بجٹ جوکوئی بھی پیش کرے انہیں کسی صورت میں کچھ نہیں ملنا۔ اس لئے کہ اس وقت داخلی اورخارجی طور پرمعاشی حالات کوئی اطمینان بخش نہیں ہیں مگرسیاسی حکمران ہوں یا نگران سب کوبھاری بیوروکریسی اعداود شمار کے چکر میں ڈال کر بظاہر ایک صحت مند بجٹ تیارکردے گی۔
اس وقت وزارتِ خزانہ میں عملاً نئے بجٹ کی دستاویزات اور مختلف اجلاسوں کا شیڈول تیارکرلیاگیا ہے جس سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کوبھی آگاہ کردیاگیاہے اورمختلف وزارتوں اور محکموں سے نئے مالی سال کی ڈیمانڈ بھی طلب کرلی گئی ہے جس کے بعد یکم اپریل سے 12 اپریل تک ترجیحات کا تعین کرنے والی کمیٹی ان ڈیمانڈز کاجائزہ لے گی۔ اگلے مرحلہ میں نئے سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے APCC (سالانہ پلان کوآرڈی نیشن کمیٹی) کا اجلاس ماہ ِ اپریل کے آخرمیں ہوگا اور آخری مرحلہ میں ماہ مئی کے پہلے دس روز میں قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوگا جس کی صدارت وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کریں گے۔ اس شیڈول کے حساب سے توایسے لگتا ہے کہ بیوروکریسی کی ان پٹ بجٹ میں 85 فیصد سے زائد ہوگی اورسیاسی قیادت کا حصہ 15 فیصد تک ہوگا لیکن سیاسی قائدین کی کئی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں پچھلے 65 سالوں سے بیوروکریسی ہی کے بجٹ کواپنا بجٹ ماننا اور کہنا پڑ رہا ہے۔ اس لئے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں قومی اقتصادی امور کے حوالے سے ابھی اتنا ہوم ورک نہیں کیا جاتا جس کے تحت وہ ایک متبادل بجٹ تیار کرکے بیوروکریسی کو اس پر عملدرآمد پرمجبور کرسکیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں کے ریڈار اسکرین پرابھی ملک کے حقیقی اقتصادی ایشوز اور ان کے حل کے حوالے سے وہ ٹھوس کام سامنے نہیں آسکا جس پرعوام اطمینان کا اظہار کرسکیں اور اس سے ملک و قوم کے معاشی حالات میں بہتری آسکے البتہ ایسا نہ ہونے کے باعث ان قائدین کے اپنے معاشی حالات میں توبہرحال بہتری آ جاتی ہے چاہے وہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) یا اقتدار میں رہنے والی دوسری چھوڑی بڑی قابل ذکر تمام جماعتیں ہوں۔ اب کی بار تو سیاسی میدان کی مارکیٹ میں کئی نئی کمپنیوں (پارٹیوں) کے ریٹ بھی لگیں گے۔ دیکھیں عوامی مارکیٹ میں کس پارٹی (کمپنی) کاریٹ کیا نکلتا ہے اور بے چارے عوام کو اس کے بدلے میں کیا ملتا ہے؟فی الحال تو نئے بجٹ کے حوالے سے بیوروکریسی ایک مشکل امتحان سے گزر رہی ہے مگر کافی حد تک سیاسی ہونے کی وجہ سے انہیں بھی بحرانی حالات سے نپٹنے اور سیاسی قوتوں کوبے وقوف بنانے یا انہیں استعمال کرنے کے گُر آچکے ہیں۔
اس لئے وہ بھی کہہ رہے ہیں بجٹ وغیرہ کے کام بھی ہوجائیں گے آپ ملک کی فکر کریں اوردعاکریں کہ الیکشن ہو جائیں اور پرامن انتقال اقتداربھی ہوجائے مگر اس سے پہلے کسی نگران وزیراعظم پرسب کا اتفاق ہوجائے یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہے جس کے باعث کئی نئے مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔
تازہ ترین