• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سطور انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے مرکز میں واقع ایک ہوٹل کی اکیسیویں منزل پر واقع کمرے میں بیٹھ کر سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ میں پلڈاٹ (PILDAT) کے زیراہتمام یہاں کا دورہ کرنے والے اس آٹھ رکنی وفد کا حصہ ہوں جو انڈونیشیا کے سول ملٹری تعلقات کی نوعیت اور جمہوریت کی طرف اس ملک کے سفر کا مطالعہ کرنے یہاں آیا ہوا ہے۔ ہوٹل کی کھڑکی سے مجھے بلندوبالا عمارتیں نظرآرہی ہیں ۔ صفائی‘ حسن انتظام اور ترقی کے حوالے سے یہ شہر اب جدید مغربی دنیا کے شہروں کا ہم پلہ ہے۔ میں دو سال کے وقفے سے جکارتہ آیا ہوں اور پچھلی بار کی نسبت اب کے بار جکارتہ کو بہت مختلف اور جدید پایاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک کس تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ انڈونیشیا مسلمانوں کا ملک ہے ۔ یہ آبادی کے لحاظ سے چھٹا اور اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی لمبے عرصے تک فوجی حکومت رہی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوئے ابھی اسے صرف چند سال ہوئے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی فوج بہت بڑی ہے، پاکستان کی طرح یہاں بھی کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن پھر بھی یہ ملک ترقی کرگیا اور اس کی جی ڈی پی کی ترقی شرح چھ فی صد سالانہ سے زائد ہے۔ ان سب عوامل کے ہوتے ہوئے بھی انڈونیشیا اس قدرتیزی کے ساتھ ترقی کیسے کررہا ہے اور قدرتی وسائل سے مالامال ہمارا پاکستان پستی کی جانب کیوں جارہا ہے؟ جکارتہ میں بیٹھ کر یہ سوال مجھے پریشان کرتا رہا اور اس کا جواب یہی ملا کہ یہاں امن ہے اور پاکستان میں امن نہیں ہے۔ یہاں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں لیکن یہاں پاکستان کی طرح مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔ انڈونیشیا کے اندر دہشت گردی ہورہی ہے اور نہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی زیرقیادت کوئی جنگ لڑرہا ہے۔ یہاں قیام کے دوران پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ڈیفنس اتاشی کرنل عمر سے ملاقات ہوئی ۔ وہ وزیرستان میں تعیناتی کے دوران شدید زخمی اور ایک ٹانگ سے محروم ہوئے تھے جس کے بعد ان کی تعیناتی یہاں کی گئی ۔ یہ باہمت اور کھلے ڈلّے انسان یہاں بچوں سمیت ملے۔ سوچتا رہا کہ ہماری اس منحوس جنگ کے اثرات انڈونیشیا تک بھی پہنچ گئے ہیں اور جب یہاں کے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کی، اپنی ہی فوج سے جنگ برپا ہے تو ان کے ذہنوں میں ہمارے ملک کا کیا امیج ابھرے گا۔ انڈونیشیا میں قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ یہاں کے قدرتی وسائل پاکستان سے زیادہ ہیں اور نہ یہاں کے لوگ جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے ہم سے بہتر ہیں ۔ فرق صرف امن اور بدامنی کا ہے ۔ پاکستان میں اگر امن ہوجائے اور وہ نیشنل سیکورٹی اسٹیٹ کی بجائے ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف سفر کا آغاز کردے تو ہم چند سالوں میں انڈونیشیا اور ملائیشیا سے آگے نکل سکتے ہیں ۔ پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ا سٹیٹ رہنے کی وجہ اس کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی ہے اور میرے نزدیک مغربی بارڈر پر اصلاح کا ہمیں آخری موقع ملا ہے‘ جو بدقسمتی سے ضائع ہوتا نظر آرہا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں ۔ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے نہ صرف وہ پاکستان کے کردار پر آمادہ ہوگیا ہے بلکہ بڑی حد تک پاکستان کی بات سنی جارہی ہے ۔ پاکستان کے مطالبے کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردیا ہے اور اس عمل میں پاکستان کو شریک کیاگیا ہے ۔ ماضی قریب میں پہلی مرتبہ افغانستان کا اعلیٰ سطحی دفاعی وفد گزشتہ ہفتہ پاکستان کا دورہ کرکے واپس لوٹ چکا ہے اور دونوں ممالک کے مابین فوجی تعاون کے راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ لندن کانفرنس میں افغان حکومت دونوں ممالک کے مابین بارڈر مینجمنٹ پر آمادگی ظاہر کرچکی ہے اور اب اسے عملی شکل دینے کے لئے ورکنگ گروپ تشکیل دیاجارہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستانی طالبان نے بھی مذاکرات کی پیشکش کردی ہے ۔ ان کی شرائط سخت اور بظاہر ناقابل عمل نظرآتی ہیں لیکن میرے نزدیک وہ مذاکرات میں نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ آخری پیشکش اتمام حجت کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔ میری دانست کے مطابق اگر پاکستان کے ریاستی اداروں نے ان مواقع سے فائدہ اٹھا لیا اور مغربی سرحد اور اس سے جڑے پختون بیلٹ میں امن کی راہ ہموار کر دی تو ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوجائے گا لیکن اگر خاکم بدہن ہم نے اس آخری موقع کو بھی ضائع کر دیا تو پھر ملائیشیا اور انڈونیشیا بننا تو درکنار ‘پاکستان روانڈا سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ مغربی بارڈر پر حالات کو سدھارنے کا موقع 2014ء میں غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد ہاتھ آئے گا جبکہ میرے نزدیک وہ موقع اب ہاتھ آیا ہے جو کہ2014ء کے بعد نکل جائے گا اور پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ پاکستان ‘ امریکہ اور افغانستان کے درمیان اشتراک کار کے جس نئے سفر کا آغاز ہوا ہے اگر اس سے فائدہ اٹھا کر ان تینوں فریقوں اور پڑوسی ممالک کیلئے قابل قبول حل نکالا گیا تو امن آ سکتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو افغانستان2014ء کے بعد بہر صورت ایک نئی اور ہمہ جہت تباہی کی طرف جائے گا‘ جس سے لامحالہ سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔ اسی طرح پاکستان میں غلط طور پر یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ یہاں پر طالبانائزیشن اور عسکریت پسندی کا مسئلہ2014ء کے بعد حل کرنا آسان ہوجائے گااور لگتا ہے کہ پالیسی ساز اسٹیٹس کو کو برقرار رکھ کر اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں لیکن میری رائے یکسر الٹ ہے۔ میرے نزدیک اس کے بعد اس مسئلے کو کنٹرول کرنا مشکل بلکہ شاید ناممکن ہوجائے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ2014ء تک امریکہ اور افغانستان کی حکومتوں کے ساتھ ہماری بارگیننگ پوزیشن مستحکم ہے اور ہم اس معاملے میں ان کو تعاون پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن 2014ء کے بعد ان کی یہ محتاجی ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد تعاون کی بجائے شاید وہ انتقام لینے کی خاطر ہمارے اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دیں گے۔ اسی طرح سردست افغان طالبان بھی پاکستان کے محتاج ہیں اور ان کے ذریعے ہم پاکستانی طالبان کو کسی بھی حل پر آمادہ کرسکتے ہیں لیکن 2014ء کے بعد ان کی یہ محتاجی ختم ہوجائے گی اور پھر وہ اپنے ہم نظریہ اور ہم عقیدہ لوگوں جو ملّا محمد عمر کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں‘ پر کسی بھی قسم کا د باؤ ڈالنے کے روادار نہیں ہوں گے بلکہ پاکستان کے اندر ان کی پراکسی کی حیثیت رکھنے والی اس قوت کو وہ مزید توانا کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس وقت پاکستانی طالبان ڈرون حملوں کی وجہ سے آزادانہ سرگرمیاں نہیں کرسکتے لیکن 2014ء کے بعد یہ خطرہ ٹل جائے گا۔ اسی طرح اس وقت اگر پاکستانی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو وہ آسانی کے ساتھ افغانستان میں نہیں جاسکتے لیکن جب پاکستانی سرحد سے متصل جنوبی اور مشرقی افغانستان میں افغان طالبان کا مکمل یا جزوی کنٹرول قائم ہوجائے گا تو پھر پاکستانی طالبان کو ایک وسیع بیس کیمپ مل جائے گا ۔اسی طرح جب امریکہ شکست خوردہ حیثیت میں یہاں سے نکلے گا تو نہ صرف افغان طالبان بلکہ پاکستانی طالبان بھی فتح کے تاثر سے سرشار ہوں گے اور ان کا مورال اس قدر بلند ہوگا کہ پاکستانی ریاست سے ٹکرانا ان کو بائیں ہاتھ کا کھیل نظرآئے گا۔ اس مورال کے ساتھ ان کو کسی حقیقت پسندانہ حل پر لانا ناممکنات میں سے بن جائے گا ۔ تبھی تو میں پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کررہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک 2014ء کے بعد طاقت کے ذریعے بھی ان کو زیرکرنا مشکل ہوجائے گا اور تب مفاہمی عمل بھی ناممکن ہوگا ،جو کچھ کرنا ہے2014ء سے قبل کرنا ہوگا لیکن افسوس کہ ہمارے پالیسی ساز2014ء کے آنے کے منتظر ہیں ۔
تازہ ترین