• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کچراگردی‘ کوئی ہے، جو ذمےداری قبول کرے، اِن مسائل کا حل کیا ہے.....؟؟

منور راجپوت

’’ آج رات 9 بجے چچا عبدالمجید کی بیٹھک میں گلی والوں کی میٹنگ ہے، آپ بھی ضرور آئیے گا۔‘‘ چند نوجوانوں نے ہمیں دعوت دی تھی، سو ہم مقرّرہ وقت پر میٹنگ میں پہنچ گئے، جہاں کچھ ہی دیر میں دیگر محلّے دار بھی اکٹھے ہوگئے۔ اس اجلاس کا موضوع گلی کے بیچوں بیچ موجود کچرے کا ڈھیر تھا، جو پہاڑ کی سی صُورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔گو کہ بلدیہ کی جانب سے گلی کا کچرا اٹھانے کے لیے ایک خاکروب مقرّر ہے، مگر اُس کا کبھی کبھار ہی’’ دیدار‘‘ ہوتا ہے، کیوں کہ اُس نے دوسرے علاقوں میں پرائیویٹ ٹھیکے لے رکھے ہیں۔کام وہاں کرتے ہیں اور تن خواہ ہمارے محلّے کی صفائی کی لیتے ہیں۔ بہرحال، طویل مشاورت کے بعد طے پایا کہ بلدیہ کے چکروں سے نکل کر گلی کی صفائی کا خود ہی کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔ پھر دوسرے ہی روز ایک خاکروب کا انتظام ہوگیا۔ ہر گھر کے لیے ماہانہ کچھ رقم مقرّر کی گئی، جو دو افراد پر مشتمل کمیٹی جمع کرکے خاکروب کے حوالے کر دیتی۔ اس بات کو تین ماہ ہو چُکے ہیں، وہ خاکروب روزانہ پابندی سے آتا ہے اور ہر گھر سے کچرا اٹھا کر لے جاتا ہے۔ وہ گلی، جس میں داخل ہونے سے پہلے ناک پر کپڑا رکھنا پڑتا تھا اور جہاں لگے کچرے کے ڈھیر سے دماغ معطّل کر دینے والی بدبو کے بھبکے اُٹھتے تھے، وہ اب صاف ستھری رہتی ہے۔ چلیے جی! ہم نے تو’’ اپنی مدد، آپ‘‘ کے تحت گلی کا مسئلہ حل کر لیا، مگر اگلی بات یہ ہے کہ ہماری گلی سے اُٹھایا گیا کچرا کچھ دُور قائم’’ کچرا کنڈی‘‘ میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں وہ کئی کئی روز پڑا رہتا ہے اور پورا محلّہ اُس سے اُٹھنے والی سڑاند کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ دراصل، یہ صرف ہمارا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ کراچی کا ہر شہری ایک مدّت سے’’ کچرا گردی‘‘ کی زَد میں ہے۔ یہاں کی گلیاں، محلّے کچرا کنڈیوں میں تبدل ہو چُکے ہیں۔ جگہ جگہ کچرے کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ بیش تر گرین بیلٹس کچرے سے اَٹی ہوئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سڑکوں کے کنارے لگے درختوں اور بجلی کے پولز تک میں گندی تھیلیاں پھنسی دکھائی دیتی ہیں۔ چھوٹی گلیاں ہوں، یا مرکزی شاہ راہیں، ہر طرف گٹر بہہ رہے ہیں، جن سے گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اِن گلیوں سے متعلق تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ؎ ’’ جس کو ہو’’ جان و صحت‘‘ عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟‘‘بلدیاتی اہل کار اگر کبھی بھولے بھٹکے مَرے مَرے ہاتھوں سے سڑکوں پر جھاڑو دیتے نظر آ بھی جائیں، تو کچرا کسی کونے میں جمع کر کے چلتے بنتے ہیں یا اگر زیادہ’’ ذمّے داری‘‘ کا مظاہرہ کریں، تو اُسے آگ لگا دیں گے۔ اِسی طرح، نالوں، نالیوں سے غلاظت نکال کر سڑک کنارے جمع کردینا معمول کی بات ہے،جو کئی کئی روز وہیں سڑتی رہتی ہے اور پھر دوبارہ اُن ہی نالوں کا حصّہ بن جاتی ہے۔ ان گندگی کے ڈھیروں نے’’ روشنیوں کے شہر‘‘ کے مجموعی امیج کو جو نقصان پہنچایا، وہ تو ایک طرف، مگر یہاں کے باسی بھی اس گند غلاظت کی وجہ سے ناقابلِ بیان اذیّت میں مبتلا ہیں، جس سے لاکھ احتجاج، مظاہروں، متعلقہ اداروں سے شکایات کے باوجود، اُن کی جان نہیں چُھوٹ رہی۔اب تو اچھے خاصے منہگے رہائشی علاقے بھی کچی آبادیوں جیسے نظر آنے لگے ہیں کہ وہاں اور غیر قانونی آبادیوں میں صفائی ستھرائی کی حالت ایک ہی جیسی ہو گئی ہے۔ اِس صُورتِ حال نے متوسّط طبقے کے افراد کو، جنھوں نے نہ جانے کتنی قربانیوں کے بعد اور کتنے ارمانوں سے مناسب علاقوں میں رہائش اختیار کی تھی، نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے، یہاں تک کہ وہ ان علاقوں سے نقل مکانی کا سوچنے لگے ہیں، مگر اب ہر کوئی تو ڈیفینس یا کلفٹن منتقل ہونے سے رہا۔

مسئلہ ہے کیا؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، شہر میں روزانہ12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ تاہم، شہری حلقوں کے خیال میں کچرے کی یومیہ مقدار کسی صُورت16 ہزار ٹن سے کم نہیں۔ اگر 12 ہزار ٹن ہی کو درست مان لیا جائے، تب بھی روزانہ اس کا محض نصف، یعنی چھے ہزار ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ باقی رہ جانے والا کچرا کہاں جاتا ہے؟ یہ کچرا سڑکوں، گلیوں، کچرا کنڈیوں اور خالی پلاٹس وغیرہ میں پڑا سڑتا رہتا ہے اور دوسرے دن وہاں مزید کچرے کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اٹھائے جانے والے کچرے کی ایک بڑی مقدار کچرے کے لیے مختص مقامات( لینڈ فل سائٹس) کی بجائے ندی، نالوں میں پھینک دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کچرا عملاً شہر ہی کا حصّہ رہتا ہے۔ یوں یہ کچرا اٹھانا، نہ اٹھانا برابر ہی ہے۔پھر یہ بھی کہ کئی علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر کچرا اُٹھایا ہی نہیں جاتا، جس سے پورا علاقہ کچرا کنڈی بنا رہتا ہے، البتہ جب کبھی کوئی’’ صفائی مہم‘‘ شروع ہوتی ہے، یا پھر وہاں کے باسی مارنے مرنے پر تُل جاتے ہیں، تو کچرے کے ڈھیروں کو جنگی بنیادوں پر اُٹھا لیا جاتا ہے، مگر کچھ دنوں بعد صورتِ حال پہلے ہی جیسی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح، کچرے کو سڑکوں، بازاروں اور حد تو یہ ہے کہ رہائشی علاقوں تک میں نذرِ آتش کرنا معمول کی بات ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے اٹھنے والا دھواں وہاں کے باسیوں کی صحت پر کیا قیامت ڈھائے گا۔

کچرا کون اٹھائے؟نظام میں کنفیوژن

کچرے کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ انتظامی نوعیت کا بھی ہے۔وہ یہ کہ کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کہاں سے کچرا اٹھانا اور اُسے ٹھکانے لگانا کس کی ذمّے داری ہے؟اس حوالے سے نظام میں بہت زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ایک طرف تو شہر میں بلدیاتی ادارے موجود ہیں، جن کی سربراہی میئر کے پاس ہے، دوسری طرف، پانچ کنٹونمنٹ، ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی، بندرگاہوں اور سِول ایوی ایشن کا اپنا اپنا نظام ہے اور وہ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ پھر’’ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ‘‘ بھی ہے، جو سندھ حکومت کی سرپرستی میں سرگرم ہے۔تاہم، کوئی ایسی کمانڈ یا چھتری نہیں، جس کے تحت ان اداروں کے کام کو منظّم اور ایک دوسرے سے مربوط کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارے باہمی تعاون کی بجائے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے میں مصروف ہیں، جس نے معاملے کو بے حد پیچیدہ کر دیا ہے۔

سندھ سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ

سندھ حکومت نے فروری 2014ء میں صوبائی اسمبلی سے ایک بل کی منظوری کے ذریعے’’ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ‘‘ قائم کیا، جس کا بنیادی مقصد کچرا اٹھانا اور اُسے ٹھکانے لگانا تھا، جب کہ اُسے کچرے کو منفعت بخش بنانے اور اُس سے بجلی بنانے جیسے اقدامات کا بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔یوں شہر میں صفائی ستھرائی کی ذمّے داری بلدیاتی اداروں سے لے کر وزیرِ اعلیٰ سندھ کے ماتحت کام کرنے والے اس ادارے کے حوالے کر دی گئی،جس سے بلدیاتی ادارے عملاً شہر کی صفائی کے معاملات سے الگ ہوگئے۔ضلع وسطی اور ضلع کورنگی کو چھوڑ کر باقی چار اضلاع سے کچرا اُٹھانا سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمّے داری ہے۔ اس نے کچرا اُٹھانے اور اُسے ٹھکانے لگانے کا کام ضلع شرقی اور ضلع جنوبی سے شروع کیا، بعدازاں ضلع ملیر اور ضلع غربی تک نیٹ ورک بڑھا دیا۔ اس ادارے نے کچرا اُٹھوانے کے لیے ایک چینی کمپنی سے معاہدہ کیا، مگر اُس کمپنی کی کارکردگی شروع ہی سے شدید تنقید کی زد میں رہی۔ گزشتہ دنوں برسات کے بعد جب کچرے کا مسئلہ زیادہ شدّت سے اُٹھا، تو بورڈ نے ناقص کارکردگی پر چینی کمپنی کا کانٹریکٹ منسوخ کرنے کا اعلان کردیا، مگر صُورتِ حال پر نظر رکھنے والوں نے اسے اپنی گردن بچانے کا حربہ قرار دیا کہ اگر کمپنی ٹھیک کام نہیں کر رہی تھی، تو سندھ حکومت اور اُس کے ماتحت کام کرنے والا بورڈ اتنے برسوں سے کس خوابِ غفلت میں تھا…؟؟

اُٹھایا جانے والا کچرا کہاں جاتا ہے…؟؟

شہر میں ملیر ندی، دھوبی گھاٹ، لیاری ایکسپریس وے(عیسیٰ نگری) سمیت 8 مقامات پر’’ گاربیج ٹرانسفر اسٹیشنز‘‘ ہیں، یعنی پہلے مرحلے میں گلی، محلّوں سے اٹھایا گیا کچراان مقامات پر لاکر ڈال دیا جاتا ہے، پھر اُس کچرے کو جام چاکرو اور گوند پاس پہنچایا جاتا ہے، جو’’ لینڈ فل سائٹس‘‘ کہلاتی ہیں۔ پانچ، پانچ سو ایکڑز پر مشتمل یہ دونوں جگہیں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ریلوے، کنٹونمنٹ بورڈز، سِول ایوی ایشن اتھارٹی، فشریز اور کے پی ٹی وغیرہ کا کچرا کہاں جاتا ہے؟ اس حوالے سے کم ہی بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی جانب سے ان اداروں کو لکھے گئے خطوط میں توجّہ دلائی گئی کہ اُن کے ہاں جمع ہونے والا کچرا دونوں لینڈ فِل سائٹس تک نہیں پہنچ رہا۔ دوسری بات یہ کہ جو کچرا’’ گاربیج ٹرانفسر اسٹیشنز‘‘ لایا جاتا ہے، وہ بھی کئی کئی روز وہیں پڑا رہتا ہے، جس سے وہاں کچرے کے پہاڑ بن جاتے ہیں۔ نیز، کئی علاقوں سے اُٹھایا جانے والا کچرا مختص مقامات کی بجائے ندی، نالوں میں پھینک کر جان چھڑا لی جاتی ہے، جس سے شہر کا سیوریج نظام بھی درہم برہم ہوگیا ہے۔ اسی طرح، کئی علاقوں میں جمع شدہ کچرے کو اُٹھانے کی زحمت کرنے کی بجائے اُسے وہیں نذرِ آتش کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔

کرپشن کا ناسور

شہرِ قائد میں صحت وصفائی کی ناقص صُورتِ حال کے پیچھے جہاں بد انتظامی کا ہاتھ ہے، وہیں کرپشن نے بھی نظام کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ایسا نہیں ہے کہ شہر میں خاکروب ناپید ہوچُکے ہیں، بلکہ بوگس بھرتیوں اور کام چوری نے معاملات زیادہ خراب کیے ہیں۔ اسی طرح، یہ تو ممکن ہے کہ کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیوں کی کمی ہو، لیکن جو گاڑیاں ہیں، وہ بھی ’’ پیداگری‘‘ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ شاید ان گاڑیوں کی اتنی قیمت نہیں، جتنے ان کی مرمّت کے نام پر پیسے اینٹھے جا چُکے ہیں۔ اگر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی بات کریں، تو اس کی نااہلی اور کرپشن تو بہت واضح ہو کر سامنے آچُکی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بینچ کے ایک فیصلے میں بھی چینی کمپنی کو کچرا اٹھانے کے لیے دیے گئے ٹھیکے کا ذکر کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حکومتِ سندھ، چینی کمپنی کو29 ڈالر فی مَن کچرا اٹھانے پر ادا کر رہی ہے، ایک ٹرک 12 سے 15 ٹن کچرا اُٹھاتا ہے، اس حساب سے ایک ٹرک کے 435 ڈالرز بنتے ہے اور یہ رقم پاکستانی کرنسی میں فی ٹرک46 ہزار روپے( اس وقت کے مطابق) سے زائد بنتی ہے۔‘‘پھر جس طرح کچرے کی لینڈفل سائٹس پر وزن کے حساب سے ادائی ہوتی ہے اور کچرے میں مٹّی ڈال کر اُس کا وزن بڑھایا جاتا ہے، اس حوالے سے میڈیا پر بہت سی کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں۔

کام کم، سیاست زیادہ

بدقسمتی سے کراچی میں صحت و صفائی کے مسائل ایک مدّت سے سیاست کا شکار ہیں اور ہر پارٹی اس’’ بہتی گنگا‘‘ میں ہاتھ دھو رہی ہے۔ چوں کہ صوبائی حکومت پیپلز پارٹی کی ہے، تو اس حوالے سے اُسے خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ماضی میں وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف حیدرآباد کے دورے پر آئے، تو کراچی کے کچرے کا ذکر کرنا نہ بھولے۔ ورکرز کنونشن سے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی سے حساب لیں، کیوں کہ حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور کراچی میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اسی طرح، شہباز شریف بھی متعدّد مواقع پر کچرے کے ایشو پر سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔

کچراگردی
وزیرِاعلیٰ سندھ، سیّد مراد
علی شاہ

تحریکِ انصاف کے چئیرمین، عمران خان اور اُن کی جماعت کے دیگر رہنما انتخابی مہم کے دَوران اس معاملے کو اُچھالتے رہے اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے بعد بھی اس جماعت کے رہنما پیپلز پارٹی کو کراچی سے کچرا نہ اُٹھانے پر مطعون کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نیز، سندھ اسمبلی میں بھی کچرے کی گونج سُنائی دیتی رہی اور اس معاملے پر وہاں کئی معرکے بھی انجام دئیے جا چُکے ہیں۔ اسی طرح، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی کچرے پر سیاست ہوتی رہتی ہے۔ 

کچراگردی
میئرکراچی، وسیم اختر

پچھلے دنوں کراچی سے پی ٹی آئی کے منتخب رُکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر، علی حیدر زیدی سندھ حکومت کو لتاڑتے ہوئے شہر کو دو ہفتوں میں کچرے سے صاف کرنے کے دعوے کے ساتھ میدان میں اُترے، تاہم، اُن کی’’ کلین کراچی مہم‘‘ کے دَوران صرف چند ایک نالوں وغیرہ ہی کی صفائی دیکھنے کو مِلی، جب کہ مجموعی طور پر شہر میں گندگی کی صورتِ حال جوں کی توں ہے۔ پھر ایک روز اچانک مئیر کراچی، وسیم اختر نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ اور سابق سٹی ناظم، مصطفیٰ کمال کو ڈائریکٹر گاربیج مقرّر کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال نے یہ ذمّے داری قبول بھی کرلی ،مگر مئیر نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے محض 18 گھنٹے بعد ہی اپنا حکم نامہ واپس لے لیا۔

مسائل اور وسائل

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر کو صاف ستھرا رکھنا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے انتظامی معاملات کی درستی اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ساتھ بڑے فنڈز کی بھی ضرورت ہے تاکہ جدید مشینریز اور عملے کا انتظام ہو سکے۔ مئیر کراچی، وسیم اختر کئی بار کہہ چُکے ہیں کہ وہ 35 ڈمپرز اور دو ٹرکوں کے ذریعے کراچی کا کچرا نہیں اُٹھا سکتے۔پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ُان ڈمپرز میں سے بھی بیش تر ڈیزل کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے رہتے ہیں۔دوسری طرف، سندھ حکومت بھی وسائل کی کمی کا رونا روتی رہتی ہے اور وہ اس کا ذمّے دار وفاقی حکومت کو ٹھہراتی ہے، جو اس کے بہ قول سندھ حکومت کو اس کے حق سے محروم رکھ رہی ہے۔ تاہم، عام طور پر شہریوں کا یہی خیال ہے کہ مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں، نیّتوں کی خرابی کا ہے۔ اگر یہ تمام ادارے آپس میں لڑنے مرنے اور ایک دوسرے کے خلاف سیاست کرنے کی بجائے مسائل حل کرنے پر متفّق ہوجائیں، تو چند ہفتوں میں شہر کی حالت بدل سکتی ہے۔

زندگی کی خطرات کی لپیٹ میں

گزشتہ کئی برسوں سے کراچی کے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے یہاں گرمی کی شدّت بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس صورتِ حال کا ایک بڑا سبب صنعتوں سے گرم ہوائوں کا اخراج اور کچرا جلانے کا عمل بھی ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں نہ صرف بلدیاتی عملہ ،بلکہ خود شہری بھی کچرا کہیں دُور پھینکنے کی بجائے اُسے جلانے کو ترجیح دیتے ہیں، جو درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ کچرے کی بہتات کے سبب شہر میں دمے سمیت سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مستقلاً اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر بچّے اس صُورتِ حال سے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

عدلیہ کا فعال کردار

بلاشبہ عدالتِ عظمیٰ نے کراچی کے شہریوں کو کچرے سے نجات دِلانے کے لیے خاصا فعال کردار ادا کیا ہے، تاہم، بیورو کریسی اپنے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے عدالتی احکامات کو غیر مؤثر کرتی چلی آرہی ہے۔ اس ضمن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں، جنھوں نے کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کے دَوران گندگی اور صفائی کی ناقص صورت حال کا سخت نوٹس لیا۔ میئر ، وسیم اختر عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی بے بسی ہی کا رونا روتے رہے۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ شہر کا بُرا حال ہے، نالے بند ہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، کتّوں کی بھرمار ہے، مگر سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں، بلدیہ عظمیٰ بے بس ہے اور اُس کے پاس فنڈزبھی نہیں۔‘‘ ایک سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ’’ شہر سے روزانہ 5ہزار ٹن کچرا نہیں اُٹھایا جا رہا اور ایسی سڑکیں بھی ہیں، جن پر چھے چھے ماہ سے جھاڑو تک نہیں لگی۔‘‘سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو کراچی کی صفائی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی، مگر شہر سے کئی ماہ گزرنے کے باوجود کچرا نہیں اُٹھایا جاسکا۔

کچرا کسی کی روزی بھی ہے!!

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہزاروں افراد کی کچرے سے روزی روٹی بھی وابستہ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ منشیّات کے عادی افراد کچرے سے کام کی چیزیں تلاش کرکے اپنے نشے پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور وہیں سے کھانا بھی ڈھونڈتے ہیں۔ اِسی طرح اور بھی بہت سے لوگ کچرا چُنتے پِھرتے ہیں، جس سے اُن کے گھر کا چولھا جلتا ہے۔ نیز، کچرے کے لیے مختص مقامات پر بھی روزانہ سیکڑوں افراد، جن میں خواتین اور بچّے بھی شامل ہیں، کارآمد چیزیں ڈھونڈتے پِھرتے ہیں اور پھر اُنھیں قریب بیٹھے دُکان داروں ہی کو فروخت کر دیتے ہیں۔ تاہم، کراچی میں افغان مہاجرین نے اِسے ایک بڑے کاروبار کی شکل دے دی ہے۔ اس ضمن میں وسیم اختر سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی سے کچرا نہ اُٹھائے جانے کے پیچھے ایک بڑی مافیا کا بھی ہاتھ ہے، جو اس سے کروڑوں روپے کماتی ہے۔ یہ مافیا، اس قدر بااثر ہے کہ کچرا لینڈ فل سائٹس تک پہنچنے ہی نہیں دیتی۔

6 ماہ کی جیل یاترا

شاید بہت سے لوگوں کو علم نہ ہو کہ سندھ میں رہائشی، صنعتی علاقوں اور خالی جگہوں پر کچرا پھینکنا قانونی طور پر جرم ہے، جس کی سزا ایک سے 6 ماہ تک قید ہوسکتی ہے۔ محکمۂ داخلہ نے جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں قائم جوڈیشل واٹر کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں یہ حکم جاری کیا تھا۔ کمیشن نے گھریلو، صنعتی، تعمیراتی اور اسپتالوں کا فُضلہ رہائشی علاقوں میں پھینکنے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ کچرا جلانے سے کئی ماحولیاتی اور صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ محکمۂ داخلہ کی جانب سے تمام تھانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف دفعہ 188 کے تحت مقدمات درج کریں۔تاہم، اس قانون پر رسمی طور پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا۔ شہری کچرے سے بھری تھلیاں حسبِ معمول مَن چاہی جگہوں پر اُچھالتے نظر آتے ہیں، تو صنعتی اور اسپتالوں کا فضلہ بھی قانون کا منہ چڑا رہا ہے، جسے رات کے اندھیرے میں نہیں، سب کے سامنے جلایا بھی جاتا ہے۔

کچرے سے بجلی

نیپرا نے گزشتہ برس جولائی میں مُلکی تاریخ میں پہلی بار چینی کمپنی’’ژی ژونگ ری نیوایبل انرجی کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ کو لاہور میں کچرے سے بجلی بنانے کے لیے پلانٹ لگانے کا لائسینس دیا، جس کے تحت ابتدائی طور پر40 میگا واٹ بجلی بنائی جانی تھی اور اس مقصد کے لیے کمپنی کو لاہور سے یومیہ دو ہزار ٹن کچرا اٹھانا تھا۔ نیپرا کی جانب سے کچرے سے بجلی بنانے والے پلانٹس کےلیے10 روپے فی یونٹ ٹیرف بھی جاری کیا گیا، جو 25 سال کے لیے ہے۔نیز، سٹی گورنمنٹ، کراچی اور ملائیشین کمپنی،’’ اباسین انٹرنیشنل‘‘ کے درمیان کچرے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگانے کے لیے 25 سالہ معاہدے کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں۔ معاہدے کے تحت کمپنی کو130 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے پلانٹ لگانا تھا، جس کے لیے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے 25 ایکڑ زمین اور یومیہ ایک ہزار ٹن کچرا مہیا کرنے کی ذمّے داری لی۔تاہم، یہ منصوبے ابھی تک اعلانات ہی تک محدود ہیں اور ان پر کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اِسی طرح، حکومت ِسندھ بھی کراچی کے کچرے سے 50 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، اس ضمن میں رواں برس اپریل میں صوبائی وزیرِ توانائی، امتیاز احمد شیخ کی سربراہی میں منعقدہ ایک اجلاس میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا باقی دنیا میں بھی کچرے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق، سویڈن96 فی صد کچرے سے بجلی بنا رہا ہے، بلکہ وہاں تو کچرا کم پڑ گیا ہے اور اب ناروے سے کچرا منگوایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ایک ٹن کوڑے سے 2 میگاواٹ بجلی اور 83 لیٹر ایتھنول فیول پیدا ہوتا ہے۔

کچرے سے فائدہ کون اُٹھائے؟؟

دنیا بھر میں کچرے کو کچرا سمجھ کر ضائع نہیں کیا جاتا، بلکہ اس سے کارآمد اشیاء الگ کرکے اُن سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ بھارت کی ریاست، منی پور کے باپ، بیٹا تو ذاتی حیثیت میں کچرے کو ری سائیکل کرکے کروڑ پتی بن چُکے ہیں۔کراچی سے یومیہ سیکڑوں ٹن کچرا اُٹھایا جاتا ہے، جس سے نجی طور پر بہت سے افراد مالی فوائد اُٹھا رہے ہیں، لیکن حکومتی ادارے اس معاملے میں بھی سنگین کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمّے داریوں میں کچرے کو ری سائیکل کرنا بھی شامل ہے، مگر اُس نے اِس حوالے سے ابھی تک کوئی قدم نہیں اُٹھایا، جس سے اُس کی اہلیت اور دِل چسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر، اے ڈی سجنانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ’’ لینڈ فِل سائٹس پر کنویئر بیلٹ لگائے جائیں گے، جس کے ذریعے کاغذ، گتّا، پلاسٹک اور دھات حاصل کی جائے گی۔‘‘ تاہم، اُنھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کام کب ہوگا۔

عوام بھی کم ذمّے دار نہیں

بلدیہ، سندھ حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے شہر سے کچرا نہیں اُٹھا سکے، اِس پر اُنھیں خُوب کوسیے، لتاڑیے، دِل کی بھڑاس نکالیے، مگر ایک لمحے کے لیے کچرے سے بَھری اُس تھیلی کو بھی یاد کیجیے، جو آپ نے کچھ دیر قبل سڑک پر پھینکی ہے، حالاں کہ کچرا کُنڈی قریب ہی ہے اور آپ اُس تھیلی کو اُس کچرادان میں بھی ڈال سکتے تھے، جو گلی کے نکڑ پر ہے، جسے کبھی کبھار ہی سہی، اہل کار خالی بھی کرتے ہیں۔بس آپ سے اِتنا ہی کہنا تھا، باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

کیا ہونا چاہیے…؟؟

٭حکومتِ سندھ دِل بڑا کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل کرے۔ خاص طور پر اُنھیں صفائی ستھرائی کے معاملات میں کم از کم اتنے اختیارات تو دیے جائیں، جو بلدیاتی اداروں کو مشرّف دَور میں حاصل تھے۔ ٭ بلدیاتی اداروں میں صفائی کے لیے بھرتی افراد کی چھان بین کی جائے تاکہ بوگس اور کام کے بغیر تن خواہ لینے والوں کا سدّ ِ باب ہو سکے۔٭کراچی میں قائم کنٹونمنٹس، بندرگاہوں، سِول ایوی ایشن وغیرہ، سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور بلدیہ کے درمیان رابطوں کے لیے اتھارٹی قائم ہونی چاہیے۔٭گندگی پھیلانے والوں کو کڑی سزا دینے کے لیے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے٭کراچی کے شہریوں نے پی ٹی آئی کو بھاری مینڈیٹ دیا تھا، سو، وفاقی حکومت محض 18 ویں ترمیم کی آڑ لے کر خود کو اس اہم شہری معاملے سے الگ تھلگ نہ رکھے، بلکہ وہ ایک سرگرم کردار ادا کرے۔ اس ضمن میں وفاقی وزراء کی جانب سے چلائی جانے والی مہمّات اچھی ہیں، مگر وفاق کو کچھ اور بھی کرنا ہوگا۔

تازہ ترین