• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ 23؍مارچ 2016ء کو یوم پاکستان پر اسلام آباد میں منعقدہ عسکری قوت کا پروقار مظاہرہ اور صدر مملکت ممنون حسین کا پروقار خطاب دونوں ہی اس عزمِ عالی شان کی روح کے مظہر تھے جو پہلے برصغیر کے مسلمانوں کے نئی مملکت قائم کرنے کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ بنی اور بعدازاں جس کے ذریعے نئی ریاست کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا گیا۔ یہی نہیں، واہگہ بارڈر پر رینجرز کی پرچم کشائی کے ولولہ انگیز مناظر، صوبائی دارالحکومتوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منعقد ہونے والی تقریبات بالخصوص شمالی وزیرستان کے شہر رزمک، بلوچستان میں زیارت ریذیڈنسی پر پرچم کشائی اور صوبے کے بیشتر شہروں میں دفاعی سامان کی نمائش سمیت پریڈز، آتش بازی اور عوامی جوش و خروش کی صورت میں پوری دنیا نے پاکستانی قوم کے اس پیغام کی گونج محسوس کی کہ مملکتِ خداداد ناقابل تسخیر ہے اور ناقابل تسخیر رہے گی۔ پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے اس ریاست پر باہر سے مسلط کی گئی جارحیتوں کی ناکامی کے بعد اندر داخل کئے گئے ایجنٹوں کی دہشت گردی کے ذریعے اس ملک کو مفلوج کرنے کا حربہ بھی ناکام بنایا جا چکا ہے اور وطن عزیز دہشت گردی کی ہر صورت کی باقیات مٹا دینے کے عزمِ نو کے ساتھ ایک مستحکم اور خوشحال فلاحی مملکت کے ان خوابوں کو تعبیر دینے کی منزلوں کی طرف بڑھ رہا ہے جو اس قوم نے جدوجہد آزادی کے دوران دیکھے تھے اور جن کے رہنما خطوط علامہ اقبالؒ کے افکار و اشعار اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی تقریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ صدر ممنون حسین نے، جو پریڈ ایونیو میں منعقدہ ملک کی سب سے بڑی پریڈ کے مہمان خصوصی تھے، اپنے خطاب میں پاکستانی قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں ، دفاع وطن کے لئے کئے جانے والے اقدامات،جوہری صلاحیت، پڑوسی ملکوں سے تعلقات، مسئلہ کشمیرپر پاکستان کے موقف اور مستقبل کے وژن سمیت اہم موضوعات کا احاطہ کیا۔ یہ تقریر جس موقع پر کی گئی اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ دنیا کو پاکستان کی عسکری صلاحیت اور عوامی جذبات سے آگاہ کرنے کے علاوہ یہ پیغام بھی دیا جائے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو اپنے ہمسایوں سمیت پوری عالمی برادری سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے مگر اس کی امن پسندی کو اس کی کمزوری سمجھنے کی غلطی نہیں کی جانی چاہئے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر فوجی دستوں کا معائنہ کیا، ایئرفورس کا فلائی پاسٹ دیکھا اور مسلح افواج، فرنٹیئر کور، رینجرز، پولیس، بوائے اسکائوٹس، گرلز گائیڈ کے دستوں کے شاندار مارچ پاسٹ کے مشاہدے کے علاوہ ان سے سلامی بھی لی۔ اس پروقار تقریب میں الخالد ٹینک اور میزائل دستے سلامی دیتے ہوئے گزرے۔ فلائی پاسٹ میں شامل پاک آرمی اور فضائیہ کے ایوی ایشن ونگ کے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ چینی ساختہ زیڈ 10فائٹرز ایچ ایچ ون کوبرا، پوم اور ایم آئی 17ہیلی کاپٹرز شامل تھے۔ شیر دل فارمیشن نے حسب روایت فضائی کرتب دکھائے۔ ایف سولہ اور جے ایف 17تھنڈر طیاروں نے فضا میں مہارت کا مظاہرہ کیا اور تینوں مسلح افواج کے کمانڈرز نے قومی پرچم تھامے 10ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاکر اپنی صلاحیت و مہارت کی جھلک دکھائی۔ اس موقع پر تقریب میں غیر ملکی سفارتکار بھی موجود تھے جنہوں نے ثقافت کے مختلف رنگوں کے نظارےکے ساتھ فوجی آلات کی نمائش بھی پوری توجہ سے دیکھی۔ بیلسٹک میزائل شاہین تھری کی موجودگی سفارتی نمائندوں اور سیاسی و فوجی مبصرین سمیت سب ہی شرکاء نے خاص طور پر محسوس کی۔ یہ میزائل پہلی بار نمائش کے لئے پیش کیا گیا اور بعض حلقوں کے خیال میں یہ پاکستان کو بار بار جنگ کی دھمکی دینے والوں کے لئے پیغام تھا کہ ان کے تمام علاقے اور فوجی ٹھکانے اس میزائل کی رینج میں ہیں۔ میزائل دستوں میں غزنوی، ابدالی نصر میزائل اور کروز میزائل ’’بابر‘‘ نمایاں تھے۔ ڈرون طیاروں اور فوجی انجینئرنگ آلات کی بھی نمائش کی گئی جو جدید دفاعی ضروریات کا اہم حصہ ہیں۔ صدر ممنون حسین نے اپنے خطاب میں اس نکتے کو نمایاں کیا کہ ہمارے ہتھیار ہمارے دفاع اور سلامتی کی ضرورت کا حصہ ہیں۔ ہم نے ہتھیاروں کی دوڑ میں کبھی حصہ نہیں لیا اور نہ ہی ایسا کریں گے مگر مادر وطن کےدفاع کے لئے کسی قربانی سے گریز بھی نہیں کریں گے۔ جیسا کہ صدر نے واضح کیا، پاکستان نے ایٹمی قوت بننے کے ساتھ روایتی ہتھیاروں میں خودکفالت حاصل کرکے خطے میں طاقت کا توازن قائم کر دیا ہے۔ انہوں نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تنازع کشمیر کے فریق کی حیثیت سے کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی، سفارتی حمایت جاری رکھنا پاکستان کی ذمہ داری ہے جیسا کہ صدر نے کہا، پاکستان مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا خواہاں ہے کیونکہ پورے خطے کا امن ہی نہیں بہت سے وسائل بھی اس تنازع کے یرغمالی ہیں۔ انہوں نے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو درپیش مسائل کی جڑ سماجی ناانصافی اور اقربا پروری جیسی بیماریوں کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان خرابیوں کے خاتمے کے لئے فروغ تعلیم، تحقیق اور انصاف یقینی بنانے کے ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے تاکہ نئی نسل کو جدید تقاضوں پر پورا اترنے کیلئے تیار کیا جاسکے اور ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے جاسکیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ انصاف، تعلیم اور میرٹ کے ذریعے ہی کسی معاشرے میں وسائل اور مواقع کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ فلاحی مملکت کے خواب کو تعبیر آشنا کرنے کیلئے اس سمت میں تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کے بعض اقدامات کے نتیجے میں پاکستان مسائل کی اس دلدل سے نکل رہا ہے جسمیں وہ دراندازوں کے ذریعے مسلط کردہ غیر اعلانیہ جنگ اور ماضی کی بے تدبیریوں کے باعث پھنس چکا تھا۔ معیشت میں بہتری کے اشاریے نمایاں ہیں۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور صنعتی و زرعی پیداوار میں اضافے کی کوششیں بھی جاری ہیں مگر غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد اب بھی تشویشناک ہے۔ ان حالات میں ایسے اقدامات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے جن کے ذریعے امیروں سے ٹیکس کی وصولی یقینی بنائی جاسکے اور غریبوں کی بہبود کے کاموں پر زیادہ توجہ دی جاسکے۔


کھاد کی قیمت کم کی جائے
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زراعت اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے لیکن جدید سہولتوں سے محرومی کے باعث کاشتکار اور وسیع زرعی زمینیں دونوں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کو سہولتیں دی جائیں۔ انہیں جدید آلات کشاورزی سستے داموں مہیا کئے جائیں کاشتکاری کے نئے طریقے سکھائے جائیں اور جہاں ممکن ہو منی ڈیم بنا کر پانی کی کمی کو پورا کیا جائے تو صرف پوٹھوہار کا علاقہ پورے پاکستان کی زرعی ضروریات پوری کرسکتا ہے لیکن مناسب توجہ سے محرومی کے باعث زراعت مجموعی قومی پیداوار میں اپنے حصے کا کردار مکمل نہیں کر پارہی۔فی الوقت جو مسئلہ حکومت کی اوّلین ترجیح کا مستحق ہے وہ یوریا کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے جو بین الاقوامی منڈی کے مقابلے میں دو سو ر وپے زیادہ ہوگئی ہے۔ زراعت سے وابستہ تنظیموں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ مہنگی ہونے کی وجہ سے کھاد کے استعمال میں کمی ہورہی ہے۔ بڑے زمیندار تو فصلوں کا ٹھیکہ غریب کاشتکاروں کو دے کر پیداواری عمل سے بڑی حد تک لا تعلق ہوجاتے ہیںلیکن جن لوگوں کا ذریعہ معاش ہی کشاورزی ہے، ان میں اتنی سکت نہیں کہ مہنگی کھاد خرید سکیں، 2011 ءتک کے مقابلے میں اب زرعی ٹیکسوں کی شرح بھی دو گنا ہوگئی ہے اور کھاد کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملکی فرٹیلائزر کمپنیاں کچھ زیادہ منافع کی خاطر اور کچھ اس وجہ سے کہ انہیں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے دگنی قیمت پر گیس بیچی جارہی ہے کھاد کی قیمت کم کرنے پر تیار نہیں۔ اس صورت حال کا نوٹس قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے بھی حالیہ اجلاس میں لیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ یوریاسیکٹر قیمت بڑھا کر 30 ارب روپے کا غیر قانونی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس صورت حال کا تدارک کرے اور سیلز ٹیکس اور جی آئی ڈی سی گھٹا کر کھاد کی قیمت کم کرے تاکہ کسانوں کو ریلیف ملے اور زرعی پیداوار بڑھے۔
MS: #JEC (space) message & send to 8001
تازہ ترین