• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) والے غلطیاں کرتے ہیں لیکن کچھ (کام) کرتے ضرور ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کچھ کر کے دینے کو تیار نہیں ہے اور تحریک انصاف والے بڑی ایمانداری سے کام کریں گے مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ یہ ہے خلاصہ عوامی رائے کا پاکستان کے مرکزی دھارے کی پارٹیوں کے بارے میں۔ قطع نظر اس کے کہ یہ تاثر کس حد تک درست یا ناقص ہے بظاہر اگلے الیکشن میں اسی تاثر کے تحت ووٹ ڈالے جائیں گے اور پارٹیاں ہاریں یا جیتیں گی۔ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں جیتنے اور ہارنے والوں کے بارے میں سیاسی پنڈت رنگارنگ پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ ان میں اکثر پیشگوئیاں ماضی کے اعداد و شمار اور شخصیات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ ظاہر پرست انداز نظر جس کے تحت عام طور پر غلط نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس محدود طریق کار میں شخصیات کے ماضی کی ہار جیت کو ہی معیار بنایا جاتا ہے اور تاریخی دھاروں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ہوا کی مانند ہے جو ہر جگہ موجود ہوتی ہے، جو کبھی کبھی خراماں خراماں چلتی ہے اور کبھی آندھیوں، طوفانوں اور بگولوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
1970ء کے طوفانی دور کے انتخابات میں عوام کی اکژیت نے ترقی پسند پارٹیوں کو ووٹ دے کر ملکی نظام کو بدلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔کراچی شہر میں زیادہ تر روایتی مذہبی پارٹیاں جیتیں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بھی مذہبی پارٹیوں کی قابل قدر نمائندگی سامنے آئی۔ ترقی پسند رجحانات کی رہنما پیپلز پارٹی کو اکثریت وسطی پنجاب اور سندھ سے حاصل ہوئی ۔ پیپلز پارٹی نے کسی حد تک پنجاب میں عوامی توقعات کے مطابق عمل کیا لیکن سندھ میں سندھی زبان کو نئی زندگی دے کر سندھیوں کی طویل مدت کیلئے ہمدردیاں جیت لیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے ہی ایجنڈے کے خلاف رجعت پرست رجحانات کو بھی جنم دیا جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ریاست کے اداروں میں فوج ہی مضبوط تھی، عدلیہ اور سیاسی ادارے کافی ناتواں تھے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو حد سے بڑھ کر مصلحت کوشی اختیار کرنا پڑی۔
اب حالات مختلف ہیں کیونکہ عدلیہ اور سیاسی ادارے بالغ اور مضبوط ہو چکے ہیں۔ اب ریاست کے بڑے ادارے مسابقت کی حالت میں ہیں جس میں فوج اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے کوشاں ہے تو عدلیہ اور سیاسی ادارے اپنے اثر کو وسیع تر کرتے ہوئے ریاستی فیصلوں میں اپنا حصہ بڑھانے کیلئے تگ دو کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اپنے پانچ سال اس لئے بھی پورے کر رہی ہے کہ کسی ایک ادارے کے پاس قوت مطلق نہیں تھی ۔ عدلیہ اور سیاسی ادارے بھی توانا تھے اور فوج کی روایتی برتری کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ نہ تو عدلیہ فوج کو ریاست کا مطلق العنان حاکم ماننے کو تیار تھی اور نہ ہی بڑی سیاسی پارٹیاں اس کے ساتھ ساز باز کرنا چاہتی تھیں۔ اس پہلو سے موجودہ دور ستّر کی دہائی سے مشرف دور تک کے نظام سے بہت ہی مختلف ہے۔ یہ بہت بنیادی تاریخی تبدیلی ہے جس کے نتائج دوررس ہوں گے۔
ستّر کی دہائی کے بعد کچھ اور بنیادی اور تاریخی تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ وسطی پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی جگہ لے چکی ہے۔کراچی میں ایم کیو ایم مذہبی جماعتوں کی عقیدت پرستانہ سیاست کو گروہی مفادات کی سیاست میں بدل چکی ہے۔ وسطی پنجاب میں سیاسی تبدیلی اپنی گنجان آبادی ، معاشی پیداوار اور طاقتور اداروں میں نمائندگی کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ اسی طرح کراچی میں لسانی گروہی سیا ست کے غلبے کی وجہ سے سندھ میں طاقت کا توازن اور مستقبل کی سمت کافی تبدیل ہو چکی ہے۔اگر بغور دیکھا جائے تو وسطی پنجاب کی حد تک سیاسی کامیابی کا انحصار حکومتی کارکردگی اور جمہوری اقدار کی پاسبانی پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب میں اپنی بہتر کارکردگی اور آزاد عدلیہ کی غیر مشروط حمایت کی بنا پر پیپلز پارٹی کی جگہ لے پائی ہے۔اس علاقے میں پیپلز پارٹی کی نصابی اور مجرد ترقی پسندی غیر موثرہو چکی ہے۔ ناقدین یہ نکتہ بھی جائز طور پر اٹھا سکتے ہیں کہ اپنے آخری دور کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ پارٹی تھی اور اس کی ہر طرح سے مدد کی جاتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کی ترقی میں اسٹیبلشمنٹ اتنی اہم نظر نہیں آتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ وسطی پنجاب کی بجائے پورے ملک میں پیپلز پارٹی کی جگہ لے چکی ہوتی۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وسطی پنجاب میں شاونزم کے ابھار کی وجہ سے لاہور کے شریف برادران مقبول ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی ”پگ“ کا نعرہ نہ کبھی مقبول تھا اور نہ ہے۔ ہمارے خیال میں تبدیلی کی بنیادی وجہ معاشی اور سماجی تبدیلیاں ہیں۔
بہت سے پہلوؤں سے وسطی پنجاب پاکستان کا زیادہ ترقی یافتہ شعور کا حامل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اپنے آغاز میں اسی علاقے کی بنیاد پرحکومت بنانے کے قابل ہوئی تھی۔ اس علاقے میں درمیانے طبقے کا غلبہ ہے جو کہ معاشی اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لئے زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ چونکہ اس علاقے میں روایتی جاگیردارانہ اثرات بہت کم ہیں اس لئے سیاسی تبدیلیاں آسانی سے روپذیر ہوتی ہیں۔ پنجاب میں سیاسی تبدیلیوں کی بہت ہی بنیادی وجہ معاشی ڈھانچے کی ہیئت کی تبدیلی ہے۔روایتی زرعی نظام کی جگہ مشینی پیداوار اور کاروباری کلچر کے فروغ کی وجہ سے امیر اور غریب میں فرق بڑھنے کے باوجود عوام کا معیار زندگی بہت بہتر ہوا ہے یعنی عوام کو نیم سرمایہ داری طبقاتی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنے حالات بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے یہاں نظام برطانیہ کی طرح ارتقائی منازل سے گزر کر بہتر ہوتا جائے گا اور یہاں فرانس یا جرمنی جیسے انقلابات نہیں آئیں گے جہاں عوام کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں تھیں۔ اسی لئے سیاسی انتخاب کا معیار حکومتی کارکردگی بن چکا ہے جس سے مسلم لیگ (ن) جیسی معتدل مزاج پارٹی فیضیاب ہوئی ہے۔
وسطی پنجاب کی معیشت میں جو تبدیلیاں ستّر کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی تھیں اب سارا ملک ان کی لپیٹ میں ہے۔ اب بلوچ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ مشینی پیداوار اور کاروباری کلچر اپنی جڑیں گہری کر چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں مسلم لیگ (ن) جیسی پارٹیاں جو حکومتی کارکردگی دکھا سکتی ہیں بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اب مجرد ، نصابی جمہوریت ، عقیدت پسندی اور روایتی ہمدردیاں کافی نہیں ہیں۔ اس لئے پیپلز پارٹی اور دیگر ایسی پارٹیوں کا زوال ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سندھ یا خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس مرحلے پر پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کو بری کارکردگی کی وجہ سے بہت نقصان ہو گا۔ ان کی جگہ آخرکار مسلم لیگ (ن) جیسی (ضروری نہیں ان پارٹیوں کا یہی نام ہو) پارٹیاں اقتدار میں آئیں گی۔ یہ تبدیلی ارتقائی ہوگی جس میں وقتاً فوقتاً عمران خان اور طاہر القادری جیسے وقتی بگولے اٹھتے رہیں گے لیکن وہ طویل المیعاد تاریخی عمل کو زیادہ متاثر نہیں کر سکیں گے۔
المختصر پاکستان کے بیشتر علاقوں میں وسطی پنجاب جیسی سیاست جڑیں پھیلاتی جائے گی اور سیاسی معیار میں بنیادی تبدیلیاں آئیں گی۔ اس لئے ممکن ہے کہ ہمارے سیاسی پنڈتوں کی ظاہر پرستانہ اور شخصیات کی بنیاد پر کی گئی پیشگوئیاں ستّر کے الیکشن کی طرح غلط ہوں کیونکہ اس میں بھی ایسی ہستیوں کی ضمانتیں ضبط ہوئی تھیں جو انگریز کے دور سے کبھی ہارے نہیں تھے، آنے والے الیکشنوں میں اس طرح کے امکانات کسی حد تک موجود ہیں۔
تازہ ترین