• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانس اور جرمنی آج دوستی کے لازوال بندھن میں بندھے ہیں مگر یہ حقیقت بہت کم لوگوں پر عیاں ہے کہ ماضی میں ان ممالک کے درمیان کئی سو سال تک دشمنی کے نتیجے میں 3 بڑی جنگیں لڑی گئیں، 1940ء میں جرمنی فرانس میں داخل ہوا اور 4 سال تک اس پر قابض رہا۔ بعد میں جون 1944ء میں اتحادی افواج کے Normandy کے مقام پر اترنے اور گھمسان کی جنگ کے بعد جرمنی کو شدید جانی نقصانات کے باعث فرانس چھوڑنا پڑا ۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر دونوں ممالک نے یہ فیصلہ کیا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں اور اس طرح جرمنی اور فرانس نے ایک نئی یورپی سوچ کو جنم دیتے ہوئے آپس میں دوستی اور تعاون کے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کئے جو دونوں ہمسایہ ریاستوں کے مابین موجودہ مثالی تعلقات کی بنیاد بنا اور جدید یورپ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ ”الیزے ٹریٹی“ (Elysee Treaty)کے نام سے مشہور اس معاہدے پر50 سال قبل 22 جنوری 1963ء کو وفاقی جمہوریہ جرمنی کے پہلے چانسلر کونر اڈا اڈے ناؤر اور فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال نے دستخط کئے جس کے نتیجے میں صدیوں سے جاری دونوں ممالک کے درمیان تنازعات اور رقابت کا خاتمہ ہوا اور یورپی ریاستوں میں ایک ترقی یافتہ اور متحدہ خاندان کا وجود عمل میں آیاجس کے بعد وہ سب کچھ ممکن ہوا جو 5 عشرے قبل محض خواب تھا۔
الیزے ٹریٹی فرانس اور جرمنی کے درمیان تعاون کیلئے سنگ میل رہا ہے جو یورپی اتحاد کا مرکزی انجن ہے۔گزشتہ دنوں اس تاریخی معاہدے کی50 ویں سالگرہ دونوں ممالک میں جوش و خروش سے منائی گئی۔ اس تاریخی دن کو منانے کیلئے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند اپنی کابینہ اور پارلیمینٹ کے ارکان کے ہمراہ جرمنی کے دارالحکومت برلن تشریف لائے اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے ملاقات کے بعد وفد کے ارکان کے ہمراہ مذاکرات کئے۔ اس دن کی خاص بات جرمنی اور فرانسیسی قومی اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس تھا جس سے دونوں ممالک کے سربراہان نے خطاب کیا اور کہا کہ ”ہم وہ ہیں جنہیں دنیا کو دکھانا ہے کہ راستہ کدھر کو جاتا ہے اور جرمنی اور فرانس نے متحدہ یورپ کے مستقبل کو اعتماد فراہم کرنا ہے“۔ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے پوری دنیا میں قائم دونوں ممالک کے سفارتخانوں نے بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا۔ کراچی میں بھی فرانس اور جرمنی کے قونصل جنرلز نے ایک مشترکہ تقریب کا انعقاد کیا۔ جرمن قونصلیٹ میں منعقدہ اس پُروقار تقریب میں، میں بھی مدعو تھا جہاں دونوں ممالک کے سفارت کاروں اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریب کے مقام کو فرانس اور جرمنی کے جھنڈوں سے بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
تقریب کا آغاز دونوں ممالک کے قومی ترانے بجاکر کیا گیا جس کے بعد جرمن قونصل جنرل ٹیلو کلینر(Tilo Klinner) اور فرانسیسی قونصل جنرل کرسٹن ریماج (Christian Ramage) نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”اگرچہ فرانس اور جرمنی کے لیڈروں کو 1963ء کے ”الیزے ٹریٹی“ کے معاہدے پر کچھ تحفظات تھے تاہم 50 سالوں میں یہ معاہدہ گہری اور متاثر کن دوستی کی بنیاد بن گیا ہے جس کے نتیجے میں ہماری باہمی دشمنی دوستی اور بھائی چارے میں بدل گئی ہیں،بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ آج کل دونوں ممالک کے افراد دونوں ملکوں کی خارجہ وزارتوں میں کام کررہے ہیں، جرمن کمپنیاں 3 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فرانس میں اور فرانسیسی کمپنیاں 2 لاکھ 85 ہزار لوگوں کو جرمنی میں روزگار فراہم کررہی ہیں۔ فرنچ جرمن یوتھ آفس کے ذریعے اب تک 80 لاکھ سے زائد طلبہ فرانس اور جرمنی میں تبادلوں کے پروگرام میں حصہ لے چکے ہیں۔ دفاعی شعبے میں باہمی تعاون کے سلسلے میں 1989ء میں جرمنی اور فرانس کی مشترکہ بریگیڈ تشکیل دی گئی جس میں 2800 جرمن اور 2300 فرانسیسی فوجی شامل ہیں۔ یہ بریگیڈ سیکورٹی اور دفاع کے قریبی تعاون کی ایک اچھی مثال پیش کرتی ہے۔ دونوں ممالک یورپی اتحاد کا33 فیصد ہیں، بجٹ میں ان کی نمائندگی 36 فیصد جبکہ جی ڈی پی میں ان کا حصہ 37 فیصد ہے۔ سیاحت کی غرض سے دونوں ممالک کے باشندے بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے ممالک کا رخ کرتے ہیں جبکہ ہر سال 5 ہزار سے زائد جرمن اور فرانسیسی لڑکے لڑکیاں آپس میں شادیاں کررہے ہیں۔ تاریخی کامیابیوں میں یورپی یونین کا قیام، یورپی مشترکہ کرنسی اور شینگن معاہدے میں شامل ممالک کے درمیان داخلی سرحدوں کا خاتمہ محض چند ایک مثالیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پڑوسیوں کے ساتھ مستقل امن قائم کرنے اور تعاون کیلئے تخلیقی صلاحیت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے، یہ عمل نہ تو آسان ہے اور نہ ہی سیدھا لیکن نتائج حیران کن ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماضی کے ان تجربات سے پاکستان اور بھارت بھی سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر جرمنی اور فرانس کے قونصل جنرلز نے پاکستان اور بھارت کی سول سوسائٹی کو قریب لانے میں ”امن کی آشا“ کے کردار کو بھی سراہا۔ تقریب کی خاص بات دونوں ممالک کے شیف کے ہاتھوں بنے جرمن اور فرنچ لذیذ کھانے تھے جسے تقریب میں شریک مہمانوں نے بے حد سراہا۔
فرانس میں منعقدہ ٹیکسٹائل نمائش کے سلسلے میں ہر سال میرا پیرس جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ اپنے قیام کے دوران میں پیرس کی مشہور شاہراہ Champs Elysees پر واقع گمنام سپاہی کی یادگار Arc de Triomphe پر ضرور جاتا ہوں جہاں فرانس پر قابض ہونے کے بعد ہٹلر نے تاریخی تقریر کی تھی۔ ہٹلر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پیرس کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اپنی افواج کو اس شہر کو تباہ کرنے سے روکا تھا۔ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ دراصل ہٹلر نے پیرس کو تباہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کے جنرلوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔
فرانس اور جرمنی کی200 سالہ دشمنی کا پس منظر اور دوستی کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اپنے باہمی اختلافات اور پرانی دشمنیاں ختم کرکے شاہراہ ترقی پر گامزن ہوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو ایسا تنگ نظر اور انتہا پسند ہمسایہ بھارت کی شکل میں ملا جس نے پاکستان کی سلامتی کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ اسے توڑنے کے درپے رہا۔ حالیہ دنوں میں سرحدوں پر ہونے والی جھڑپیں، پاکستانی فوجیوں کے سر تن سے جدا کردینے کے واقعات اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو اسلحہ و مالی مدد فراہم کرنا بھارت کی پاکستان دشمنی کی زندہ مثالیں ہیں۔ پاکستان کی بھی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرے مگر بھارت اس پر آمادہ نہیں اور یکطرفہ دوستی ممکن نہیں۔
تازہ ترین