• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں اکثر یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر پولیس ملزموں یا مجرموں پر اتنا وحشیانہ تشدد کیوں کرتی ہے کہ ان میں سے بعض اس کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں؟ جواب سادہ اور سبھی کو معلوم ہے کہ پولیس کو اس طریقہ تفتیش کے سوا کوئی دوسرا طریقہ آتا ہی نہیں اور آئے بھی کیسے کہ ان کو کوئی اور طریقہ سکھایا ہی نہیں گیا۔ برصغیر میں 1861ء میں انگریز کے عہدِ حکومت میں تشکیل پانے والے اس محکمے کا چلن اب بھی دورِ غلامی جیسا بلکہ اس سے کہیں بدتر دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب متمدن و مہذب دنیا میں صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے، وہاں مار پیٹ اور ملزم کے اقربا کو بے وجہ تنگ کرنے کے بجائے جدید سائنسی اور نفسیاتی طریقوں سے تفتیش کی جاتی ہے۔ حال ہی میں پولیس تشدد کے باعث ہلاکتوں اور نجی ٹارچر سیلز کے انکشاف کے بعد پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ میں ایک انویسٹی گیشن اسکول قائم کیا گیا ہے جس میں تفتیشی افسر کو ایسے تمام سائنسی طریقے سکھائے جائیں گے جن کی مدد سے وہ جرم کا سراغ پا سکیںگے اور انہیں ملزم پر تشدد کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔ یہ بلاشبہ ایک احسن امر ہے کہ جب تک ہم جرم کے سراغ کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کریں گے، پولیس تشدد کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ رک نہ پائے گا۔ اسکول آف انویسٹی گیشن میں فرانزک لیب، تفتیش کے مختلف آلات اور آئی ٹی لیب کے علاوہ مختلف قسم کی دوسری لیبارٹریز کا ہونا عیاں کرتا ہے کہ اس ضمن میں کافی محنت کی گئی ہے۔ تفتیشی افسروں کو گولی چلانے اور جائے وقوعہ سے ثبوت اکٹھے کرنے کی خصوصی تربیت دی جائے گی جس کا دورانیہ تین ہفتے پر محیط ہوگا۔ تفتیشی افسران کیلئے مذکورہ کورس کو لازم قرار دیا جائے۔حکومت کو چاہئے کہ اپنے منشور میں کئے گئے وعدے کی روشنی میں جدید عصری تقاضوں کے مطابق پولیس نظام میں جلد از جلد اصلاحات لائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین