• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم کا یومِ وفات گیارہ ستمبر، اپنے ساتھ بہت سی یادیں لاتا اور سوگوار کرجاتا ہے۔ موت تو اٹل ہے اور مٹی میں ملنا ہمارے جسم کا مقدر ہے لیکن اس کے باوجود موت کا صدمہ اور افسوس اپنی جگہ حقیقتیں ہیں کیونکہ انسان احساسات و جذبات کی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ موت برحق لیکن جو موت اپنے پیچھے ایک ابدی خلا چھوڑ جائے وہ موت مبارک۔ ہاں موت ’’مبارک‘‘ بھی ہوتی ہے افسوس اور صدمے کے باوجود مبارک ہوتی ہے۔

گیارہ ستمبر کو ایک خیال مجھے چھو کر گزرا تو مجھے احساس ہوا کہ ہم بہ حیثیت قوم سازشوں، بدگمانیوں اور افسانوی باتوں کے دلدادہ ہیں۔ مثبت بات ہمیں متاثر کرے نہ کرے منفی بات فوراً ہمارے دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔

نہ جانے ایسا کیوں ہے؟ قائداعظم زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزار رہے تھے۔

یار لوگوں نے اس حوالے سے بھی بدگمانیوں اور سازشوں کے جال بن لئے۔ میں اسکول کے دور سے یہ کہانیاں سنتا رہا ہوں، جوانی میں قائداعظم سے دلچسپی اور پھر عقیدت کا رشتہ قائم ہوا تو ان سازشوں کے حوالے سے تحقیق کرنے کو جی چاہا۔

زیارت سے لے کر قائداعظم کی گیارہ ستمبر 1948کو کراچی آمد تک یار لوگوں نے لیاقت علی خان کے حوالے سے بدگمانیوں کے افسانے تراش رکھے ہیں جنہیں متعدد وضاحتوں کے باوجود دفن نہیں کیا جا سکا۔

مجھے سچ جاننے کی خواہش بریگیڈیئر نور حسین مرحوم کے پاس لے گئی جو زیارت میں قائداعظم کے بطور کیپٹن اے ڈی سی تھے اور قائداعظم کے قبر میں اترنے تک ہر لمحے کے عینی شاہد۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب سے وزیراعظم لیاقت علی خان کی زیارت میں آمد اور ملاقات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قائداعظم کے انگریز ملٹری سیکرٹری کرنل نوئلز کراچی میں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر قائداعظم کے ساتھ زیارت میں تھا۔ ایک روز ملٹری سیکرٹری کا پیغام ملا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان اور سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی گورنر جنرل سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہے ہیں۔

بریگیڈیئر صاحب کے بقول انہوں نے خود یہ پیغام قائداعظم کو پہنچایا جس کے جواب میں قائداعظم نے نہایت خوشی سے انہیں وقت دیا۔

جس روز وزیراعظم کو براستہ کوئٹہ آنا تھا قائداعظم نے اے ڈی سی سے ان کی آمد کی تصدیق کی اور انتظامات کے بارے میں پوچھا۔ قائداعظم نے وزیراعظم کی آمد اور ملاقات کو اتنی اہمیت دی کہ دوپہر کے کھانے کا مینو خود طے کیا اور ان کے استقبال کے حوالے سے ہدایات دیں۔

بریگیڈیئر صاحب بتارہے تھے کہ جب وزیراعظم صاحب اور چوہدری محمد علی تشریف لے آئے تو میں نے جاکر قائداعظم کو ان کی آمد کی اطلاع دی۔

انہوں نے فرمایا کہ مہمانوں کو میرے پاس لے آئیں۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ خود وزیراعظم اور سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی کو قائداعظم کے کمرے میں لے کر گئے۔

ان دنوں قائداعظم شدید علیل تھے اور اس قدر نحیف ہوچکے تھے کہ بازو بھی اٹھانے سے قاصر تھے لیکن لیاقت علی خان کو دیکھ کر انہوں نے مسکرا کر بازو اٹھایا اور خوش آمدید کہا۔

کچھ دیر چوہدری محمد علی بھی قائداعظم سے ملاقات میں شامل رہے۔ پھر وہ نیچے آکر اے ڈی سی کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ یہ گورنر جنرل کی وزیراعظم سے ون ٹو ون آخری ملاقات تھی جس میں قائداعظم نے وزیراعظم کو کچھ اہم ہدایات بھی دیں۔

ملاقات کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نیچے تشریف لے آئے۔ اب کمرے میں اے ڈی سی، قائداعظم کے معالج کرنل الٰہی بخش، چوہدری محمد علی اور وزیراعظم تھے اور چند لمحوں کے بعد مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لے آئیں کہ انہوں نے دوپہر کے کھانے میں قائداعظم کی نمائندگی کرنا تھی۔

اس ملاقات میں وزیراعظم لیاقت علی خان، قائداعظم کی صحت کے بارے میں تشویش اور تفکر کا اظہار کرتے رہے اور وہ برابر کرنل الٰہی بخش سے علاج کی تفصیلات پوچھتے رہے۔ وزیراعظم نے کرنل الٰہی بخش کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ بیرون ملک سے کسی ماہر ڈاکٹر کو بلانا چاہتے ہیں تو بتائیں، حکومت فوراً انتظامات کرے گی۔

اس موقع پر لیاقت علی خان نے کہا کہ قائداعظم ہمارے لئے محترم ترین شخصیت اور قوم کا قیمتی ترین اثاثہ ہیں، اس لئے ان کے علاج و معالجے میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔

انہی دنوں پاکستان کے امریکہ میں سفیر اصفہانی صاحب بھی قائداعظم کی مزاج پرسی کے لئے آئے تھے اور انہوں نے بھی امریکہ سے ماہر ڈاکٹر بھجوانے کی بات کی تھی لیکن قائداعظم کا کہنا تھا کہ میرے غریب ملک کا خزانہ ایسے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس درد مندی اور سوچ کا بعد کے حکمرانوں سے موازنہ کریں تو آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

چند دنوں بعد جب قائداعظم شدید ترین علالت کا شکار ہوگئے تو انہیں کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

بریگیڈیئر نور حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہی کراچی میں گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کو قائداعظم کی آمد کی اطلاع دی اور انتظامات کرنے کے لئے کہا۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا تھا کہ اس آمد کی اطلاع وزیراعظم اور کابینہ کو نہیں دی گئی تھی جیسا کہ پرائیویٹ وزٹ کے موقع پر ہوتا ہے۔

مس فاطمہ جناح کی ہدایت تھی کہ کراچی آمد کو پرائیویٹ رکھا جائے، پھر اس کے بعد وہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ قائداعظم کی ایمبولینس خراب ہوگئی، محترمہ فاطمہ جناح انہیں پنکھا جھلتی رہیں اور دوسری ایمبولینس کو آنے میں کوئی نصف گھنٹہ گزر گیا۔

بریگیڈیئر صاحب نے میرے سوالات کے جواب میں بتایا کہ جب وزیراعظم لیاقت علی خان کو قائداعظم کی آمد کا پتا چلا تو وہ کابینہ کی میٹنگ ادھوری چھوڑ کر ایئر پورٹ پر آئے، جب وزیراعظم کی گاڑی ایئر پورٹ میں داخل ہورہی تھی تو قائداعظم کی ایمبولینس نکل رہی تھی، چنانچہ وہ ہمارے پیچھے آئے، جب ایمبولینس راستے میں خراب ہوئی تو وہ دوسری ایمبولینس کے آنے تک ہمارے ساتھ موجود رہے اور ایمبولینس کو گورنر جنرل ہائوس پہنچا کر ضروری میٹنگ کے لئے گئے۔

بریگیڈیئر صاحب نے اس موضوع پر ’’دی نیوز‘‘ میں مضمون بھی لکھا تھا جس میں وضاحت کی تھی کہ کرنل نوئلز نے کئی ایمبولینس گاڑیاں منگوا کر ان میں سے بہترین کا انتخاب کر کے ایئر پورٹ بھیجی تھی۔ اس وقت کراچی ایک چھوٹا شہر تھا، وسائل بہت کم تھے۔

(دی نیوز23مارچ 1995) بریگیڈیئر نور حسین کا تفصیلی انٹرویو ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ از منیر احمد منیر (حصہ اول) میں بھی موجود ہے۔ اب اس بدگمانی کو ابدی نیند سلادینا چاہئے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے قائداعظم کے علاج معالجے میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا یا وہ قائداعظم کی کراچی آمد پر ایئر پورٹ نہیں پہنچے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین