مجھےکھیتوں کے درمیان کھودی گئی قبر کے ساتھ لٹا دیا گیا اور پھر گھونسوں ، لاتوں اور ڈنڈوں سےبری طرح پیٹنا شروع کردیا گیا تھا،میری ناک اور کان سے خون رسنا شروع ہوگیا تھا تاہم ان کے دلوں میں بالکل رحم پیدا نہیں ہوا،میں نے آخری دفعہ آنکھیں کھولیں تو رات کے آخری پہر چاند پوری آب و تاب سے میرے اوپر ہونیوالے تشدد کا گواہ بنا ہوا تھا ،اسی مارپٹائی کے دوران آواز سنائی دی استاد یہ مرنے والا ہے ،استاد نے جواب دیا مرا تو نہیں ہے مرجائے تو اسی قبر میں دفنا دینا ،یہ سلسلہ مزید کچھ دیر تک چلتا رہا اور پھر ایک حکم آیا ٹھیک ہے چھوڑ دو اسے بچ گیا تو اس کی قسمت مر گیا تو کوئی اس پر مٹی ڈال ہی دے گا یہ کہہ کر مجھے قبر میںدھکا دے دیا گیا اور پھر گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی جو آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی گئی ،نہ جانے کتنی دیر تک میں اسی طرح قبر میں پڑا رہا حواس کچھ بحال ہوئے تو صرف چند گھنٹے پہلے کے مناظر میری نظروں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگے ، صرف چند گھنٹے قبل میں ایک غیر ملکی پرواز میں بہترین قسم کا سوٹ پہنے محو سفر تھا ،جہاز کے لینڈ ہونے کے بعد مجھے بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ مجھے اس صورتحال کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ،میں تو پہلے ہی دل کا مریض تھا اور اپنے دل میں دوا سٹنٹ لئے پھر رہا تھا ، ڈاکٹروں نے درجنوں احتیاطیں بتا رکھیں تھیں ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کا دل اب صرف ساٹھ فیصد کام کررہا ہے لہٰذا زندگی کی طوالت آپ کے انداز زندگی میں ہی چھپی ہوئی ہے ،مجھے پہلا ہارٹ اٹیک ٹوکیو میں اس وقت ہوا تھا جب میں ناموس رسالت کے ایک یورپی اخبار میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ٹوکیو میں مظاہرہ کررہا تھا ، شدید نعرے بازی کے سبب میری حالت غیر ہوئی اور دل کا دورہ پڑا میں اس روز بھی اپنی زندگی کا آخری روز ہی سمجھ رہا تھا ، لیکن اللہ اور اس کے رسول ْﷺ نے زندگی بچائی اسپتال پہنچا فوری طور پر انجیو پلاسٹی کے ذریعے دو اسٹنٹ ڈالے گئے اور زندگی احتیاط سے گزارنے کی ہدایات کی گئی ، جاپانی بیگم نے بھی اپنے چھ بچوں کی قسمیں دے کر احتیاط کے وعدے لئے اور میں پھر زندگی میں واپس آگیا لیکن مجھ سے ناانصافی برداشت ہوتی ہے اور نہ ہی زیادتی ، ابھی میں اس نام نہاد قبر میں لیٹا ماضی کے دریچوں میں کھویا ہوا تھا کہ اب بچوں کی تصاویر نظر کے سامنے آنے لگیں ،بیمار اوربزر گ والد نظر آنے لگے جو تمام حالات سے بے خبر میرے گھر پہنچنے کے منتظر تھے ، اسی سوچ کے بعد نہ جانے کیسے کچھ ہمت پیدا ہوئی اور میںاس نام نہاد قبر سے باہر نکلا ، اس وقت چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا،میں اس وقت کسی آبادی سے دور کھیتوں میں موجود تھا ،مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے اغواء کرنے اور تشدد کرنے والے کون تھے لیکن اتنا معلوم تھا کہ مجھے زندہ رہنا ہے اپنے چھ جاپانی بچوں ،اپنے بوڑھے والد، اپنے قائد اور اپنے ملک کے لئے ، قبر سے نکل کر میں نے سڑک کی تلاش شروع کی ، کئی گھنٹے اپنے آپ کو گھسیٹ کر میں ایک پتلی سڑک تک پہنچا اور سڑک کےکنارے لیٹ کر کسی گاڑی کے آنے کا انتظار کرتا رہا ، کافی دیر بعد ایک موٹرسائیکل وہاں سے گزری تو میں نے اسے روکنے کے لئے ہاتھ دیا ،اس نے پہلے موٹرسائیکل ہلکی کی اور پھر معاف کرو بابا کہہ کر تیزی سے نکال کر لے گیا ،میری حالت کسی فقیر سے بھی زیادہ خراب تھی ، ایک بار پھرکسی کا انتظار شرو ع کیا جس کے بعد ایک گاڑی گزری اسے ہاتھ دیا تو اس نےروکی میری حالت دیکھ کر اس نے مجھے گاڑی میں بٹھا لیا اس نے مجھے بتایا کہ ہم اس وقت قصور میں ہیں اور پاک بھارت بارڈر یہاں سے قریب ہی ہے ،میر ا پورا جسم خود آلود تھا میں نے اپنے محسن کو بتایا کہ ڈاکو لوٹ کر یہاں ڈال گئے ہیں مجھے آپ کے فون کی ضرورت ہے اس نے مجھے فون دیا میں نے لاہور میں اپنے بھتیجے کو فون کر کے بلایا ، گاڑی والے نے قصور کی اہم شاہراہ پر چوبیس گھنٹے چلنے والے معروف کافی شاپ پر مجھے اتارا ،میں نے ریستوران کے واش روم میںمنہ دھویا ، اپنے جسم سے خون صاف کیا ، اورریستوران میں داخل ہوکر ایک میز کا انتخاب کیا ،مجھے دیکھ کر دو ویٹر میری طرف بڑھے اور مجھے ریستوران سے نکل جانے کےاحکامات دیئے ، میں نے ان کے منیجر کو طلب کیا اور اس کو اپنی حالت سے آگاہ کیا اس نے مجھے بٹھایااور بہترین کافی بھی پلائی ، کچھ دیر بعد میرا بھتیجا اور اس کے دوست مجھ تک پہنچے جہاں سے سیدھے اسپتال گئے اور ایک ہفتہ اسپتال میں گزارنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ابھی میرے لئےحالات اس ملک میں ٹھیک نہیں ہیں دل کی بیماری کے باوجود اتنا خطرناک تشدد برداشت کرلیا یہ والدین اور بیوی بچوںکی دعائیں تھیں ورنہ قبر میں لٹاہی دیا گیا تھا ، ہر قریبی شخص کے مشورے کے بعد میں ایک بار پھر اپنے انجان دشمنوں سے بچنے کے لئے جاپان میں موجود ہوں اور کب تک رہوں گا یہ معلوم نہیں یہاںمیں پاکستان اور کشمیر کے لئے اپنی آواز بلند کرتا رہتا ہوں ،میرا نام ملک نور محمد ہے شاید آپ میں سے بھی بہت سے لوگ مجھ سے آشنا بھی ہوں ، میرا پیغام صرف اتنا ہے کہ پاکستان زندہ باد ۔