• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن سے بے نیاز اوباما بمقابلہ پاکستانی سیاستدان؟

پروگرام تو کچھ یہی تھا کہ 10فروری کی سہ پہر تک عالمی شہرت یافتہ امریکی ملٹری کیمپ گوانتاناموبے پہنچ کر وہاں کے ماحول اور مناظر کے بارے میں اپنے مشاہدات قارئین کو پیش کروں گا۔کیوبا میں واقع اس امریکی فوجی بیس تک سفر کیلئے صحافتی سفر کیلئے پینٹاگون کی جانب سے ”گراؤنڈ رولز“ کی کڑی شرائط کے ساتھ منظوری بھی آچکی تھی اور اس خصوصی فلائٹ پر آنے جانے کے کرائے اور دیگر اخراجات کی ادائیگی سے مشروط نشست بھی کنفرم ہوچکی تھی کہ واشنگٹن سے یہ خصوصی فلائٹ لینے سے قبل ہی شمال سے، کینیڈا سے آنے والے تاریخی برفانی طوفان نے نیویارک سمیت سات ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر ایک فٹ سے لیکر3 فٹ تک برف برسا کر انسانی زندگی کو معطل بلکہ منجمد کردیا۔ شہر بند، سڑکیں سنسان درجہٴ حرارت نقطہ انجماد سے بھی کافی نیچے اور پیٹرول کیلئے لمبی قطاریں لگائے لوگ پریشان نظر آئے۔ اس موسمی صورتحال کے باعث گوانتاناموبے کے پروگرام کے رابطہ افسر میجر جیف سے فون پر رابطہ کرکے موسمی صورتحال کی مشکلات کے باعث جانے سے معذرت کرلی ورنہ آپ کو پینٹاگون کے ”گراؤنڈ رولز“ کے متعین کردہ ”فریم ورک“ میں آپ کو”احوال گوانتاناموبے“ پڑھنے کو ملتے۔ زندگی بخیر پھر کبھی سہی۔ فی الوقت توامریکی صدر بارک اوباما اپنے اگلے چار سال کے عہدہ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں ”وفاق امریکہ کی صورتحال“ یعنی اسٹیٹ آف دی یونین“ سے آگاہ کرنے والے ہیں۔امریکہ میں12 فروری کی رات (یعنی پاکستان میں 13 فروری کی صبح)کو یہ خطاب اس کالم کی اشاعت کے بعد ہوگا تاہم ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر اوباماکا یہ خطاب امریکیوں کیلئے، افغانیوں اور پاکستانیوں کیلئے بڑا اہم ہوگا۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کیلئے تقاریر لکھنے والے شعبہ کے نئے سربراہ کوڈی کینن نے اس اہم تقریر کا ڈرافٹ تیار کرکے صدر اوباما سے مشورے اور ہدایات کے مطابق وہ مسودہ تیارکرلیا ہے جس میں صدر اوباما ہی کوئی تبدیلی یا اضافہ کرسکتے ہیں اور یہ اختیار انہیں تقریر کے آخری لمحات تک ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر اوباما اپنی اس اہم تقریر میں معیشت کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنے اگلے چار سال کے عرصہ میں اپنے معاشی ایجنڈے کی آؤٹ لائن بیان کریں گے۔ وہ مڈل کلاس، عمر رسیدہ اور غریب طبقہ پر بوجھ بڑھائے بغیر معیشت کو بہتر بنانا اور امریکہ میں روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔بیروزگاری کی موجودہ شرح 7.9 فی صد کو بھی کم کرنا چاہتے ہیں اور امریکہ پر16 ٹریلین ڈالرزسے زائد قرضہ کو بھی کم بلکہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی معیشت کی بحالی اور روزگارکے زیادہ سے زیادہ مواقع صدر اوباما کے اگلے چار سالوں کیلئے امریکہ کا داخلی اور عالمی ایجنڈا ہے گوکہ صدر اوباما کی سیاسی زندگی اور صدارت کے یہ آخری چار سال ہیں جن کیلئے انہیں نہ تو ووٹروں کے دباؤ کا سامنا ہوگا اور نہ ہی کسی سیاسی مجبوری کا بلکہ جیسے اور جو چاہے وہ کریں۔ چار سال پورے کرکے وہ سبکدوش ہوجائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر طرح کی سیاسی مجبوری اور دباؤ سے آزاد ان چار سالوں کے دوران صدر اوباما امریکی معیشت اور امریکہ کی عالمی برتری کو بحال کرنے کی فکر میں ہیں تاکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو مخالف ری پبلکن پارٹی پر سیاسی برتری حاصل رہے اور آپ دیکھیں گے کہ اقتدار کے نشے میں دھت ہوکر صرف جمہوریت کا زبانی راگ الاپنے والے پاکستانی لیڈر ان کی طرح معیشت کو تباہی اور کرپشن میں مبتلا کرکے بھی بے عملی کے ساتھ رہنے والی پاکستانی قیادت کے برعکس امریکی صدر متعدد عملی اقدامات کے ذریعے اصلاح میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی اس تقریر میں معاشی تجاویز دینے کے بعد ایوان صدارت میں بند ہو کر مشیروں سے قصیدے اور کامیابی کے فرضی قصے سننے کی بجائے تین مختلف مسائل کی حامل امریکی ریاستوں نارتھ کیرولینا، اٹلانٹا اور الی نوائے جاکر اپنی تجاویز کیلئے عوامی تائید حاصل کرنے کی مہم چلائیں گے۔غربت اور بیروزگاری سے تنگ پاکستانی عوام کے غم و غصہ کو محلاتی سازشوں اور گروہی توڑ جوڑ کے ذریعے دباکر اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی کرنسی روپے کی بے قدری اور ڈالر کے100 روپے ہونے کے اثرات کی پروا تک نہیں۔ امریکہ سے جاکر پاکستانی معیشت چلانے والے وزیر خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن کے عہدیدار اور دیگر شخصیات اپنے مفادات اور کرپشن کے مزے اڑا رہے ہیں مگر امریکی صدر اوباما کو اب نہ تو اگلے الیکشن کی پروا ہے نہ ہی ضرورت ہے مگر وہ ڈالر کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے، مہنگائی کو روکنے، امریکی حکومت کے اخراجات کو کم کرنے کیلئے اسی طرح سرگرم ہیں جیسے ایک محب وطن امریکی عوامی نمائندے پر واجب ہوتا ہے۔ اب آیئے امریکہ کی عالمی برتری اور مسائل کی جانب تو امریکی صدر اپنی اس تقریر میں امریکی ڈیفنس کے امور پر بھی اپنی اسٹریٹجی اور تجاویز آگے بڑھائیں گے۔ ایران اور پاکستان کے ایٹمی پروگراموں پر دباؤ جاری رکھنے کیلئے وہ امریکی نیشنل سیکورٹی کے ایجنڈے کے مطابق دنیا میں ایٹمی اسلحہ اور ایٹمی مواد کی تنسیخ اور کمی کی بات کریں گے۔ امریکی نیوکلیئر فورس میں ایک تہائی کمی کے اعلان کے باوجود امریکہ پوری دنیا کو کئی مرتبہ تباہ کرڈالنے کی ایٹمی قوت رکھتا ہے اور امریکی جنرل بھی اس کمی پر راضی ہیں کہ 1700 کی بجائے ایک ہزار ایٹمی ہتھیار بھی امریکہ کیلئے کافی ہیں مگر اس کمی سے امریکی ساکھ میں عالمی اضافہ، اخراجات میں بہت بڑی کمی اور ایران، پاکستان جیسے ملکوں پر دباؤ بھی بڑھے گا۔ دس سال میں 80/ارب ڈالرز کے اخراجات بچیں گے۔ روس کے ساتھ معاملات طے کرنا ہیں۔ اس طرح اوباما سائبرسیکورٹی کو مضبوط کرکے نئے قوانین بناکر تیسری دنیا کے ہیکروں اور سائبر نظام میں مداخلت کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ بارک اوباما اپنے اس خطاب میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بارے میں بھی ذکر کریں گے جس کا تعلق براہ راست پاکستان اور اس کی سلامتی و قومی زندگی سے ہے۔ 2014 ء میں امریکہ، افغانستان سے اپنی کتنی فوج کو پاکستان کے زمینی راستے سے واپس لائے گا،کتنا اسلحہ ساز و سامان ہوگا؟کیا انتظامات ہوں گے؟ امریکی واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے پاکستان کو کیسے نمٹنا ہوگا؟ قوت کا یہ خلاء کیسے اور کون پورا کرے گا۔ حامد کرزئی اور ان کا سیٹ اپ بھی افغانستان کے اقتدار سے رخصت ہونے والا ہے۔ کیا عالیشان محلوں میں انتخابی منصوبوں اور توڑ جوڑ میں مصروف حکمرانوں نے اپنے آقا کی خطے سے واپسی کے پاکستان پر اثرات کے بارے میں کوئی تیاری کی ہے؟امریکی صدر اور سیاستدان بارک اوباما کو تو اپنے دوسرے چار سالہ عہدہ صدارت کے دوران نہ تو امریکی ووٹوں کا سامنا ہے نہ ہی انتخابی مجبوریاں لاحق ہیں لیکن وہ معیشت سے لیکر امریکہ کی عالمی برتری تک کے معاملات پر سر توڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن ہمارے پاکستانی سیاستدان الیکشن کی مجبوریوں کے اس دور میں بھی سازشوں اور اقتدار پر قبضہ کی جنگ میں مصروف ملک کی تباہی سے بے نیاز ہیں۔
تازہ ترین