• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستّر کی دہائی ترکی کی سیاسی تاریخ میں سیاہ ترین باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ترکی کا یہ دس سالہ عرصہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس دور میں ٹارگٹ کلنگ نے پورے ترکی میں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں کھلے عام ایک دوسرے کے ورکروں اور رہنماؤں کو نشانہ بنا کر قتلِ عام کررہی تھیں۔ درس گاہیں طلبا و طالبات کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے بجائے ان کو اسلحہ فراہم کرنے اور ان کے مستقبل کو تاریک بنانے کی آماجگاہیں بن چکی تھیں۔ سیاسی جماعتوں میں اسلحہ حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی اور اسلحے ہی کے زور پر حکومتوں کو بھی ختم کیا جا رہا تھا۔ دیمرل اور ایجوت ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لئے بڑے بھونڈے طریقے استعمال کر رہے تھے جس کا اندازہ سلیمان دیمرل کے ایجوت سے متعلق اس بیان سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ”ایجوت قانونی حکومت کا وزیراعظم نہیں بلکہ غیر قانونی حکومت کا سرغنہ ہے اور اس کے وزراء ہوٹل میں یکجا کئے جانے والے وزرا ء نہیں لٹیرے ہیں“۔ (ایجوت نے ایک ہوٹل میں اپنی پارٹی سے باہر کے اراکین کو جمع کرتے ہوئے انہیں وزیر بننے کی پیشکش کی تھی جیسا کسی دور میں ہمارے ہاں چھانگا مانگا میں ہوا تھا) جبکہ ایجوت نے سلیمان دیمرل کے بارے میں کہا تھا” دیمرل اقتدار پر قابض رہنے کے لئے تمام غیرقانونی طریقہ کار استعمال کرنے سے گریز نہ کرنے والا سیاستدان ہے“۔
ستّر کی دہائی میں ترکی کے کئی ایک علاقوں میں حکومت کی رِٹ ہی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ بحراسود کے شہر فاتسا میں انقلاب پسندوں نے کمیونسٹ طرز کی علاقائی حکومت قائم کرلی تھی اور خصوصی عدالتوں نے گلی کوچوں میں مخالفین کو سرِ عام پھانسی پرچڑھا دیا تھا اور پھر ماراش، چورم اور کئی دیگر شہر بھی اسی راہ پر چل پڑے تھے۔ اسی دور میں ملک میں فرقہ واریت کو بھی ہوا ملی۔ ملک کے امن و امان کی محافظ پولیس دائیں اور بائیں بازو کے گروپوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی تھی جس کی پشت پناہی روس اور متحدہ امریکہ کی جانب سے کی جا رہی تھی۔اقتصادی لحاظ سے بھی ملک زبوں حالی کا شکار ہو چکا تھا اور اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے اس وقت کے وزیراعظم سلیمان دیمرل کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں۔” ہم ایک ایک سینٹ کے محتاج بنا دیئے گئے ہیں اور ملک کی اقتصادیات کو چلانا ہمارے بس میں نہیں رہا ہے“۔ ملک میں غیر ملکی کرنسی نایاب ہوچکی تھی اور اسے اپنے پاس رکھنا ایک جرم تصور کیا جاتا تھا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے ترکی کو قرضہ دینے ہی سے انکار کردیا تھا۔
ان ابتر حالات میں ترکی کے سیاسی میدان میں ابھر کر سامنے آنے والے ملی سلامت پارٹی کے چیئرمین نجم الدین ایربکان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مولانا جلا ل الدین رومی کے شہر قونیا میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں اسلامی شرعی نظام کو متعارف کرانے کا اعلان کردیا۔ ایربکان ایران کے امام خمینی انقلاب سے بڑے متاثر تھے اور ترکی میں بھی اسی قسم کا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ ترکی ایک سیکولر ملک تھا اور فوج بھلا کیسے خاموش رہ سکتی تھی اور پھر وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
ترکی کے اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل کنعان ایورن نے کئی بار کی خاموشی کے بعد آخر کار 12ستمبر1980ء کو ملک میں مارشل لاء نافذکردیا۔اس مارشل لا کو لگانے میں جنرل کنعان ایورن کو متحدہ امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی جس کی تصدیق اس وقت کے متحدہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر پال ہینزکی صدر کارٹر کو دی گئی خبر کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ " Your boys have done it " ملک میں مارشل لا لگانے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی، تمام سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرتے ہوئے مختلف جیلوں میں بھجوادیا گیا، ملک کے آئین کو منسوخ کردیا گیا اور پارلیمینٹ توڑ دی گئی۔ ملک کی کئی ایک یونیورسٹیوں کے ریکٹرز، پروفیسرز، کالم نگاروں، صحافیوں اور یونین کے رہنماؤں کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
1980ء میں ملک میں مارشل لا لگانے کے بعد بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل بلنت اولوسو کو حکومت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس دوران دائیں اور بائیں بازو میں بٹی ہوئی پولیس کو فوج کی نگرانی میں دے دیاگیا، خصوصی عدالتیں قائم کرتے ہوئے ملک کو انتشار کا شکار بنانے والوں اور ٹارگٹ کلنگ کرنیوالے افراد کو پھانسی کی سزا دلوائی گئی۔ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو دباؤ میں لانے اور ان کو خاموش کرانے کیلئے صدر کنعان ایورن نے بڑا عجیب و غریب طریقہ کار استعمال کیا۔ انہوں نے دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے رہنماؤں اور اراکین کو اوپر تلے باری باری پھانسی کی سزا دلوادی تاکہ دائیں اور بائیں بازو کے درمیان توازن قائم رہے۔ ملک میں حالات کو بہتر بنانے کے بعد جنرل کنعان ایورن نے 7نومبر 1982ء کو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرز کا ریفرنڈم کرایا اور 91.37 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک میں سات سال کے عرصے کیلئے اپنے آپ کو صدرمنتخب کرانے کیساتھ ساتھ نیا آئین بھی منظور کرالیا اور بڑی چالاکی اور ہنرمندی سے ریفرنڈم کی شق میں مارشل لا نافذ کرنے والے فوجی افسران پر زندگی بھر مقدمہ نہ چلانے کی ضمانت بھی حاصل کرلی۔ اس لحاظ سے ہمارے پرویز مشرف ان سے پیچھے رہ گئے اور وہ ریفرنڈم میں اس قسم کی کوئی شق شامل نہ کراسکے۔ جنرل کنعان ایورن نے 6 نومبر 1983ء کو عام انتخابات میں صرف نئی سیاسی جماعتوں ہی کو حصہ لینے کی اجازت دی۔ ان عام انتخابات میں ترگت اوزال کی مدر لینڈ پارٹی نے واضح برتری حاصل کی جس پر صدر کنعان ایورن نے نئی حکومت تشکیل دینے کے فرائض ترگت اوزال کو سونپ دیئے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد اس حکومت نے مارچ 1984ء سے ملک کے مختلف شہروں سے مارشل لا اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا اور 19جولائی 1987ء کو دیار باقر، ماردین اور سیرت سے بھی مارشل لا اٹھاتے ہوئے پورے ملک سے مارشل لا کی لعنت کو ختم کیا۔ ملک میں مارشل لا کے دوران چھ لاکھ پچاس ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جبکہ سات ہزار افراد کو پھانسی کی سزا دینے کیلئے عدلیہ سے رجوع کیا گیا تھا اور عدلیہ نے ان میں سے517/افراد کو پھانسی کے سزا دے دی تھی۔ اس دوران فوجی حکومت نے تیس ہزار افراد کو سرکاری نوکریوں سے نکالنے کے ساتھ ساتھ تیس ہزار افراد کو جلا وطن بھی کردیا۔
ترگت اوزال جمہوریہ ترکی کے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک میں آزاد منڈی اقتصادیات اور نج کاری کو متعارف کرایا۔ اسی دور میں ملک میں میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے دور کا آغاز ہوا جس سے ملک میں شفاف پن کی بنیاد رکھ دی گئی۔ 9نومبر 1989ء کو جنرل کنعان ایورن اپنی سات سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ ترگت اوزال نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ملک کی صدارت کے فرائض سنبھال لئے۔ ترگت اوزال کی وفات کے بعد پرانے سیاستدانوں جن پر مارشل لا دور میں پابندی لگادی گئی تھی ترکی کی سیاست میں دوبارہ سے وارد ہوئے۔ سلیمان دیمرل ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے لیکن ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس بار بھی قوم کو مایوس کیا اور ایک بار پھر ملک میں سیاسی اور اقتصادی بحران کی بنیاد رکھ دی اور رہی سہی کسر انہی کی جماعت کی وزیراعظم تانسو چیلر نے پوری کردی۔ ملک میں اب مخلوط حکومتیں قائم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ بچا تھا جس کا فوج نے بھرپور فائدہ اٹھایا اورپردے کے پیچھے سے سیاستدانوں کی ڈوری ہلانے کا سلسلہ شروع کردیا اور نجم الدین ایربکان کی حکومت کی ایسی ڈوری کھینچی کہ نجم الدین ایربکان کو پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور ان کی جماعت ہی تقسیم ہو کر رہ گئی جس میں سے ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) ابھر کر سامنے آئی۔ (جاری ہے)
تازہ ترین