• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ جب کروٹ بدل رہی ہوتی ہے تو ہر کس و ناکس کو اس کا احساس نہیں ہوتا بلکہ جو ہو رہا ہوتا ہے، اس کو عام افراد ایک معمول کی سرگزشت کے طور پر دیکھتے ہیں مگر اہل دانش لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال کے صدیوں تلک موجود رہنے والے اثرات پر نگاہ مرکوز رکھتے ہیں اور بسا اوقات اہل دانش طالبعلموں سے اس لمحہ بہ لمحہ کہانی پر رائے دینے کی فرمائش بھی کر ڈالتے ہیں۔

مجھے بھی کچھ اسی نوعیت کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا، گزشتہ سے پیوستہ ماہ میں چین اور امریکہ کے دوروں میں وقت گزرا اور اب مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی جانب سے ان دوروں پر تاثرات بیان کرنے کی مجھے دعوت دی گئی۔

برادر بزرگ رئوف طاہر، پروفیسر شفیق جالندھری، تاثیر مصطفیٰ، ڈاکٹر امجد مگسی، پروفیسر سردار اصغر، کامران الطاف قریشی، اسلامیہ کالج کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر سرفراز علی اور دیگر احباب کی موجودگی میں اپنی گزارشات کا آغاز میں نے امریکہ اور پاکستان سے تعلقات کی موجودہ نوعیت سے کیا۔

ماضی کو تو ہم سبھی جانتے ہیں بلکہ اب تو ٹرمپ کے ثالثی کے شوشے کے بعد سے پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے اور اس شوشے سے جو فائدہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے اٹھانا تھا، وہ اٹھا لیا گیا اور بدقسمتی سے جو فائدہ بھارت نے کشمیر میں اٹھانا تھا، وہ بھی اٹھا ڈالا۔

ان دونوں واقعات کو ذہن میں جگہ دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا بہت آسان ہے کہ کیا عمران خان کا دورۂ واشنگٹن کامیاب رہا؟ خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے اس بیان کے بعد کے دنیا میں کوئی ہمارا ساتھ دے نہ دے۔

پاکستان کی سفارتی دنیا میں تنہائی اور امریکہ سے تعلقات کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ معاشی طور پر انحطاط پذیر پاکستان کی حالت اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔

ایسی صورت میں امریکہ سے تعلقات ماسوائے اس کے کہ آپ ٹرمپ کو انتخابات میں کامیابی دلانے کی غرض سے اس کی ہر بات پر ہاں کہہ دیں اور جیسے مودی کو ابھینندن کو فوراً رہا کر کے بھارت میں ایک اسٹرانگ مین کے تصور کے ساتھ کامیابی دلائی، کامیابی دلا دی جائے تو اور بات ہے ورنہ پاکستان کی موجودہ حکومت میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ موجودہ کمزور پچ پر عمدہ کارکردگی کا مظاہر کر سکے اور اسی وجہ سے اس وقت کشمیر اور افغانستان میں ہماری جو ضروریات ہیں، اس سے صرفِ نظر کرنے کا موقع ٹرمپ انتظامیہ کو بخوبی حاصل ہوا ہے۔ ہم از خود جشن مناتے رہے تھے، افغانستان میں ہم نے بھارت کو پیچھے دھکیل دیا تو اور بات ہے ورنہ حقیقت کا ادراک کرنے کی غرض سے ہمیں اس پر نظر رکھنا چاہئے کہ ہم خود افغانستان میں کہاں کھڑے ہیں، صرف پاک افغان سرحدوں پر بڑھتے داعش کے اثرات ہی اس کا واضح مگر پریشان کن جواب ہیں۔ امریکہ کی افغانستان سے رخصتی کی دیر ہے، یہ عفریت سب کچھ کرنے کی غرض سے تیار بیٹھا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اسی طرح پاکستان کم از کم اپنی سرحدوں اور اپنے سے متعلق افغان حالات پر امریکہ سے بھی حقیقی اقدامات پر بات کرے۔

صرف اس پر خوش ہونا کہ افغان طالبان کے امریکہ سے مذاکرات شروع ہیں اور دیگر معاملات پر نظر نہ رکھنا حد درجہ غیر ذمہ داری ہو گی کہ پھر کوئی تیس چالیس سال بعد کہے گا کہ میرے پیشروئوں سے اس وقت منصوبہ بندی میں غلطی ہو گئی۔

امریکیوں سے بات کی تو محسوس ہوا کہ ان کو بہت خوشی ہے کہ وہ پاکستان سے جو منوانا چاہیں گے، منوا لیں گے اور پاکستان کی جس ضرورت کو نظر انداز کرنا چاہیں گے، کر ڈالیں گے۔ کشمیر پر کسی ایسی حمایت کی قطعاً توقع نہیں رکھی جانی چاہئے۔

تحمل کا بھاشن ضرور دیا جا رہا ہے اور دیا جاتا رہے گا اور خیال رہے کہ اس بھاشن کو وہ بھارت کے لئے زیادہ اہم سمجھتے ہیں کیونکہ بدمستی کے عالم میں بھارت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ آزاد کشمیر پر اس حد تک حالات خراب کر دے کہ معاملہ صرف لائن آف کنٹرول تک محدود نہ رہے اور اس حد تک خرابی امریکہ کے مفاد میں نہیں، سو وہ اس حد تک معاملات جانے بھی نہیں دے گا لیکن وہ شدید خراب معاملات کو ہی روکے گا۔

چین اور امریکہ دونوں میں بڑھتی باہمی تجارتی جنگ پر ایک بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ جہاں امریکہ تجارتی حوالے سے چین کو محدود رکھنا چاہتا ہے وہیں پر وہ معاملات کو اس حد تک خراب نہیں کرنا چاہتا کہ چین کی معیشت سے وابستہ اس کے اپنے مفادات بھی خطرے کے زون میں چلے جائیں۔

اسی طرح چین اس بڑھتی تجارتی جنگ کو جلد از جلد کسی تصفیے پر لے جانا چاہتا ہے۔ چین کے بڑھتے تجارتی قدم روکنے کے لئے سی پیک کی راہ میں بھی روڑے اتنے اٹکا دیئے گئے ہیں کہ اس پر بہت سارے سوالیہ نشان لگ گئے لیکن ایسا بھی نہیں کہ کھیل ختم ہونے کی حتمی سیٹی بج گئی ہو، چین بھی اپنے منصوبے کو بچانے کیلئے کاوشیں شروع کر چکا ہے اور صرف چند ماہ میں ہی اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

سوال و جواب کے مرحلے پر ایک افسوس کا مرحلہ بھی آیا، میں نے ایک سوال کے جواب کے طور پر عرض کی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مکمل وزیر خارجہ اپنے اقتدار کے صرف آخری تین ماہ میں رکھا مگر شعبہ تعلیم سے وابستہ دو افراد جن میں ایک سابق وائس چانسلر اور دوسرے ریٹائرڈ پرنسپل تھے، بضد ہو گئے کہ نہیں، عزیز احمد ان کے پورے دور میں مکمل وزیر خارجہ رہے حالانکہ عزیز احمد آخری تین ماہ تو مکمل وزیر خارجہ رہے لیکن اس سے قبل ان کے پاس وزیر مملکت برائے خارجہ و دفاع کا عہدہ تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ہی وزارت خارجہ کا قلمدان بھی تھا۔

اس سطح کے لوگوں کی حقائق سے ناواقفیت دیکھ کر اندازہ ہوا ہے کہ ہمارے طلبہ پیچھے کیوں رہ گئے۔

تازہ ترین