• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لودھراں کے علاقے عبداللہ پور میں دھان کی فصل میں دوا ڈالنے کے دوران احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے پر 4کسان جاں بحق ہو گئے اور پھر یہ بات حیران کن لیکن حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں جنگوں اور مہلک امراض سے ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ افراد فضائی آلودگی کے اثرات سے مرتے ہیں۔ جدت نے جہاں ہمیں بے شمار آسائشیں دی ہیں وہیں متعدد جان لیوا امراض بھی ارزاں کئے ہیں۔ صرف زراعت کو ہی لیں کہ ہر فصل کے لئے کھاد اور اسپرے گویا لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ 1962ء میں امریکی سائنسدان راچیل کارسن نے فصلوں پر کیڑے مار ادویات کے انسانی صحت پر مضر اثرات پر ایک کتاب ’’سائلنٹ اسپرنگ‘‘ لکھی جس میں خاص طور پر ان ادویات کا تذکرہ کیا جو مضر ہیں، تاہم ڈی ٹی ٹی پابندی کے باوجود اب بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ کیڑے مار ادویات (پیسٹی سائڈ) کے اثرات محض وہیں تک محدود نہیں رہتے جہاں اسپرے کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور لینکیسٹر یونیورسٹی برطانیہ کی مشترکہ ریسرچ یہ حقیقت سامنے لائی کہ لاہور کے گرد و نواح میں موجود دھول اور گرد میں بھی ان ادویات کے اثرات موجود ہیں جو شہریوں کے لئے خطرہ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 30لاکھ افراد ان ادویات سے متاثر ہوتے ہیں جن میں قریباً ڈھائی لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی تعداد چار لاکھ سالانہ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی کم و بیش ستر فیصد آبادی دیہات میں مقیم ہے، لہٰذا حکومت کو فوری طور پر محکمہ زراعت کو متحرک کرنا ہوگا، مضر صحت ادویات پر پابندی عائد کرکے دنیا بھر میں ہونے والی جدید ریسرچ اور ادویات سے استفادہ کیا جائے تاکہ کم از کم عوام کو ہوا اور خوراک تو خالص ملے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین