• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جس کو روشنیوں کا جگمگاتا شہر کہا جاتا تھا اب کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس سازش میں سندھ حکومت اور میئرکراچی دونوں برابر شامل ہیں اور دونوں تماشا دیکھ رہے ہیں۔ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو رہے ہیں۔سابقہ 30سالہ ایم کیو ایم کے دور میں ذاتی مفادات حاصل کر کے ایک ایک ادارے سے کراچی کا نام ہٹا کر ’’سندھ‘‘ لگا کر سندھ حکومت کے ما تحت کر دیا گیا اور تمام مالیات اور ٹیکسوں پر قبضہ کر کے نا اہل سندھ حکومت کی ماتحتی میں دے دیا گیا۔خود سندھ حکومت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں سے ملنے والی کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث تھی اور ان شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرتی رہی اور جب اس کو کراچی کے بجٹ ملے تو اُس میں میئر کراچی کو بے بس کر کے کراچی کو لاوار ث کر دیا گیا۔وزیر بلدیات سندھ،میئر کراچی وسیم اختر پر بجٹ ہضم کرنے کا الزام لگا تے ہیں تو میئر کراچی جواب میں سندھ حکومت پر مختص بجٹ کی رقم کراچی بلدیات کو نہ دینے گا الزام لگا کرقصہ برابر کر دیتے ہیں۔ کراچی کے عوام دونوں حکومتوں کے درمیان سینڈوچ بن چکے ہیں اور جب حالیہ طوفانی بارشوں سے شہر میں کیچڑ اور صفائی کا نظام نہ ہو نے سے گٹر اُبلے توبدبوئوںنے اس شہر کو اجاڑ کر رکھ دیاہے۔ میڈ یا نے اس لاوارث شہر کی طرف مرکزی حکومت کی توجہ مبذول کرائی تو وزیر اعظم عمران خان نے 162ارب کا پیکیج دینے کا اعلان کیا اور سندھ حکومت کو متنبہ بھی کیا۔پھر وفاقی وزیر قانون نے آرٹیکل 149کے تحت کراچی کومر کز کی تحویل میں کراچی دینے کی بات کی تو سندھ حکومت بوکھلا گئی اور مرکزی حکومت کو للکارنے لگی۔ اس میں سابق وزیر بلدیات سعید غنی اور مرتضی وہاب جن کا تعلق کراچی سے ہے، پیش پیش ہیں۔ جبکہ دیگر وزراء خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،طرح طرح کی بیماریاں پھیل چکی ہیں،اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔عملی طور پر اب سندھ حکومت اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہے اور مرکزی حکومت سے 162ارب روپے خودہتھیانے کی کوشش کر رہی ہے۔

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی جن کا تعلق بھی کراچی سے ہے لاتعلق نظرآتے ہیں۔جس طرح ماضی میں صدر ممنون حسین جن کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا پورے 5سال کراچی کو اجڑتا دیکھتے رہے اور صرف تنخواہیں،مراعات، حج و عمرہ اور غیر ملکی دوروں سے لطف اندوز ہوئے اورساتھ ساتھ اپنے خاندان اور دوستوں کو سرکاری خرچ پر عمرے اور حج پابندی سے کراتے گئے۔ کبھی کراچی کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ذکر و فکر بھی نہیں کیا۔ اسلام آباد سے کراچی ذاتی دورے تک محدود رہے۔پی ٹی آئی کا اس الیکشن میں کراچی والوں نے بھر پور ساتھ دیا، اب امید تھی وزیر اعظم عمران خان جواب میں کراچی شہر کو ضرور نواز یں گے اُسکی روشنیاں دوبارہ بحال کریں گے۔مگر افسوس صد افسوس صرف زبانی جمع خرچ تک مرکزی حکومت محدود رہی۔آر او پلانٹس،گرین بسیں وغیرہ وغیرہ فی الحال صرف اعلانات ہی ہیں۔اب جب وزیر قانون فروغ نسیم نے جن کا تعلق ایم کیو ایم کراچی سے ہے آرٹیکل149اور 141دفعات کے تحت کراچی کا کنٹرول وفاق کے تحت کرنے کا عندیہ دیا تو سب مل کر اس کی مخالفت میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ پورے ملک کی معاشی کفالت کرنے والے اس شہر کو اگر کچھ ہو گیا تو پورا پاکستان مفلوج ہو جائے گا،پھر کیا ہو گا۔ابھی صرف آئی ایم ایف کی خواہش پوری کر نے سے 40فیصد کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔30ستمبر سر پر آرہی ہے جب سی بی آر کی 50ہزار والی شرائط پر طوفان آئے گا اور بقایا 60فیصد کاروباربھی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔اگر کراچی والوں سے ریفرنڈم کروائیں تو وہ وفاق کے کنٹرول میں جانا چاہیں گے۔عمران خان صاحب پہلی فرصت میں کراچی کا دورہ کر کے کراچی والوں کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں اور ان کو ناگہانی مصیبتوںسے نجات دلوادیں۔پہلے ہی پی ٹی آئی کے مرکزی وزیر علی زیدی کی صاف کراچی مہم ناکام ہوچکی ہے اور صفائی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اس شہر کی بر بادی میں سب کاہاتھ ہے،عدلیہ نے بھی کوئی سو موٹو ایکشن نہیں لیا جس سے شہر والے اپنے آپ کو غیر محفوظ اور تنہا سمجھ رہے ہیں۔سابقہ میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے کراچی کو 3ماہ میں صاف کرنے کا چیلنج دیا تو موجودہ میئر وسیم اختر نے ان کے حق میں ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا انہوں نے ابھی 24گھنٹے ہی گزارے تھے کہ وسیم اختر نے وہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مصطفیٰ کمال ماضی کی طرح کراچی کو صاف کر دیں اور ہمارا پتہ صاف ہوجائے۔

کراچی ا سٹر ٹیجک کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر فروغ نسیم نے کمیٹی میں 9ارکان بھی شامل کئے ہیں، جن میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی محترمہ فہمیدہ مرزا،سابق چیئر مین سینٹ میاں محمد سومرو،ایم این اے علی نواز،شکور شاد جن کا تعلق لیاری سے ہے شامل کیا گیا ہے۔جبکہ صوبائی اسمبلی کے جمال صدیقی، ارسلان گھمن،نصرت عباسی اور گل فراز خٹک شامل ہیں۔ واضح رہے کہ متعلقہ 9ممبران میں اکثر کا تعلق سندھ کے دیہی علاقوں سے ہے۔نیز میئر کراچی وسیم اختر نے بھی کراچی کے لئے وفاقی حکومت کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی کا اجلاس بلالیا ہے،اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 149کے ایشو پر ہنگامہ خیزی کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق پا کستان پیپلز پارٹی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 149کے اطلاق کو سندھ کی تقسیم قرار دے کر سخت احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے۔

تازہ ترین