• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم وہ مانگتے ہیں جو ہم کو اچھا لگتا ہے اور رب ہم کو وہ دیتا ہے جو ہمارے لئے اچھا ہوتا ہے ، رب کی عطا پر شکر بھی ضروری ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے کشمیری مسلمانوں کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑ رہا ہے۔ اس بار دنیا بھی اس معاملے پر کچھ توجہ دیتی نظر آرہی ہے۔ کیا مقدمہ لڑنے کے ساتھ ساتھ ہم جنگ کے لئے بھی تیار ہیںکچھ صاحب علم لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اس وقت بھی حالت جنگ میں ہے۔ ایک جنگ تو ہمارے کپتان کی سرکار ملک کے اندر لڑ رہی ہے۔ وہ ہے کرپشن اور بدانتظامی کے خلاف۔ کرپشن کے معاملات کو ایک آزاد قومی ادارہ نیب دیکھتا ہے تاہم سیاسی لوگ اور سیاسی رہنما مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ نیب سیاسی اور کاروباری لوگوںسے ناانصافی کر رہا ہے۔ ہاں انصاف ایسا نہیں ہے جو ہوتا نظر آ رہا ہو۔

سوشل میڈیا کی یلغار کی وجہ سے خبر کی حیثیت اور اہمیت دائو پر لگ چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر خبر بنانا اور اجاگر کرنا بہت ہی آسان ہے ، خبر میں صرف الزام نہیں ہوتا بلکہ تصدیق کے بعد عدالت کا فیصلہ بھی بتا دیا جاتا ہے۔ عملی اور قانونی عدالتیں کہاں اتنی جلدی فیصلہ سناتی ہیں پھر ہمارے وکیل اور ان کے وکیل ایک دو پیشیوں پر تو مقدمےکا نقشہ ہی جماتے ہیں۔ پھر آج پاکستان میں وکیل عدالت کو باور کراتے ہیں کہ یہ مقدمہ تو ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہی نہیں۔ ایک نیا مقدمہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح انصاف بے چارہ قانون کی نظر میں بے بس نظر آتا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بھی مقدمات کے دبائو کی وجہ سے مفلوج نظر آتا ہے۔ چھوٹی سے بڑی عدالت کا قانونی راستہ بہت ہی پُر پیچ ہے۔ آج کل ایک نئی صورتحال ہے کہ مقدمے کا فیصلہ ہو گیا اور سزا بھی سنا دی گئی۔ بڑی عدالت میں اپیل کر دی گئی اور سوشل میڈیا پر خبر چلا دی گئی؟ بے قصور کو اندر کر دیا گیا ہے اور الزام ثابت نہیں ہو سکے گا۔ پھر جیل بھی ایسی کہ رشک آئے کہ کیا موج ہے۔ جب ملک میں ایسی کیفیت ہو،ملک معاشی طور پر کمزور ہو، قرضوں کے بوجھ نے آزادی کو دائو پر لگا رکھا ہو، ہمسایہ کے ساتھ آپ جنگ کی حالت میں اور ملک بھر کے سیاسی لوگ یکجا ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو گرانے کے لئے آئے دن آپس میں ہی گالم گلوچ کر رہے ہوں اور پھر سب یک زبان ہو کر نعرہ مستانہ لگاتے ہوں کہ ملک کی ترقی اور بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ وہ جمہوریت جو کم از کم گزشتہ دس سال سے پاکستان میں باری باری کا کھیل بن گئی ہو جس کا اسمبلی کو بھی اندازہ نہ ہو کہ قرض کیوں لیا اور کس طرح ادا کیا جائے گا۔ ملکی اثاثے قرضوں کے باعث اپنی حیثیت میں کمزور ہو رہے ہوں اور جمہوریت پسند ملکی معاشی بدحالی اور بدانتظامی کا واحد حل نئے انتخابات قراردے رہے ہوں ایسے میں جنگ کی بات کرنا اور تیاری میں کچھ نہ کرنا صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جو صورتحال ہے وہ پاکستان کےہی نہیں پوری دنیا کے لئے بھی تشویشناک ہے مگر بھارتی نیتا بھارت کا سیکولر چہرہ بدلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت کی معاشی حالت بھی پاکستان سے زیادہ اچھی نہیں۔ وہاں بھی کاروباری لوگ سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں بنیادی حقوق کے معاملے میں مسلسل نظر انداز ہو رہی ہیں۔ بھارت یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ ایک تو اس کو چین کی طرف سے مسلسل خطرہ ہے۔ دوسرے پاکستان اور اس خطے کے دوسرے ممالک سی پیک منصوبےمیں دلچسپی لے رہے ہیں اور چین کو بھی احساس ہے کہ سی پیک اب ضروری ہو گیا ہے۔ اس وقت جب پاکستان کی حکومت کشمیرکے معاملے پر بھارت سے معاملہ طے کرنے کے لئے پوری تیاری میں ہے ملک کے اندر سیاسی بے چینی نمایاں ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ملک میں معاملہ فہمی سے کام لیا جائے اور کسی بھی تناظر میں سرکار کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا ضروری ہے۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر پابند سلاسل ہیں۔ ان پر کرپشن کا الزام ہے۔ چین کے ساتھ معاملے طے کرنا ضروری ہے اور سی پیک پر جتنی جلدی کام شروع ہو اتنا ہی اچھا ہے اور ضروری بھی۔ پاکستان اس وقت بھی سہارے اور دوست تلاش کر رہا ہے، سہارے عموماً کمزور اور کھوکھلا کر دیتے ہیں اسی طرح امیدیں کمزور کر دیتا ہے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر جینے کی کوشش ضروری ہے۔ اپنی طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ باعث حیرت ہے۔

حیرت ہے اب کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی

تازہ ترین