• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شہادت امام حسینؓ اور مسلم امہ کیلئے پیغام‘‘

سید علی جیلانی، سوئٹزرلینڈ
دنیا میں بے انتہا ناقابل فراموش واقعات گزرے ہیں جن کو ہم بھول نہیں سکتے اور ہر سال ان کی یاد بھی منائی جاتی ہے لیکن جس طرح واقعہ کربلا ہر سال ہمارے قلب و نظر میں سماتا ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ اگر واقعہ کربلا محض تاریخ کا ایک باب ہوتا تو اس کی یاد اتنے برس گزرنے کے بعد ہمارے قلوب میں غم و افسوس کے جذبات اور ہماری رگوں میں ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کی گرمی نہ پیدا کرتی مگر واقعہ کربلا محض تاریخ کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ کسوٹی ہے جس پر ہردور کا انسان پرکھا جائے گا یہ ایک مسلسل عمل ہے جو ہر زمانے میں حق و باطل کی قوتوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ محرم الحرام کا مہینہ ہمیں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو دین محمدی کی بقا کا باعث ہے، آپؓ نے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب و اقربا کے ساتھ جو عظیم الشان قربانی پیش کی تاریخ اسلام میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی، آپؓ نے دین اسلام کی سربلندی اور اعلائے حق کے لئے اپنی جان کی قربانی دی۔ حضرت امام حسین نے دین کی بنیادی اقدار اور سچائی کے اظہار کے لئے میدان کربلا میں اپنا اور اپنی اولاد کا خون دے کر دین اسلام کو بچایا آپ کی عظیم قربانی معراج درس گاہ انسانیت ہے۔ واقعہ کربلا نے انسانیت کو جینے کا سلیقہ سکھایا اور ظالم و جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ بخشا۔ سانحہ کربلا حق و باطل کے درمیان ایک لکیر ہے جو دونوں کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ حضرت امام حسین نے میدان کربلا میں اپنا چھ ماہ کا شیرخوار قربان کیا، کڑیل نوجوان علی اکبر، بھانجے، بھتیجوں دوستوں کو قربان کیا تین دن اور تین راتیں بھوکے پیاسے رہے مگر ملوکیت کو قبول نہیں کیا اور اسلام کا پرچم بلند کیا۔ آیئے ان مقاصد کو دیکھیں جن کے لئے جگر گوشۂ امام عالی مقام اپنے چہیتوں کو لے کر میدان کربلا میں آئے۔ عرب کے تمدن میں قانون کا صرف ایک اصول تھا وہ تھا صرف ’’طاقت‘‘ طاقت جواز زندگی تھی اور کمزوری و غریب کے لئے معاشرتی حقوق تو درکار خود اپنے وجود پر اختیار ناممکن تھا رنگ و نسل زبان قبائل اشرافیت کی دلیل تھے۔ ہر وہ فعل جس سے عقل و فطرت کراہیت کرتی تھی عرب تمدن کا حصہ تھا ایسے میں رسول اکرمؐ کے لئے انسانیت کی طرف مائل کرنا مشکل کام تھا لیکن کائنات کے معجزوں میں ایک معجزہ تھا کہ رسول اکرمؐ کی تربیت سے عرب کا معاشرہ شرافت انسان کے مرکز کی طرف واپس آگیا جس وقت دولت سمٹ سمٹ کر حضوراکرمؐ کے قدموں میں آرہی تھی آپ کی دولت دنیا کی طرف سے ایسی بے اعتنائی تھی کہ صبح جمع ہونے والا پیسہ شام ہونے سے پہلے غریبوں میں تقسیم ہوجاتا اور لوگ دیکھتے کہ سرکار کے گھر میں وہی بوسیدہ پردہ پڑا ہے اور کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا۔ مگردور یزید میں حضرت امام حسین دیکھ رہے تھے کہ اسلام کی شناخت کی تمام تصویریں مٹائی جارہی ہیں۔ بادشاہ سلامت کے منہ سے نکلے فقرے اسلام کی راہ میں تاویلیں بن رہے ہیں۔ شریعت اسلام بادشاہ کی من مانی تاویلوں اور احکام کی زد میں تھی ان سب باتوں کا خوف ناک پہلو یہ تھا کہ حکمراں اپنی حکومت کو اسلامی کہلاتے اور ان کا فرمایا ہوا اسلامی قانون کا حصہ سمجھا جاتا اور آہستہ آہستہ سرے سے دین کی حقیقت کا خاتمہ ہونا شروع ہوگیا ہے اس بات کو نواسۂ رسول کیسے برداشت کرسکتے تھے اللہ کے دین کو جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی محنت شامل ہو یا مسمار ہوتا دیکھیں۔ امام حسین کا وہی مقصد تھا جس کے لئے آدم سے لیکر آخری نبی تک ہر نبی نے مصبیتیں جھیلیں اور وہ مقصد نجات انسانیت تھا۔ امام حسین چاہتے تھے کہ لوگوں میں قوت احساس اور جرآت بحال ہو اور وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ احکام الٰہی کی روشنی میں کریں اور اسلام کے اصول اس طرح روشن ہوں کہ کسی کا انفرادی عمل اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بن سکے۔ آپ یزید کے خلاف فوج جمع کرکے مقابلہ کرسکتے تھے لیکن اس صورت میں یہ جنگ محض اقتدارکے خواہش مند دو افراد کے درمیان جنگ بن جاتی اور یہ بھی ممکن تھا کہ آپ یزید کے اقتدار کو ختم کردیتے مگر اس صورت میں یزید ختم ہوجاتا یزیدیت نہیں۔ افراد بدلتے ذہنیت نہیں، آپ کا مقصد ذہنیت بدلنا تھا وہ ملوکیت کے چہرے سے اسلام کی نقاب نوچنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ظلم کے مقابلے میں مظلومیت کا ہتھیار استعمال کیا۔ حسین ایک ایک یزیدیت کے مقابل بھیجتے رہے تاکہ کردار نظر آئے اور بالآخر ظلم کے چہرے سے آخری نقاب اتارنے کے لئے جھولے میں لیٹے بچے کو بھی لے کر آئے اور پھر خود گردن زیرشمشیر رکھ دی اب کسی کو اسلام کے ابدی اصولوں کو مسمار کرنے اور اپنی خواہشات کو دین کا نام دینے کی ہمت نہیں ہوگی۔ روز عاشور کا سورج کچھ دیر کے لئے چمکا اور ایسا چمکا کہ اس دن کی روشنی اور جگمگاہٹ ساری دنیا میں پھیل گئی یہ محض عاشور کا کرشمہ ہی ہے کہ ہر ستم کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی ستم شکن پیدا ہوجاتا ہے یہ اسی دن کا درس ہے جو ساری دنیا میں پڑھا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس دن کی ہیبت نے ہر چھوٹے بڑے ظالم کو لرزا کر رکھ دیا یہ روز عاشور کی ہی صدا ہے جو صدیاں گزرنے کے باوجود مظلوم انسانوں کی سرزمین افریقا میں بلندہوتی ہے کبھی ایشیا میں کبھی فلسطین اور لبنان میں سسکیوں کے ساتھ لرزتی ہے تو کبھی کشمیر میں درندہ صفت انسانوں کے ظلم و ستم کے خؒلاف احتجاج کرتی ہے یہ وہ ہی صدا ہے جو کربلا میں امام حسین نے ظلم و ستم، بربریت اور استعماری طاقتوں کے خؒلاف بلند کی تھی آپ نے ظلم کے آئین کو توڑ دیا اور ظلم اور ظالم کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت اور ذہنوں میں شعور اجاگر کردیا۔ آپ نے ایک مکتب فکر کی بنیاد رکھی ایک ایسا مکتب جو قربانی، صبر اور جاں نثاری کا سبق دیتاہے۔ ایثار اور بہادری کی تعلیم دیتا ہے، عام مفہوم میں امام حسین غریبوں کا سہارا، مجاہدوں کی طاقت، شریعت کے پاسبان اور شریعت محمدی کے حقیقی نگراں ہیں، آپ نے یہ بھی درس دیا کہ خودغرضی اور ذاتیات کی وجہ سے نہیں بلکہ مظلوموں کے حقوق کی حفاظت اور ان لوگوں کی حفاظت کے لئے لڑنا چاہئے جو بے انصافی کا شکار ہیں۔ آج امت مسلمہ پھر ایک امام حسین کی منتظر ہے، کیا ان کے لئے ایک امام حسین کافی نہیں جس نے ہمیں تمام راہیں دکھادیں ہم مساوات اور اتحاد کو پیچھے چھوڑ گئے ہم آج بھی اپنی عوام پر ظلم کرتے ہیں ان کے حقوق پورے نہیں کرتے۔ آج کشمیر کی صورتحال دیکھ لیں مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 30روز سے تمام کشمیری بھائی اذیت میں متبلا ہیں کرفیو لگا ہوا، پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ کشمیریوں کا دنیا سے رابطہ کٹا ہوا ہے، ساڑھے چار ہزار سے زائد کشمیریوں پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کردیا ہے۔ آر ایس ایس اور شیوسنا کے غنڈے کشمیر میں آگئے ہیں۔ لیکن بھارت کے ساتھ بڑی قوتیں کھڑی ہیں اگر یہ حالات کسی کرسچن ملک میں ہوتے اور کرسچنوں اور ہندوئوں کو 30سے زائد دنوں تک گھروں میں محصور کیا ہوتا تو آج پوری دنیا چلا رہی ہوتی۔ حضرت امام حسین کا پیغام یہ ہی ہے کہ جہاں ظلم ہو اس کے لئے آواز بلند کرو آج ہمیں جہاد کشمیر کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ شہادت امام حسین کا اہم پیغام یہ ہے کہ امت مسلمہ میں وحدت، یگانگت اور یک جہتی کا تصور پیدا ہو۔ امت مسلمہ کو تباہی و ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچانے اتحاد امن رواداری کو اپنانا ہوگا۔ آج اگر تمام مسلم امہ ایک ہوتی تو کیا بھارت کشمیریوں پر ظلم کرسکتا تھا نہیں ہرگز نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو اسکے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے۔ کاش دنیا حضرت امام حسین کے پیغام اور ان کی تعلیم اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔
حسینؓ قوت اسلام کی علامت ہیں
حسین دین محمدؐ کی اصل حرمت ہیں
تازہ ترین