اسلام آباد (طارق بٹ) وفاقی وزارت قانون کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں کی جانے والی ترامیم کا مسودہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھیج کر اس کی بہتری کیلئے ان سے تجاویز طلب کرلی گئی ہیں۔ اس پیشرفت کا علم رکھنے والے ایک سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ مسودہ وزارتوں اور ڈویژنز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ان کی آراء اور تجاویز کیلئے بھیج دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آراء یا تجاویز ہوئیں تو وزارت قانون انہیں حاصل کرنے کے بعد مسودے پر مزید کام کرے گی۔ اگرچہ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اشارہ دیا ہے کہ اگر حزب اختلاف کے ساتھ کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا تو ان ترامیم کو نافذ کرنے کیلئے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے گا، قومی احتساب آرڈیننس میں تبدیلیاں شامل کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی جلدی نظر نہیں آتی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی بھیجا جائے گا تاکہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے وہ دیکھ سکیں اور حکومت کے ساتھ اس پر بات کرسکیں۔ اس مسودے کے مطابق تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر ملزم ضمانت کا اہل ہو گا، احتساب عدالت کو ملزمان کی ضمانت قبل از اور بعد از گرفتاری لینے کا اختیار ہو گا، پلی بارگین اور رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے 10 سال کے لیے کسی عہدے یا ملازمت کے لیے نا اہل ہوں گے، نیب قانون کا اطلاق کسی ایسے نجی شخص یا کمپنی پر نہیں ہوگا جس کا تعلق کسی پبلک آفس ہولڈر سے نہ ہو، نیب کو 50 کروڑ سے کم کے کرپشن معاملات پر کارروائی کا اختیار نہیں ہوگا وغیرہ۔ سرکاری ترامیم کے بعد پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے سینیٹ میں ایک پرائیوٹ ممبر کا بل پیش کیا اور قومی احتساب آرڈیننس میں کئی تبدیلیوں کا مشورہ دیا۔
انہوں نے تجویز کیا کہ نیب میں صرف ایسے کرپشن کیس کی تحقیقات کی جائیں جس کی کم سے کم مالیت 50 کروڑ روپے ہو، ایسےاثاثوں پر ریفرنس ہوں جو بدعنوانی اور غیر قانونی طریقے سے حاصل کیے ہوں، نیب کے قانون میں زیر حراست تحقیقات نہیں ہونی چاہئیں، گرفتاری کااختیار چیئرمین نیب کے پاس نہیں بلکہ عدالت کے پاس ہونا چاہیے، جس عدالت کو مقدمے کیلئے ریفرنس بھیجا جائے وہ طلبی یا وارنٹ جاری کرسکے گی، نیب عدالتوں کو ضمانت دینےکا اختیار حاصل ہوگا اور ملزم کو وعدہ معاف گواہ پر جرح کا موقع فراہم کیا جائے گا، نیب افسران ریفرنس دائر ہونے سے قبل میڈیا پر کوئی بیان نہیں دیں گے، عوامی بیانات دینے پر ایک سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔