• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب تک پولیس ریفارم نہیں کریں گے بہتری نہیں آئے گی، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ “ میں میزبان ابصا کومل نے سوال کیا کہ پاکپتن میں پولیس اہلکار کا بزرگ شہری پر تشدد، ڈی پی او تبدیل لودھراں سے بھی پولیس تشدد کا کیس سامنے آگیا ویڈیو وائرل ہوا، کیا پنجاب پولیس میں بہتری کی امید ہے ؟پیپلز پارٹی نے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا محض ایک سال بعد ہی پیپلزپارٹی کی جانب سے کیا یہ مطالبہ درست ہے ؟کے جواب میں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ جب تک پولیس ریفارم نہیں کرینگےبہتری نہیں آئے گی،کوئی جماعت نہیں چاہتی پولیس کو اختیارات دیں،پیپلزپارٹی کا انتخابات کا مطالبہ درست نہیں ہے۔پروگرام میں حفیظ اللہ نیازی،ارشاد بھٹی ،محمل سرفراز،مظہرعباس اور بینظیرشاہ نے اظہار خیال کیا۔سنیئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ گورننس بری طرح ناکام ہے اور حکومت کے ڈبل اسٹینڈرڈز ہیں اور اس حکومت میں ایسی ایسی چیزیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو کبھی دیکھنے کو نہیں ملیں۔ جہاں تک خیبرپختونخوا کی پولیس کی بات ہے وہاں پنجاب پولیس جیسے مسائل کبھی بھی نہیں تھے وہاں تین مسائل تھے منشیات ، اسمگلنگ اور ناجائز اسلحہ جو آج بھی وہاں پر ہیں خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی ہے۔2016 ءمیں نواز شریف حکومت گرانے میں باپ بیٹا پیش پیش تھے اور بلوچستان حکومت ان کے دم سے نہیں گری سینیٹ الیکشن انہوں نے کراویا ہر جگہ پر یہ ساتھ ساتھ تھے پھر مولانا کو کیوں حق نہیں پہنچتا اور انہی کا تو حق ہے ان کا مذہب سے بھی تعلق ہے مذہبی کارڈ استعمال کیوں نہ کریں۔سنیئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ میں ابھی اس نتیجے پر نہیں پہنچا ہوں کہ ڈی پی او عبادت نثار بوڑھے شخص پر تشدد کی وجہ سے عہدے سے ہٹائے گئے ہیں یا تشدد کی وجہ سے ہٹائے گئے ہیں یا ایک مرتبہ پھر پاکپتن کی سیاسی لیڈر کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں یہ ابھی بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی ہے لیکن یہ وہی ڈی پی او ہیں جنہوں نے کلثوم فاطمہ کو پاکپتن کے تھانہ میں ایس ایچ او لگایا تھا جنہوں نے دو ماہ میں دو سو کیسز نمٹائے تھے یہ وہی ڈی پی او ہیں جہاں تک پولیس میں بہتری کی بات ہے جب تک پولیس ریفارم نہیں کریں گے بہتری نہیں آئے گی۔ کے پی کے پولیس ایکٹ 2017 کے سیکشن سترہ کا سب سیکشن چار ہے اس میں ہے کہ آئی جی حکومت لگائے گی باقی سارے کام آئی جی خود کرے گا تبادلے تقرریاں وغیرہ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی نہیں چاہتا۔ پنجاب پولیس ہمیشہ سے سیاست زدہ رہی ہے ۔فروغ نسیم اس بیان سے مقر کر گئے ہیں اور کئی وضاحیتیں پیش کر چکے ہیں کہ یہ مقصد نہیں تھا ۔149-4 میں اگر یہ بات ہوتی بھی تو وفاق نے صرف یہ کہنا تھا کہ کچرا اٹھا لو تو اس میں اتنی کیا بات ہوگئی میں حیران ہوتا جیسے فضل الرحمٰن نے کہا کہ فاٹا انضمام اور مقبوضہ کشمیر اور بلاول بھٹونے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور وفاق اور سندھ بنگلہ دیش سندھو دیش خدا کا خوف کریں۔تجزیہ کار محمل سرفراز نے کہا کہ تحریک انصاف نے وعدہ ضرور کیا تھا کہ اگر حکومت میں آئے تو غیر سیاسی پولیس بنائیں گے لیکن جس دن حکومت میں آئے اُس دن سے ایک کے بعد دوسرا اسکینڈل آجاتا ہے ابھی بھی مبینہ طور پر تین آئی جیز کے بدلنے کی بات ہو رہی ہے ۔کوئی پارٹی نہیں چاہتی پولیس کو اختیارات دیں اور بدقسمتی سے پولیس کو ہمیشہ سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یوں ہی کرتے رہیں گے۔بلاول بھٹو نے کسی قسم کا یوٹرن نہیں لیا ہے وہ بالکل چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے اور رضا ربانی کی بات پارٹی پالیسی نہیں ہے۔بلاول بھٹو کی بات سیاق سباق کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ وقت نہیں ہے اس طرح کی باتیں کرنے کا اور پیپلز پارٹی دھرنے میں بھی شامل نہیں ہوئی ۔ سنیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ مجموعی طور پر سب کے لئے پولیس آرڈر 2002 ء تھا جس کو خیبرپختونخوا نے بہتر بنایا ناصر درانی کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ مجموعی طور پر خیبرپختونخوا میں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ اور اس طرح کے واقعات آپ کو نظر نہیں آئیں گے لیکن گراس روٹ لیول پر وہاں کام ہوئے تھے ۔ پنجاب اور سندھ کا مسئلہ کسی حد تک بلوچستان کا بھی مسئلہ یہ رہا ہے بلوچستان میں تو مشرف کے پریڈ میں لیویز ختم کی گئی تھیں بعد میں جو حکومتیں آئیں انہوں نے لیویز کو بحال کر دیا کیوں کہ سرداروں کا دباؤ تھا۔ اے ڈی خواجہ کا تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے وہ طے کرے گا کہ پولیس کے حوالے سے ہائر کورٹ کی کیا ڈائریکشن ہیں۔پنجاب کے ایک سنیئر پولیس آفیسر نے کہا کہ یہاں جو مسودہ آیا ہے اس کے اندر سے وہ ساری چیزیں نکال لی گئی ہیں جس کی بناء پر پولیس بہت زیادہ طاقتور یا خودمختار ہوسکتی تھی پنجاب میں بھی جو ماڈل آئے گا اس میں گورنمنٹ کا کنٹرول ہوگا ۔اس وقت جو بیرونی حالات ہے نیشنل لیڈرز کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2013 ء جو لایا گیا اس میں بھی تو سندھ گورنمنٹ نے شہری حکومت کے وسائل پر کنٹرول سنبھال لیاہونا یہ چاہیے تھا کہ بلدیاتی اداروں کو امپاور کرنا ضروری ہے سندھ گورنمنٹ بھی اپنے آپ کو ریو کرے۔آرٹیکل 149 بالکل غیر ضروری تھا لیکن سندھ گورنمنٹ کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے اور سیاسی پارٹیز کے منشور میں ہے یہ کہ گراس روٹ لیول تک باڈیز کو امپاور کرنے کی بات ہے لیکن ہوا کچھ اور ہے۔تجزیہ کار بینظیر شاہ نے کہا کہ پولیس ریفارم میں سسٹم اور کلچر کوتبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔پولیس کے کچھ قانون 80,90 سال پرانے ہیں قانون میں تبدیلیاں نہیں آرہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے اس حوالے سے کام شروع کیا ہے یہ قانون کب تک آئے گا ابھی نہیں پتہ۔تحریک انصاف جنوری میں اینٹی ٹارچر بل لائے تھے ابھی تک وہ پاس نہیں ہوا ۔پیپلز پارٹی کا انتخابات کامطالبہ درست نہیں ہے پیپلز پارٹی کا موقف پہلے کچھ اور تھا اب کچھ اور ہے ۔تحریک انصاف کو ٹائم پورا کرنے دیں دیکھیں وہ کتنے وعدے پورے کرتی ہے یا نہیں کرسکتی۔ 
تازہ ترین