• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہر لاہور میں بہار کی آمد آمد ہے۔ رنگ برنگے مسکراتے پھولوں اور مہکی ہواؤں کا یہ حسین موسم جیسے ہی باغوں کے شہر کو چھوتا ہے، لاہور یے طرح طرح سے جشن آمد ِ بہاراں مناتے ہیں۔ میلے ٹھیلے لگتے ہیں۔ باغوں اور پارکوں میں شہریوں کی آمد بڑھ جاتی ہے، مشاعرے ہوتے ہیں، تھیٹروں میں رش بڑھ جاتا ہے۔ ذوقِ طعام سے سرشار اہل لاہور مہکتی شاموں میں بازاری کھانوں سے جوق در جوق لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔ اس مرتبہ آمد ِ بہار الیکشن سپرنگ سے متاثر لگتی ہے۔ شہر میں بہار کا آغاز تحفہ دینے کی دو بڑی منفرد تقاریب سے ہوا۔ ملکی سیاست کے مرکز میں سیاسی پنڈت یہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ تحفہ دینے اور لینے کی یہ دونوں انوکھی تقاریب پورے پاکستان خصوصاً پنجاب کی سیاست پر گہرے نقش چھوڑیں گی اور قریب قریب اترنے والی انتخابی بہار بھی اس سے بہت متاثر ہو گی۔ پہلی تقریب لاہور میں ہوئی صدر زرداری نے اپنی قلعہ نما رہائش کا افتتاح کیا جس کا نام بلاول ہاؤس رکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بلاول زرداری کو مستقبل میں پاکستان کا عوامی بادشاہ بنانے کے لئے گزشتہ سال ماہ نومبر میں پگڑی پہنائی جا چکی ہے، جب انہوں نے ابا حضور صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ بے نظیر کی برسی پر ان کے مزار پر پارٹی قائدین کے ہمراہ حاضری دی تھی گویا مغرب کے جمہوری ملکوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیٹا ماشاء اللہ، پاکستانی جاگیردارانہ جمہوریت کے بل پر عوامی بادشاہ بننے کی راہ پر ہے۔ کٹورے پہ کٹورا، بیٹا باپ سے بھی گورا۔ سیاسی پنڈتوں نے پیش گوئی کی ہے کہ بقول صحافیوں کے، محل کا جو تحفہ صدر مملکت کی خدمت میں پیش کیا ہے، اسے جناب زرداری کی شدید خواہش کے مطابق مستقبل کے لئے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ بنایا جائے گا کیونکہ لاہور عرصے تک پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ رہا ہے جو بلاول کے نانا جان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے متوالے پنجاب کے جیالے ورکرز کی اندھی تقلید اور عملاً مدد سے بنایا تھا۔ اسے 80 کی دہائی کے وسط میں میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی دعاؤں سے فتح کر لیا۔ پھر وفاق کی علمبردار سیاسی جماعت نے اپنا مکمل سیاسی کاروبار ”سندھ کارڈ“ سے ہی چلایا۔ جہاں اب میاں نواز شریف نے بھی نظریں گاڑھ لی ہیں۔ کبھی سندھی قوم پرستوں اور کبھی بھٹو خاندان کی باقیات یا ایم کیو ایم کا لوکل باڈی سسٹم پر اتحادی پی پی سے شدید اختلاف میاں صاحب کو حوصلہ دلاتا رہتا ہے کہ شاید سندھ میں بھی ہماری دال گل جائے، لیکن اس کے لئے انہوں نے آنچ اتنی کم رکھی ہوئی ہے کہ دال حلیم کی مانند پک رہی ہے، حالانکہ ذوالفقار مرزا ، پیر پگاڑا جیسے ماہر کک وہاں موجود ہیں۔ دیکھتے ہیں ادھر لاہور میں شہر اور عوام سے دور جناب زرداری اپنے تحفے میں ملے سیاسی قلعے میں بیٹھ کر اب پنجاب کیسے فتح کرتے ہیں یا قلعے میں ہی رہتے ہیں۔ بھٹو دور میں تو پورا شہر لاہور ہی پی پی کا قلعہ تھا محلہ محلہ اس کے دفاتر تھے اور گلی گلی جلالی جیالے۔ زرداری صاحب نئے قلعے میں ہیلی کاپٹر سے آ جا رہے ہیں۔ جس تقریب میں یہ قلعہ ان کے حوالے کیا گیا اس میں عوام تو عوام میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔یوں موسم بہار میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور صدر مملکت کو محل کا تحفہ ان کے حوالے کرنے کی جو بند بند تقریب شہرسے دور منعقد ہوئی، اس سے جاگیردارانہ جمہوریت کی بدبو لاہوریوں کو موسم بہار میں سونگھنی پڑی۔ خود خاکسار بھی ٹھوکر نیاز بیگ سے ای ایم ای سوسائٹی کا 5منٹ کا سفر، شاہی سواری کی آمد کے باعث 35 منٹ میں طے کر کے گھر پہنچا۔
ایک تو تحفہ دینے کی یہ تقریب تھی، دوسری پارے کی طرح متحرک پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز لاہور کے لاکھوں شہریوں کو میٹرو بس کا تحفہ دیا ہے بلکہ لاہوریوں کو ہی نہیں گوجرانوالہ، شیخوپورہ ، قصور سے روز لاکھوں میں لاہور آنے والے شہری بھی اس جدید ٹرانسپورٹ سسٹم سے آمد و رفت کی بڑی سہولت حاصل کریں گے۔ اربوں کے اِس پراجیکٹ پر بڑی تنقید ہوئی اور جاری بھی ہے، جسے سیاسی رنگ بھی دیا جا رہا ہے۔ خود خاکسار کے کچھ سوالات شہری ماحولیات اور مکمل ٹاؤن پلاننگ کے حوالے سے ہیں جن کا مختصر ذکر میں نے اپنے ایک دو کالموں میں بھی کیا لیکن آوازِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو، اس تقریب کے حوالے سے میڈیا کی جو کوریج دکھائی گئی اس میں لاہوریے اس تقریب میں بلا امتیاز سیاست و پارٹی جوق در جوق پہنچے۔ ایک بڑی جدید سہولت کے حصول پر اُن کے چہروں کی مسرت بہار کی ہواؤں اور مہک کو بڑھاتی ہوئی واضح نظر آئی۔ یہ پراپیگنڈہ بھی حکومتی دعوے کے طور پر سامنے آ گیا ہے کہ اس پر 35ارب روپے ہی خرچ ہوئے ہیں جبکہ منصوبے کا سیاسی دماغ سے تجزیہ کرنے والے صحافی اس کی لاگت 80 سے 100 ارب روپے تک بتاتے رہے۔ ابتدا اور افتتاح پر جو مسرت شہریوں کے چہروں پر نظر آئی شاید وہ نیک نیتی سے تنقید کرنے والوں سے بھی زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ تو امر واقعہ ہے کہ غریب اور عام شہری اشیائے خوراک کی مہنگائی سے بھی زیادہ ذرائع آمد و رفت کے ناقابل برداشت نرخ اور ان کے انتہائی محدود اور تکلیف دہ ذرائع سے سخت پریشان ہے۔ پھر اس پراجیکٹ کو یوں بھی تو دیکھا جائے کہ ملک اس وقت بحیثیت مجموعی شدید اقتصادی بحران، مہنگائی اور قلت توانائی کا شکار ہے۔ ایسے میں اتنے بڑے پراجیکٹ کی 11ماہ میں تکمیل اور اس کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کو مسلسل روزانہ فائدہ یقینا میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کی علامت ہے، لیکن وہ یہ ضرور یاد رکھیں کہ Participatory approach اختیار کر کے اِسی گڈ گورننس اور اپنی قابل تحسین کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ اپروچ ہی ترقی ٴ جاریہ کی ضمانت ہے، وگرنہ وقفے وقفوں سے ترقیاتی پراجیکٹ مکمل ہو سکتے ہیں، عوام کی فلاح بھی ہو گی لیکن راہ مستقیم Participatory Approach ہی ہے جو موجودہ عوام دوست پنجاب حکومت کی کمی ہے اور اس پر وہ ہدف تنقید بھی بنتی رہی لیکن میاں صاحب کے فلاح عامہ کے جذبے اور عمل کو سلام اور لاہوریوں کو بھی جدید سفری سہولت ملنے پر مبارکباد۔ اس تحفے کو حسین تر بنانے کے لئے بھی خاکسار کا ایک مشورہ۔ اب لاہور کی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی فیروز پور روڈ پر بنے طویل فلائی اوور برج اور میٹرو بس کے جنگلے کے ساتھ ساتھ سبزہ لگا کر اسے پھولوں اور بیلوں سے ڈھانپنے کا چیلنج قبول کرے تو شہر میں تعمیر ہونے والا یہ بھاری بھرکم انفراسٹرکچر جسے طنزاً دیوار برلن کہا جا رہا ہے، شہر کے ایک بڑے سامانِ راحت میں تبدیل ہو جائے گا۔ مختصراً یہ کہ اربوں روپے سے اب جو بن گیا ہے اور جس پر شہریوں کا ابتدائی ردعمل خوش کن ہے، اسے زیادہ سے زیادہ قدرتی ماحول سے اور خوش کن بنا دیا جائے۔ اب اس پراجیکٹ پر تنقید کرنے والے سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس میں توانائی ضائع کرنے کی بجائے انتخاب سے پہلے پہلے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کے قابل عمل منصوبے سامنے لائیں اور صرف لاہوریوں کے نہیں سب پاکستانیوں کے دل جیتیں۔
تازہ ترین