• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متوفیہ لبنیٰ سول سنڈیمن اسپتال میں زیر علاج نہیں رہی،ایم ایس

کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر) ایم ایس سول سنڈیمن اسپتال کوئٹہ ڈاکٹر محمد سلیم ابڑو نے کہا ہے کہ متوفیہ لبنیٰ سول سنڈیمن اسپتال میں زیر علاج نہیں رہی اور نہ ہی طبی امداد کیلئے رجوع کیا تھا،سول اسپتال کا شعبہ ہنگامی امداد چوبیس گھنٹے فعال ہے،سوشل میڈیا میں اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا جو قابل افسوس ہے تسلسل کے ساتھ سول سنڈیمن اسپتال کوئٹہ کوسوشل میڈیا میں اسکینڈلائزڈ کرنے پرایف آئی اے کے زریعے کارروائی کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بات انہوں نے پریس کانفرنس میں کہی ، اس موقع پر آر ایم او جنرل ڈاکٹر زبیر ، ڈپٹی میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر جاوید ، پیرامیڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر شفا مینگل اور ترجمان سول سنڈیمن اسپتال ڈاکٹر محمد وسیم بیگ بھی موجود تھے۔ ایم ایس ڈاکٹر محمد سلیم ابڑو نےکہا کہ بلوچستان میں صحت کے شعبے میں ہونے والی اصلاحات کو ناکام بنانے اور حکومت کی کردار کشی کے لیے ایک مخصوص مافیا تسلسل کے ساتھ سوشل میڈیا پر سرگرم عمل ہے جس کا مقصد وزیر اعلیٰ بلوچستان کے وژن اور وزیر صحت و سیکرٹری صحت بلوچستان کے مثبت اقدامات کو سبوتاژ کرنا ہے ، سول سنڈیمن اسپتال طبی خدمات کی فراہمی کے لیے بھرپور خدمات انجام دینے میں پیش پیش ہے ، لبنیٰ نامی خاتون سے متعلق سول سنڈیمن اسپتال کو انہی عناصر نے اسکینڈلائزڈ کیا جو اصلاحات کے عمل سے نالاں ہیں ،متوفیہ لبنیٰ سے متعلق معلومات اکھٹی کرلی گئی ہیں اور لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 45 سالہ متوفیہ لبنیٰ سکھر کی رہائشی تھی ، جو 2008 میں لاہور شفٹ ہوگئی تھی ان کے والد کوئٹہ میں اسپیئر پارٹس کے کاروبار سے وابستہ رہے۔ لبنیٰ 1990 تا 1992 کوئٹہ میں زیر تعلیم رہیں جبکہ ان کی دیگر دو بہنیں بھی یہیں زیر تعلیم رہیں، متوفیہ نے 1999 میں نرسنگ جوائن کی اور 2011 میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات طے نہیں کہ انہیں کوئی مردہ حالت میں اسپتال میں چھوڑ گیا یا زندہ تھی ۔ تاہم جب ڈاکٹر نے ابتدائی چیک اپ کیا تو ان کی موت کو چند گھنٹے ہوئے تھے۔ موت کی وجہ جاننے کے لیے ڈیڈ باڈی کے نمونے لیکر لیب بھجوائے گئے ہیں جن کی رپورٹ آنے پر تفصیلات سے آگاہ کرسکیں گے۔ تاہم ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متوفیہ کے جسم پر تشدد کے نشان نہیں پائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام اس بات کی تحقیقات کررہے ہیں متوفیہ کہاں زیر علاج و رہائش پذیر رہیں ۔
تازہ ترین