• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی ادارہ شماریات کی رواں برس 11 جنوری کو جاری کردہ’’ لیبرفورس سروے رپورٹ 2017-2018 ء‘‘ کے مطابق، پاکستان میں بے روزگار افراد کی تعداد میں ایک لاکھ 70 ہزار کا اضافہ ہوا، جس کے بعد اُن کی تعداد بڑھ کر 37 لاکھ 90 ہزار ہوگئی، جب کہ پاکستان میں لیبرفورس کی تعداد 6 کروڑ55 لاکھ ہے۔نیز، اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے’’ یونائیٹڈ نیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی آبادی کا 64 فی صد 30 سال سے کم عُمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، جب کہ 29 فی صد کی عُمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔علاوہ ازیں، پاکستان میں 77 فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

ہنر سیکھیے، روزگار پائیے
خاقان سکندر

اِن رپورٹس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری کی صُورتِ حال کس قدر تشویش ناک ہے اور پھر یہ بھی کہ اِس عفریت کا سب سے بڑا نشانہ نوجوان ہیں، جو ایک طرف ہاتھوں میں تعلیمی اسناد تھامے ایک سے دوسرے دفتر کی سیڑھیاں اُترنے پر مجبور ہیں، تو دوسری طرف، نوجوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جن کے پاس ایسا کوئی ہنر نہیں، جس کی مدد سے وہ اپنی روزی، اپنے ہاتھوں سے کما سکیں۔اِن حالات نے جہاں نوجوانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو طرح طرح کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے، وہیں بے روزگاری سے تنگ بہت سے نوجوان غلط راہوں پر بھی چل نکلتے ہیں۔ تاہم، اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں دیے بھی روشن ہیں، جو اِن اندھیروں سے لڑنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، اُن میں سے ایک’’ اَمن فاؤنڈیشن‘‘ بھی ہے، جو گزشتہ دَس برسوں سے نوجوانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر کار آمد شہری بنانے کے مشن پر گام زن ہے۔

’’ امن فائونڈیشن‘‘ کے بنیادی طور پر دو شعبے ہیں، ایک ہیلتھ اور دوسرا ایجوکیشن۔ ہیلتھ کے حوالے سے تو ہمیں اس کی ایمبولینسز شاہ راہوں پر دَوڑتی نظر آتی ہیں، مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ فاؤنڈیشن، پاکستان کا سب سے بڑا ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی چلاتی ہے، جسے’’اَمن ٹیک‘‘ کہا جاتا ہے۔ہماری دِل چسپی کا مرکز یہی انسٹی ٹیوٹ تھا۔اپنے ساتھیوں نوید احمد اور اُسامہ صدیقی کے ساتھ کورنگی پہنچے، تو فاؤنڈیشن کے سینئر مینیجر مارکیٹنگ اور کمیونی کیشنز، مرتضیٰ عبّاس رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ اُنھوں نے نہ صرف یہ کہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے مختلف شعبہ جات، ورکشاپس دِکھائیں، بلکہ اُن کے بارے میں تفصیلاً معلومات بھی فراہم کیں’’ ہم دس سے بارہ اسکلز میں چھے ماہ کے کورسز کرواتے ہیں، جن میں میٹرک پاس بچّوں کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ اور ہم صرف کورسز ہی نہیں کرواتے، طلبہ کو روزگار بھی دِلواتے ہیں، بلکہ ہم ہمارا زیادہ فوکس اِسی بات پر ہے۔ یہاں کے پاس آؤٹ طلبہ میں سے 70فی صد مختلف اداروں میں ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب رہتے ہیں، نیز اُن میں سے 30فی صد بیرونِ مُلک چلے جاتے ہیں، جہاں اُنہیں روزگار کے زیادہ اور بہتر مواقع حاصل ہوتے ہیں۔‘‘’’ خود پڑھا کر، خود ہی سرٹیفکیٹس جاری کردیتے ہیں، تو اُس کی کیا اہمیت ہوتی ہوگی؟‘‘ اِس سوال پر اُن کا کہنا تھا’’ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ 

ووکیشنل ایجوکیشن کے نام وَر ادارے طلبہ کا امتحان لیتے ہیں اور پھر اُنہیں سرٹیفکیٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم کورسز کے دَوران عملی کاموں پر زیادہ توجّہ دیتے ہیں۔ 80فی صد پریکٹیکل اور20 فی صد تھیوری ہوتی ہے۔ طلبہ چار ماہ’’ امن ٹیک‘‘ میں پڑھتے ہیں اور دو ماہ انڈسٹری سے عملی تجربہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘نصابِ تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہمارے ہاں ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے، ووکیشنل ایجوکیشن میں تو اس کی یوں بھی زیادہ اہمیت ہے کہ انڈسٹری کے تقاضے سمجھے بغیر پُرانے اور رٹے رٹائے مضامین پڑھنا، نہ پڑھنے کے برابر ہے۔ ہم نے اسی سے متعلق سوال کیا، تو مرتضیٰ عبّاس نے بتایا’’ ہم مارکیٹ کی ضروریات مدّ نظر رکھتے ہوئے نئے کورسز متعارف کرواتے ہیں، تو بعض اوقات کئی کورسز ختم بھی کر دیتے ہیں۔ ہر چھے ماہ بعد انڈسٹری کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اپنے تجربات اُن سے شیئر کرتے ہیں، اُن کی ضروریات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں اور پھر اُن کے مشوروں سے آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرتے ہیں۔ یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو، ہم پُرانی چیزیں ہی پڑھاتے رہیں اور انڈسٹری آگے نکل چُکی ہو۔‘‘

ہنر سیکھیے، روزگار پائیے
مرتضیٰ عباس

یہاں کروائے جانے والے کورسز کی تفصیل تو خاصی طویل ہے، مگر مرتضیٰ عبّاس نے اُن کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا’’ ہمارے ہاں سب سے بڑا شعبہ آٹو موبائل کا سب سے بڑا شعبہ ہے اور اس کی ڈیمانڈ بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کورس میں پوری گاڑی کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ اس شعبے کی پانچ ورکشاپس ہیں، جن میں سے آٹو باڈی پینٹ کی ایک ورکشاپ ٹویوٹا نے دی ہے۔ اِسی طرح ایک اور اہم شعبہ میٹل ورکس کا ہے، جس میں لوہے کے ٹکڑوں کو کارآمد اشیاء میں ڈھالنا سِکھایا جاتا ہے۔ اس میں طلبہ کو ہینڈ کٹنگ تیکنیک سے لے کر مشین کے استعمال تک کا طریقہ سِکھا دیا جاتا ہے۔ ویلڈنگ اینڈ پائپ ورکس کا شعبہ بھی قائم ہے۔ پاکستان میں تو تین، چار اقسام ہی کی ویلڈنگ ہوتی ہیں، جب کہ دنیا میں اس حوالے سے 9،10طریقے استعمال ہوتے ہیں اور ہم وہ تمام طریقے سِکھاتے ہیں تاکہ بیرونِ مُلک جانے والوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنے پڑے۔ ہم نے روبوٹکس ٹریڈ بھی متعارف کروایا۔ دراصل، پیناسونک کمپنی نے کچھ آلات بنائے تھے، جو گاڑی کی تیاری کے دَوران ویلڈنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک روبوٹ پانچ افراد کے برابر کام کرتا ہے، اِس لیے انڈسٹری نے اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لے تو لیا، مگر اُنھیں آپریٹ کرنے والے موجود نہیں تھے۔ وہ ہمارے پاس آئے، پھر ہم نے مل کر یہ ورکشاپ بنائی، جس میں آلات کمپنی ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ یوں ہم کورس کی تکمیل پر طلبہ اور روبوٹ، دونوں انڈسٹری کو دیتے ہیں، جس سے سب کو فائدہ ہو رہا ہے۔

ہمارے ہاں پلمبنگ ورکشاپ بھی قائم ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ رقم وصول کرنے والی ٹریڈ ہے، مگر بدقسمتی سے اِس شعبے میں داخلے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، کیوں کہ لوگ اِس کام کو اچھا نہیں سمجھتے۔ نیز، ہم نے کارپینٹری، ائیرکنڈیشنرز، سینٹرلائزڈ اے سی پلانٹس وغیرہ کی بھی ورکشاپس قائم کر رکھی ہیں۔ پیرامیڈیکس کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں، جس کے لیے ہمیں مختلف عالمی اور مُلکی اداروں کی معاونت حاصل ہے۔ پھر یہ کہ ہم طلبہ کی اخلاقیات پر بھی بھرپور توجّہ دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ کو ،خواہ اُن کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو، سافٹ اسکلز کلاسز لینا پڑتی ہیں۔ ان کلاسز میں کمیونی کیشن، ڈریسنگ، میٹنگ تیکنیکس وغیرہ سِکھائی جاتی ہیں۔ مسائل سے کیسے نمٹنا ہے؟ سینئرز سے کیسا رویّہ ہونا چاہیے؟ سی ویز کیسے بنائے جاتے ہیں؟ مائنڈ میپنگ کس طرح کرنی ہیں؟ اس حوالے سے طلبہ کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ نیز، کمپیوٹر کا استعمال اور انگریزی زبان بھی سِکھائی جاتی ہے۔ یوں ہم ورکشاپ میں اُنھیں ہنر مند لیبر بناتے ہیں، تو ان کلاسز میں اُنہیں ایک مہذّب انسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘’’ ان کورسز کی فیسز تو بہت زیادہ ہوں گی؟‘‘ ہمارے سوال پر اُنھوں نے بتایا ’’ابتدا میں ہم ان کورسز کے لیے کوئی فیس وصول نہیں کرتے تھے، لیکن طلبہ نے مفت سمجھ کر انھیں سنجیدہ نہیں لیا۔

اِس لیے مجبوراً فیس مقرّر کرنا پڑی، جو مارکیٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہم ماہانہ ایک ہزار سے ڈھائی ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں، جب کہ ایک طالبِ علم پر سال میں اوسطاً ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔‘‘ ہم نے وہاں بہت سی لڑکیاں آتی جاتی دیکھیں، تو اُن سے متعلق بھی ایک سوال پوچھ لیا، جس پر اُنھوں نے بتایا’’ کئی برس قبل ہی لڑکیوں کے لیے انڈسٹریل اسٹیچنگ کا کورس شروع کردیا گیا تھا، جس کے لیے یونس ٹیکسٹائل ملز نے نہ صرف ورکشاپ بنا کر دی، بلکہ 300 لڑکیوں پر مشتمل پورے بیج کو ملازمت بھی فراہم کی۔نیز، لڑکیوں کو کمپیوٹر اور آفس اسسٹنٹ وغیرہ کے کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ پِک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جاتی ہے۔ گو کہ ہمارے ہاں داخلے کے لیے میٹرک پاس ہونا شرط ہے، مگر ہم نے ایک پراجیکٹ میں اَن پڑھ لڑکیوں کو بھی داخلہ دیا تھا،جنھیں 5 ہزار وظیفہ بھی دیا گیا۔ اس کے ساتھ، اُنہیں اُردو، حساب وغیرہ کی تعلیم بھی دی گئی۔‘‘طلباء و طالبات کی تعداد سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ’’ 1200کے قریب طلبہ ہمارے مختلف اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ دراصل، ہم فنڈنگ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، یعنی ہمیں جتنے طلبہ کے لیے فنڈز میّسر ہوتے ہیں، اُسی قدر داخلے دیتے ہیں۔ ‘‘

مختلف شعبوں کے وِزٹ کے بعد’’ امن فاؤنڈیشن‘‘ کے جی ایم، اسٹریٹیجک آپریشن، خاقان سکندر سے ملاقات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا’’ہم پچھلے 10 برسوں سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ عام طور پر این جی اوز کے مالی معاملات پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں، تاہم ہم نے اپنے حسابات انتہائی شفّاف رکھے ہیں۔ معتبر اداروں سے آڈٹڈ حسابات ہماری ویب سائٹ پر موجود ہیں، جنہیں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔‘‘ فاؤنڈیشن اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے سے متعلق بھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں سُننے میں آتی ہیں۔ اس حوالے سے اُنھوں نے بتایا’’عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایک لاکھ کی آبادی پر ایک جان بچانے والی گاڑی کا ہونا ضروری ہے، اِس لحاظ سے کراچی میں کم ازکم 200گاڑیاں ہونی چاہئیں، جب کہ ہمارے پاس محض 60 گاڑیاں ہیں۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ تعلیم و صحت سے متعلق پہلے ادارے قائم کیے جائیں، پھر حکومت یا دیگر اداروں سے مل کر اُنہیں مضبوط اور وسیع کیا جائے، اِسی سوچ کے پیشِ نظر ہم نے ایمبولینس سروس کے لیے حکومتِ سندھ سے معاہدہ کیا تاکہ سروس کو وسعت دی جا سکے۔ جب کہ شعبۂ تعلیم میں بھی مختلف اداروں سے معاونت حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم واضح رہے، اِن تمام اداروں کو ہم ہی چلا رہے ہیں، حکومت اور دیگر ادارے ہمیں محض مالی اور فنی سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔

جیسے انڈس اسپتال یا ایس آئی یو ٹی کو گرانٹ ملتی ہے، اسی طرح ہمیں مل رہی ہے۔ ہم سندھ حکومت کو کریڈٹ دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپریشنل معاملات میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔‘‘ ’’بہت سے اداروں کی ایمبولینس سروسز فعال ہیں، تو’’ امن فاؤنڈیشن‘‘ کی ایمبولینس سروس اُن سے کس طرح مختلف ہے؟‘‘ اِس پر سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ دیکھیے، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایمبولینس صرف وہ ہوتی ہے، جو جان بچانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ صلاحیت دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ کیا اُس میں ضروری آلات اور ادویہ موجود ہیں؟ اور دوم یہ کہ کیا ایمبولینس میں موجود عملہ تربیت یافتہ ہے؟ اس تعریف پر صرف ہماری ہی ایمبولینسز پوری اُترتی ہیں یا پھر ریسکیو 1122کی ایمبولینسز بھی معیاری ہیں۔ اسی لیے ہماری ایمبولینسز کو ’’جان بچانے والی گاڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 200سے زائد بچّے ہماری ایمبولینسز کے اندر پیدا ہوچُکے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری ایمبولینسز میں کس نوعیت کی سہولتیں ہوتی ہیں اور عملہ کتنا تربیت یافتہ ہے۔

ہماری سروس پہلے ’’اَمن ایمبولینس‘‘ کے نام سے تھی، تاہم گزشتہ اکتوبر سے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام شروع کیا، تو سروس کا نام بدل کر ’’سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروسز‘‘ کر دیا گیا۔ 1021ہمارا ایمبولینس سروس نمبر ہے۔ جب ہمارے پاس کال آتی ہے، تو ہم ایک پروٹوکول فالو کرتے ہیں، جو امریکا اور برطانیہ میں مستعمل ہے۔ کال آنے پر پہلے مریض سے متعلق 6سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً سانس کس طرح لے رہا ہے؟ رنگت وغیرہ کیسی ہے۔ ہماری تین طرح کی ایمبولینسز ہیں، تو ان سوالات سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ مریض کی کیفیت کیا ہے اور ہم اُسی کے مطابق اپنی ایمبولینس اُس تک بھجواتے ہیں، جس میں ہمارا طبّی اسٹاف بھی ہوتا ہے۔ مریض کو اسپتال منتقل کرنے پر تقریباً ساڑھے پانچ ہزار روپےخرچ ہوتے ہیں، جو اب سندھ حکومت برداشت کر رہی ہے۔ اسی لیے اب ایمبولینس خدمات مفت ہو گئی ہیں، جب کہ پہلے ایک ہزار روپے لیتے تھے۔

ٹھٹھہ اور سجاول میں بھی پچھلے تین برسوں سے ہماری 25 ایمبولینسز ’’سندھ پیپلز ایمبولینسز‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہیں۔‘‘’’ مگر آپ کی گاڑیاں کئی بار کال کے باوجود نہیں پہنچتیں یا صاف انکار کر دیتی ہیں؟‘‘ ’’ دیکھیں جی! بات بالکل سادہ ہے۔‘‘ خاقان سکندر نے اپنی بات کی مزید وضاحت کی ’’ہم ہر جگہ اور ہر مریض کے لیے نہیں جاتے، کیوں کہ ہماری اور دیگر اداروں کی ایمبولینسز میں فرق ہے۔ ہم مریضوں کی منتقلی کا کام نہیں کرتے۔ مثلاً کسی کو ایکسرے کے لیے جانا ہے، یا کسی مریض کو اسپتال سے گھر منتقل کرنا ہے، یعنی جس کی جان کو خطرہ نہ ہو، ہم اُسے لے کر نہیں جاتے۔ فنڈز کے لیے بھی ہم تین طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ہم فنڈز دینے والے مختلف اداروں سے رابطے میں ہیں، جیسے جرمن، آسٹریلین، یو ایس ایڈ ایجینسیز کی معاونت سے مختلف پراجیکٹس پر کام کرتے رہتے ہیں۔ پھر مخیّر افراد ہیں، جو ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر کارپوریشنز ہیں، جیسے پی ایس او کے ساتھ ہمارا ایک پراجیکٹ چل رہا ہے۔ دراصل، ہمارا ادارہ پراجیکٹ بیسڈ ہے، یعنی مختلف اداروں کے ساتھ مل کر پراجیکٹس شروع کرتے ہیں، جو تکمیل پر بند ہو جاتے ہیں اور پھر نئے منصوبے شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے پچھلے دِنوں ہم نے کمیونٹی ہیلتھ سے متعلق ایک بڑا منصوبہ مکمل کیا ہے۔ ہم صحت کے بعد اب تعلیم کے شعبے میں بھی حکومت سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے بند ادارے کھولنے کے لیے حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ 

اصل میں مسائل بہت زیادہ اور گمبھیر ہیں، جن پر کوئی ایک این جی او یا ادارہ قابو نہیں پا سکتا۔ اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘ امن ٹیک سے متعلق پوچھے گئے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ہم پاکستان کا سب سے بڑا ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ چلاتے ہیں۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہتے، آپ کسی بھی انڈسٹری میں چلے جائیں، ہمارا نام اور کام نظر آئے گا۔ 14ہزار سے زائد طلباء و طالبات ہمارے مختلف کورسز کر چُکے ہیں۔ہم پاکستان کا سب سے بڑا’’ جاب فیئر‘‘ کرواتے ہیں، جس کے ذریعے سیکڑوں نوجوانوں کو ملازمت ملتی ہے۔ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کی معاونت سے پیرامیڈیکس کا چھے ماہ کا ڈپلوما کرواتے ہیں۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن، ہارورڈ یونی ورسٹی سے بھی ایفیلیشن ہے۔ ہم پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر آرگنائزیشنز تک کو تربیت دیتے ہیں۔ ہمارا شروع سے ہدف تعلیم اور صحت ہے، لہٰذا ان ہی پر فوکس رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘خواتین سے متعلق اُن کا کہنا تھا’’ویمن ایمپاورمنٹ پر ہمارا خاص فوکس ہے۔ ایک ہزار سے زائد خواتین ہمارے ہاں سے مختلف کورسز کر چُکی ہیں۔ ایک برطانوی ایڈ ایجینسی کے تحت اِن دنوں بھی ایک ہزار خواتین کو ہنر مند بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔

اِس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ خواتین کو ملازمتیں بھی دِلواتے ہیں اور جو نوکری نہ کرنا چاہیں، اُنہیں گھر پر کام کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔‘‘خاقان سکندر نے’’ امن فاؤنڈیشن‘‘ کے مستقبل کے منصوبوں سے متعلق بتایا’’ ہمارا سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی ایمبولینس سروس کا دائرہ بڑھانے کا ارادہ ہے اور اُمید ہے، اگلے پانچ برسوں میں یہ ہدف حاصل کر لیں گے۔ چوں کہ نوجوان بہت بڑی تعداد میں بے روزگار ہیں، لہٰذا ہم اس مسئلے کے حل میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے امن ٹیک کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے لیے ہمیں پارٹنرز کی ضرورت ہے۔ این جی اوز کے بارے میں عام طور پر اچھا تاثر نہیں، تاہم جو ہمارے کام سے واقف ہیں، وہ ضرور تعریف کرتے ہیں۔ ہم اپنی پبلسٹی پر پیسا نہیں لُٹاتے، اپنی مارکیٹنگ نہیں کرتے، بس میڈیا کو اپنا کام دِکھاتے ہیں اور خوشی کی بات ہے کہ میڈیا نہ صرف یہ کہ ہمارے کام کو عوام تک پہنچاتا ہے، بلکہ رہنمائی بھی کرتا ہے۔‘‘

تازہ ترین