• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • ہم سارے زمانے سے خود کو چُھپالیں، مگر اپنی دو آنکھوں سے نہیں چُھپ سکتے
  • ہر گناہ،پچھتاوے، کسک، راز کو کسی جھروکے، دریچے کی ضرورت ہوتی ہے
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

پروین کے چہرے پر اَن جانی فِکروں، اندیشوں کے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ہم سارے زمانے سے خود کو چُھپا لیتے ہیں، مگر خود اپنی دو آنکھوں سے چُھپ نہیں سکتے، آنکھیں سب کہہ دیتی ہیں۔ مَیں نے اُس کی طرف دیکھا ’’ہم گناہ گار لوگ ہیں بی بی! ہم کیا، ہماری دُعا کیا۔ جائو اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ اپنی سہیلی کھو کر جسے پایا ہے، اب اُس خزانے کی حفاظت کرو‘‘۔ میری بات سےپروین کے اندر جانے کیسی آندھی اُٹھی کہ پل بھر ہی میں اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ’’مجھے پتا ہے سائیں جی، آپ سب جانتے ہیں۔ مگر پھر یہ بھی تو جانتے ہوں گے کہ میں بے قصور ہوں۔‘‘ میں چُپ رہا۔ ماحول اور بھیس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔ ہم جوگیوں،فقیروں کےحلیے میں اس مزار کی چوکھٹ پر بیٹھے نہ ہوتے اور پروین میری زبان سے گزشتہ روز چند بھید بھائو کی باتیں نہ سُن چکی ہوتی، تو شاید مجھ جیسے بوسیدہ لباس والے کو رُک کر بھیک بھی نہ دیتی۔ انسان سدا سےکسی نہ کسی بھید، راز یا غیب کے علم کا متلاشی رہا ہے۔ تبھی تو ان نجومیوں، ہاتھ دیکھنے والے پنڈتوں کا کاروبار خُوب پھلتا پھولتا ہے، مگر غیب کا حال تو صرف اوپروالا جانتا ہے، تو پھر یہ نیچے بسنے والے ہر وقت کس کھوج میں کیوں لگے رہتے ہیں؟ پروین کو بھی اُس کے اندر کی کھوج وہاں دوبارہ کھینج لائی تھی،مگراُسی لمحے اس کی کسی خاص نوکرانی نے اس کے کان میں آگے بڑھ کرکچھ کہا، تو وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی ’’کیا کہہ رہی ہے نوراں… چوہدری جی، اس وقت … وہ تو صبح سویرے کچہری کے مقدمے کے لیے نکل گئے تھے۔‘‘ نوراں پھر کچھ بڑبڑائی۔ پروین نے جلدی سے میری طرف دیکھا ’’سائیں جی۔ میرا گھر والا واپس آگیا ہے۔ میرے بڑے بھاگ ہوں گے، اگر آپ آج شام میری حویلی کا پھیرا ڈال جائو۔ دیکھو، انکار نہ کرنا، میرے دل پر بڑا بوجھ ہے۔ آپ تو جانتے ہو۔‘‘ پروین جلدی میں نذر چڑھا کر مزار سے باہر چلی گئی۔ بخت خان تھوڑے فاصلے پر بیٹھا حیرت سے یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا۔ ’’یہ سب کیا تھا۔ یہ عورت کیا بول کرگیاہے؟‘‘ مَیں نے گہری سانس لی۔ ’’کوئی گرہ کھولنے آئی تھی اپنی، مگر موقع نہیں ملا اُسے…‘‘بخت خان ابھی تک الجھا ہوا تھا ’’ہاں مگر یارا! وہ تم کو اپنا راز کیوں دے گا مڑاں … ہم کو کچھ سمجھ نہیں آیا؟‘‘ مَیں نے اپنے بھولے، سیدھےدوست کی طرف دیکھا۔ ’’وہ جیل سے بھاگے کسی قیدی سے ملنے نہیں آئی تھی۔ اُسے ہماری حقیقت معلوم ہوجائے تو ہمیں خود اپنے مزارعوں کےہاتھوں ہتھکڑیاں ڈالواکر، گھسیٹتے ہوئے کوتوالی کے حوالے کردے۔ وہ تو ہمارے فقیری بہروپ کی وجہ سے ہمیں کوئی اللہ والا جان کر اتنی عزت دے رہی ہے۔ تم بس یہ دُعا کرو کہ ہمیں اس کی زبانی مہرو کی گم شدہ ڈور کا کوئی الجھا سرا مل جائے۔‘‘ بخت خان نے غور سے میری طرف دیکھا۔ ’’تم کون ہے عبداللہ خاناں! تم کو یہ سب بات کس نے سکھایا؟‘‘ مَیں چُپ رہا۔ اُسے کیا بتاتا کہ کبھی یہی مزار، درگاہیں میری منزل کا پڑائو ہوا کرتی تھیں۔ کبھی مَیں نے زہرا کو پانے کے لیے ایک مزارکی سیڑھیاں چڑھی تھیں اور پھر میں ایسی کئی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ جانے وہ اب کیسی ہوگی، کہاں ہوگی، مجھے یاد بھی کرتی ہوگی یا …؟‘‘ اس سے آگے سوچ کر میرا دل ڈوب سا گیا اور پھر میرے دل کی تقلید میں سورج نے بھی ڈوبنے کی تیاری کرلی۔

شام ڈھلنے سے پہلے بڑی حویلی سے سواری ہمیں لینے آگئی، مگر میں نے بگّھی والے کو واپس لوٹا دیا۔ بخت خان نے حیرت سے پوچھا، ’’وہ بی بی جی کے گھر نہیں جائے گا کیا …؟‘‘ ’’نہیں، فقیروں کا بھلا محلوں سے کیا واسطہ۔ جسے آنا ہوگا، وہ خود چل کر آئے گا …‘‘ اور پھر مغرب سے پہلے ہی چوہدری احمد کی بگّھی مزار کے بڑے دروازے پر آکر رُکی اور وہ بھاری قدموں سے چلتے ہوئے کچھ خوان، نوکروں کےہاتھ اٹھوائے درگاہ کے صحن میں ہمارے قریب آکر بیٹھ گیا۔ ’’مَیں نے پروین سے کہا تھا کہ سائیں لوگ نہیں آئیں گے، مگر پھر بھی اس نے جانے کیا کیا کچھ تیار کروا لیا کھانے کے لیے۔‘‘ مَیں آپ کا کھانا یہیں لے آیا ہوں۔ ایک ایک نوالہ چکھ لیں گے، تو خوش ہوجائے گی نیماڑی …‘‘ مَیں نے بخت خان کو کھانا چکھنے کا اشارہ کیا اور دو نوالے احمد کی دل جوئی کے لیے خود بھی حلق سے نیچے اتار لیے۔ احمد بے چین سا بیٹھا رہا۔ ’’سائیں … کل آپ کی بات ادھوری رہ گئی تھی؟‘‘ ’’ہاں، تم نے بھی تو ایک کہانی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ پھر یہ فقیر اپنی بات کیسے پوری کرے۔‘‘ احمد نے بے تابی سے میرے ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگالیے۔ ’’بہت تلاش کیا تھا اُسے سائیں … کون سی گلی، محلّہ، گائوں، شہر ہے، جو مَیں نے نہیں کھنگالا۔ پروہ تو شاید خود کہیں جا کر چُھپ گئی تھی، ورنہ ایک بار پلٹ کر آواز تو دیتی۔ ایسی بھی کیا مجبوری ہو سکتی تھی اُسے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ خود کسی کے ساتھ …‘‘احمد بولتے بولتے چُپ ہوگیا۔ ’’اور تم نے لوگوں کی بات پر یقین کر کے اس کی تلاش ہی ختم کر دی۔ اُسی کی سہیلی سے بیاہ رچا کر آرام سے زندگی گزار رہے ہو۔ تمہیں بھلا پھرکاہے کا غم…؟‘‘ احمد نے نظریں جُھکالیں۔ ’’اُس سے بیاہ بھی اِسی لیے کیا کہ اُسے دیکھ کر مہرو کی یاد آتی رہے مجھے۔ کبھی دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہو تو کوئی تو ہو، جس سے میں اُس کی بات کر سکوں۔ پروین پہلے راضی نہیں تھی اس رشتے کےلیے۔ میرے اصرار ہی پر اس نے حامی بھری تھی۔ اور سائیں مہرو واپس آبھی جاتی تو میرا اس سے رشتہ ناممکن تھا۔ ہمارے علاقے میں جوان لڑکی ایک رات باہر گزار آئے تو کوئی قبول نہیں کرتا اُسے۔ مہرو کو غائب ہوئے تو مہینوں ہو چکے تھے۔‘‘ احمد سر جھکائے بتارہا تھا کہ اس کی علاقے میں کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ شادی کی تقریب کے ہنگامے میں اُس رات جانے مہرو حویلی کے پچھلے باغ کے سناٹے میں کیوں گئی تھی؟ جہاں دن کے وقت بھی درختوں کے گہرے سائے کی وجہ سے رات کا سا سماں رہتا ہے۔ وہاں مہرو کو کس نے بلایا تھا، وہ کس سے ملنے گئی تھی، اتنی رازداری سے کہ اس نے اپنی ماں یا سہیلی کو بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔ اور وہاں کون تھا، جس نے مہرو کو دوبارہ پلٹنے نہیں دیا یا جس کے ساتھ مہرو خود ہی چل پڑی۔ اس جیسے جانے کتنے سوالات تھے، جن کاجواب احمد کبھی تلاش نہیں کر پایا۔ تبھی تو اکثر اس کے دل میں شک کا وہ زہریلا ناگ پھن اٹھا کرکھڑا ہو جاتا، جو اس سے بار بار یہ کہتا کہ مہرو خود اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے، اُسے اِغوا نہیں کیا گیا۔ ورنہ علاقے کی پولیس کو تو اس کا کوئی سُراغ مل ہی جاتا۔ احمد نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔ ’’اب آپ ہی بولو سائیں! اس میں میری کیا خطا ہے۔ آپ تو اللہ والے ہو، آپ کو تو سب پتا ہوگا۔ اگر اُس کی کوئی خبر ہے آپ کو تو مجھے بتائو، ورنہ دُعا کرو کہ میرے دل کو بھی چین آجائے۔‘‘ مَیں نے دُعا کے لیےہاتھ اٹھا دیئے، مگر میری دعائوں میں اثرہوتا تو آج خود میرا دل ایسا برباد کیوں ہوتا۔ محبت کرنے والوں کو دُعائوں سے بھلا کب آرام ملتا ہے؟ احمد بھی بے چین اور بےقرار سا وہاں سے اٹھ گیا اورجاتےجاتے ایک لمحے کےلیےرُک کر بولا ’’پروین بھی بہت بےتاب ہے آپ سے ملنے کے بعد سائیں۔ اُس کے لیے بھی دُعا کیجیےگا۔ کل رات سے مسلسل رو رہی ہے۔ کہتی ہے، آپ سے مل کر اپنے ناکردہ گناہ کی معافی مانگے گی کہ اُس نے اپنی سہیلی کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالا۔ یہ سب ہم تینوں کے مقدر میں لکھا تھا۔‘‘ ہم انسان کتنی آسانی سے اپنی ہر کم زوری، خامی، عیب مقدّر کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذّمہ کر لیتے ہیں۔ احمد پلٹ کر جانے لگا، تو میں نے پیچھے سے آواز دی ’’کل شام ہم یہاں سے کُوچ کر جائیں گے۔ اپنی گھر والی سے کہنا کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے، البتہ ان کی یاد پلٹ پلٹ کر ہمارے سِلے ہوئے زخم اُدھیڑنے چلی آتی ہے۔ گھائو کا مرہم تو مل جاتا ہے زمانے میں، مگر یاد کا کوئی مرہم نہیں ہوتا۔‘‘ احمد چند لمحوں کے لیے ساکت کھڑا سوچتا رہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔

رات حجرے میں بخت خان سے ملاقات ہوئی تو وہ الجھاسابیٹھاتھا، مگر چُپ رہا۔ کبھی کبھی فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں دے دینے ہی میں نجات ہوتی ہے۔ اگلی صبح سورج نکلتے ہی پروین کی خاص خادمہ نوراں عجلت میں ہڑبڑائی ہوئی سی مزار کی دہلیز پر کھڑی ملی ’’تُسی جا رہے او سائیں جی … مالکن نے درخواست کی ہے کہ اُن سے مل کرجائیں۔ ورنہ انہیں ساری حیاتی پچھتاوا رہے گا۔‘‘ مَیں نے احمد کی زبانی پروین تک اپنے جانے کی خبر اسی لیے پہنچائی تھی کہ اُس کے اندر کی گھٹن اُسے اپنے مَن کا ہر راز اُگل دینے پر مجبور کر دے۔ اور پھر اُسی شام وہ سر جُھکائے میرے سامنے کھڑی تھی۔ سورج عصر کے بعد مزار کی منڈیروں کو آخری سلامی دے رہا تھا۔ آج شاید وہ اپنے شوہر سے یہاں آنے کی اجازت لے کر آئی تھی، اس لیے اس کے انداز میں کوئی عجلت نہیں تھی، لیکن لب تھے کہ بس کپکپا کر رہ جاتے۔ جیسے اس کے اندر کی شدید کش مکش اُسے کچھ کہنے سے روک رہی ہو۔ آخرکار ایک لمبا سانس لے کر اس نے ایک ہی جھٹکےمیں سارا بوجھ دل سےاتار دیا۔ ’’مہرو میری ہی وجہ سے اغوا ہوئی تھی سائیں جی۔ اُسے اُٹھانے والا اُسے نہیں، مجھے لینے وہاں آیا تھا۔ مہرو کو میرے کیے کی سزا ملی سائیں جی۔ مَیں جانتی ہوں آپ کو سب پتا ہے، مگر جانے کس مصلحت کے تحت آپ نے میرے گھر والے کے سامنے میرا راز فاش نہیں کیا۔‘‘پروین اپنےاندر کے ناسور بنتے زخم دکھاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ مَیں ابھی تک سکتے میں کھڑا تھا۔ وہ بات جو آج تک اُس کی زبان تک نہیں آئی تھی، جس کی کھوج میں اُس کا شوہر، علاقے کی پولیس اور مہرو کے گھر والے، دوست، رشتے دار دربدر بھٹکتے رہے، خوار ہوتے رہے، آج وہ پچھتاوا اُس نے ایک انجان فقیر، جوگی کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ جانے کس اُمید پر، کس آس میں، شاید ہر گناہ، ہر پچھتاوے، ہر کسک، ہر راز کو کسی نہ کسی جھروکے، دریچے، کھڑکی، روشن دان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضعیف الاعتقاد لوگ اپنے اندر کی گھٹن نکالنے کے لیےکبھی کسی آشنا، تو کبھی کسی مندر، مسجد یا مزار کی چوکھٹ پر مجھ جیسے فقیر جوگیوں کے سامنےجاکر دل کی یہ کھڑکی کھول دیتے ہیں۔

پروین بولتی رہی اور میرے ذہن میں آندھیاں سی چلتی رہیں۔ پروین اور مہرو بچپن کی دوپٹا بدل سہیلیاں تھیں، وہ جن کی سانس کی ڈور ایک دوجے سے بندھی تھی۔ پل بھر کے لیے پہلی اگر دوسری کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی تو دونوں کا دَم اٹک جاتا۔ پرائمری سے ہائی اسکول اور پھر گائوں سے پرے لڑکیوں کے اکلوتے کالج تک دونوں ہم جماعت بھی تھیں۔ مہرو کے مزاج میں سنجیدگی اور بردباری تھی، جب کہ پروین آفت کی پرکالہ۔ یوں لگتا جیسے اُس کی رگ رگ میں پارہ بھرا ہو۔ مہرو کےلاکھ سمجھانےکےباوجودوہ اپنی شوخیوں، شرارتوں سے باز نہیں آتی تھی۔ کالج تک پہنچتے پہنچتے تو اس کی بے باک ادائوں پر گائوں کے کئی نوجوان بھی آہیں بھرنے لگے تھے۔ دونوں صبح ایک ہی تانگے پر کالج کے لیےگھر سے نکلا کرتیں اور جب اُن کا تانگہ مختلف کھیتوں، کھلیانوں کے درمیان بنی پگڈنڈیوں سے ہوتا کچّی اینٹ والی سڑک تک پہنچتا، تب تک آس پاس کھیتوں میں کام کرتے کئی گھبروئوں یا چھتوں کی منڈیر پر انگڑائیاں لیتے کاہلوں کو پینو کے کالج جانے کی اطلاع ہوچُکی ہوتی۔ تب کوئی سائیکل کی ہوا بھرنے کے بہانے تو کوئی صبح کی ورزش کی ڈنڈ بیھٹک پیلتے کن انکھیوں سے پروین کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطراس کی راہ میں کسی درخت، ٹیلے یا پگڈنڈی پربظاہر لاپروا کھڑا نظر آتا اور پروین سبھی کو یوں نظر بھر کر دیکھتی کہ پھر اگلے کئی دن وہ بے چارہ کسی بسمل کی طرح تڑپتا رہتا۔ جب کہ سِمٹی سمٹائی اور گھبرائی سی مہرو کی جان پر بنی رہتی کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے یا انہی عاشقوں میں سےکوئی قدم بڑھا کر پروین کی راہ ہی نہ روک لے، مگر بھلا پروین کو اِن باتوں کی کیا فکر تھی۔ وہ تو ان جیسے نامراد عاشقوں کی حالت پر دل کھول کرقہقہے لگاتی۔ کئی بار مہرو نے پروین کی انہی حرکتوں پر قطع تعلق کی دھمکی بھی دی اور گھر میں روٹھ کر بیٹھ گئی کہ اب کبھی پروین کی صُورت بھی نہیں دیکھے گی، مگر پروین بھلا اپنی دل جانی سہیلی کو کب روٹھنے دیتی تھی۔ اگلی شام ہی وہ مہرو کے گھر کے صحن میں اپنا دوپٹا ڈال کر، باقاعدہ ہڑتال پر بیٹھ جاتی کہ جب تک مہرو اسے معاف کر کے گلے نہیں لگائے گی، تب تک وہ یونہی بیٹھی رہے گی۔ اور پھر مہرو کا دل بھی پسیجنے میں زیادہ وقت نہیں لیتا تھا۔ وہ روتے ہوئے پروین کے گلے لگ جاتی اور ہربار کی طرح پروین کےجھوٹے وعدوں پر یقین کرکے اُسے معاف کر دیتی۔ چنددن پروین، مہرو کی خاطر سُدھری رہتی، مگر پھر وہی دل لگی، جہاں کسی مَن چلے نے راہ چلتے سیٹی ماری یا پھر آہ بھر کر کوئی شعر پڑھا، وہاں پینو کی ’’رگِ الفت‘‘ جاگ اٹھتی۔ رومان پروری صرف مرد ہی کا تو شیوہ نہیں، عورت بھی رومان پرور ہوسکتی ہے، مگر پروین کی شرارت، آوارگی نہ تھی۔ مہرو جانتی تھی کہ اُس کی سہیلی اندر سے بہت معصوم ہے، ہاں مگر قدرت نے اُس کی نَسوں میں زندگی عام لوگوں سے اوسطاً کچھ زیادہ ہی بھر دی تھی۔ تبھی وہ وقت کی رگوں سے ہر لمحے ڈھیروں لطف نچوڑلینا چاہتی تھی۔ لیکن اگر کسی پس ماندہ گائوں، قصبے میں اِک لڑکی کی ہنسی، بےباک نظر کےافسانے عام ہونے لگیں تو پھر پروانوں کے جھنڈ شمع کےگرد منڈلانے ہی لگتے ہیں اور کچھ پروانے صرف شمع کی لَو پر جل کر بھسم ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوتے، وہ خود بھی جلتے ہیں اور ساتھ دیپ کے شعلے کو بھی خاکستر کر دیتے ہیں۔ بالا بھی ایک ایسا ہی خودکُش پروانہ تھا، دوسرے گائوں کے نمبردار کا بیٹا، چوہدری اقبال، عرف بالا۔ جس نے اتفاقاً اُس روز کسی کام سے شہر کی طرف جاتے ہوئے شارٹ کٹ کے چکر میں اپنی پرانی ویلیز جیپ پروین کے کالج کے رستے میں پڑتے کھیت کی کچّی سڑک پر ڈال دی۔ تبھی سامنے سے جاتے تانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سیاہ چادروں میں لپٹی دو لڑکیوں میں سے ایک نے بالے کی جیپ اور ٹور دیکھ کر کن انکھیوں سے شرارتاً اپنی سہیلی کی طرف دیکھا اور زور سے ہنس پڑی۔ کچھ ہنسی کی آوازیں کان نہیں، براہِ راست دل سُنتے ہیں۔ بالے کادل بھی ڈھیر ساری چوڑیوں کی کھنک جیسی وہ ہنسی سُن کر ماہیٔ بے آب کی طرح زور سے تڑپا اور پھر کبھی ٹھنڈا نہ ہو پایا۔ کون تھی وہ، جو بالے کی جسامت، رُعب اور سُرخ آنکھیں دیکھ کر باقی تمام لڑکیوں کی طرح دُبک جانے کے بجائے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف زور سے ہنسی تھی بلکہ نظروں نظروں میں بالے کی شان دار سواری کو سراہ بھی گئی تھی۔ بالا اپنے سارے کام بھول کرکڑی شِکر دوپہری تک اُسی بل کھاتی سڑک پر جما کھڑا، اُس تانگے والی کی واپسی کا انتظار کرتا رہا، جو خود اُس کے اپنے مزاج کے بھی خلاف بات تھی۔ کیوں کہ اُس کے اپنے گائوں میں ہر دوسری لڑکی یہ بات جانتی تھی یا بُھگت چُکی تھی کہ بالا کلی کلی منڈلانے والا ایک آوارہ بھنورا ہے، جسے کہیں ٹِک کر بیٹھنا راس ہی نہیں۔ صبح ایک پھول تو شام دوسری ڈالی، مگر جانے پروین کی ایک مچلتی شرارت بھری نظر نے اُس پر ایسا کیا جادو کیا کہ پھر وہ اُسی رستے کا ہو کر رہ گیا، جو پروین کے کالج کی طرف جاتا تھا۔ مہرو کے لاکھ منع کرنے باوجود پینو اپنی دل لگی سے باز نہ آئی اور راستے میں کھڑے بالے کی ایک ٹھنڈی آہ کے جواب میں، دو بار لمبی آہیں بھرتی اور بالے کی حیرت اور بوکھلاہٹ پر خُوب قہقہے لگاتی رہی۔ بالے کی آتشِ شوق بھڑک اُٹھی تھی اور اب وہ کسی بھی حال میں پروین سے تنہائی میں ملنا چاہتا تھا۔ پروین اُسے ٹالتی اور نہ ملنے کے بہانے تراشتی، اتنا کہ وہ بے چین ہوا جاتا۔

دونوں میں رقعے بازی شروع ہوگئی اور بالے نے سونےکی انگوٹھیاں، مُندریاں وغیرہ یکے بعد دیگرے پروین کو تحفے کی شکل میں بھیجنی شروع کر دیں۔ اُنہی دنوں دوسرے گائوں کی کسی لڑکی کی زبانی بالے اور پٹواری کی بیٹی کی گزشتہ ’’داستانِ عشق ‘‘ کالج میں پھیلی تو پروین کا ماتھا ٹھنکا کہ اس بار اس کا پالا کسی عام عاشق سے نہیں بلکہ ایک نامی گرامی لوفر، آوارہ سے پڑا ہے۔ مہرو نے بھی پروین کو خُوب کھری کھری سُنائیں اور حکم دیاکہ فوراً بالے کے تمام تحائف اور سوغاتیں واپس لوٹا کر ہمیشہ کےلیےقطع تعلقی کا اعلان کر دے، مگر اب بالا کیوں کر پیچھے ہٹنے کو تیار ہوتا، اُس نےتو ایک طوفان کھڑا کردیا اور پروین کو صاف دھمکی دےدی کہ اگر پروین، بالے کی مقررہ جگہ پرملنے نہ آئی تو وہ سارے علاقے میں پروین کو بدنام کرکے رکھ دے گا۔ پروین کے خط ابھی اُس کی تحویل میں تھے اور بالے کے دیئے منہگے تحفے اس کا ثبوت۔ پروین کو یہ ہڈی گلے اترتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اُنہی دنوں مہرو کے لیے احمد کا رشتہ آگیا اور ساتھ ہی مہرو اور اس کے گھر والوں نے شادی کی تیاریاں بھی شروع کر دیں۔ پروین، بالے کی دھمکیوں کی وجہ سےبہت پریشان، افسردہ رہنےلگی تھی۔ مہروسےاپنی سہیلی کی پریشانی دیکھی نہ گئی۔ اس نے پروین کو رخصتی سے ہفتہ بھر پہلے ہی اپنےگھر ٹہرنےکےلیےبلا لیا۔ مگر اُنہیں کیا خبر تھی کہ وہ کم بخت بالا وہاں بھی پروین کی کھوج میں آپہنچے گا۔ پروین، مہرو کی حویلی کے باہر بالےکو اپنےآوارہ دوستوں کےساتھ منڈلاتے دیکھ کر بہت ڈر گئی۔ اُس نے بالے کو پیغام بھجوایا کہ وہ یہاں کسی شریف گھرانے کی مہمان ہے، لہٰذا بالا یہاں اُس کی رسوائی کا سامان نہ کرے۔ جواب میں بالے نےاس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ اگر پروین یہیں کہیں موقع دیکھ کر بالے سے بس ایک آخری ملاقات کرلے تو وہ پروین کے خط اسے واپس لوٹا دےگااور اپنے تحائف بھی واپس لے لے گا۔ پروین نے مجبوراً ہاں کردی، کیوں کہ وہ مہرو کے شگن اور مایوں کے دِنوں میں کوئی بدمزگی یا پریشانی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بالے نے مہرو کی حویلی کے پیچھے کے ویران، اجاڑ باغ کو ملاقات کی جگہ مقرّر کیا اور منہدی والی رات کا وقت بھی طے ہوگیا، مگر جب پروین نے مہرو کو بتایا تو اس نے سختی سے پروین کو بالے سے ملنے سے منع کیا۔ پروین مہرو کے سامنے رو پڑی کہ اگر وہ نہ گئی تو بالا اُسے سارے گائوں میں رسوا کردے گا اور پروین کا بیمار بوڑھا باپ یہ بدنامی سہہ نہیں پائے گا۔ تب مہرو نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ پروین کی چیزیں لینے وہ خود بالے کے پاس جائے گی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین