• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائرہ یونس، لاہور

عکاّسی:عرفان نجمی

یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے شالا مار باغ کی جانب سفر کرتے ہوئے، سڑک کی بائیں جانب دُکانوں اور ورک شاپس کے جُھرمٹ میں فنِ تعمیرکا ایک اعلیٰ نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم،گلابی باغ کے نام سے معروف یہ عمارت محکمۂ آثارِ قدیمہ کی غفلت کے سبب اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق اسے مرزا سلطان بیگ نے 1656ء میں تعمیر کروایا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وسیع و عریض گلابی باغ کے چاروں گوشوں میں بنائی گئی عالی شان اور منقّش ڈیوڑھیاں دیکھ کر راہ گیر دنگ رہ رہ جاتے تھے، لیکن اب ان میں دن بَھر علاقہ مکین تاش کھیلتے رہتے ہیں، جب کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے باغ کے احاطے میں متعدد مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔ 

تاریخی عمارت کے سروے کے دوران ہمیں یہاں کوئی چوکی دار دکھائی نہیں دیا۔ احاطے میں دو اہل کار بیٹھے چرس پی رہے تھے اور بچّے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔ ڈیوڑھی کا بالائی دروازہ بند تھا، جب کہ دائی انگہ کے مقبرے کی جانب جانے والا راستہ کُھلا تھا۔ دائی انگہ کی آخری آرام گاہ کے ساتھ ہی ایک اور قبر ہے، لیکن ان دونوں پر دیواریں چُنوا دی گئی ہیں۔ مغلیہ طرزِ تعمیر کے حامل اس مقبرے پر ایک بڑا سا گنبد بنا ہوا ہے، جس پر موجود نقش و نگار دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ عمارت میں داخل ہوتے ہی غیر معمولی ٹھنڈک و طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ گلابی باغ میں دو کنویں بھی بنائے گئے تھے، لیکن اب ان کے آثار تک نہیں ملتے۔ 

عمارت میں موجود بارہ دریاں، محرابی دروازے اور نشست گاہیں مغلوں کے اعلیٰ ذوق کا پتا دیتی ہیں۔ باغ کے داخلی دروازے یعنی ڈیوڑھی پربنائے گئے نہایت دیدہ زیب نقش و نگار صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی ترو تازہ ہیں۔ عمارت میں نصب ایک بڑے سے کتبے پر ’’افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ درج ہے، جب کہ شرق رویہ محراب کی منزلِ دوم پر خطِ نستعلیق میں یہ شعر درج ہے کہ؎ محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا است… کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او (ترجمہ :حضرت محمدﷺ دونوں جہانوں کی آبرو ہیں، جو آپ ﷺ کے درِ اقدس کی مٹی نہیں بنتا، اُس کے سَر پہ مٹی ہو)۔

گلابی باغ اور مقبرہ دائی انگہ
مقبرہ ٔ دائی انگہ کا بیرونی منظر

سِکّھوں کے دَور میں گلابی باغ کی عمارت میں سے پتّھر اور اینٹیں اُکھاڑ کر انہیں فروخت کیا گیا۔ تاریخِ لاہور کے مطابق، 1900ء میں احاطۂ باغ میں چونا اور اینٹیں تیار کی جاتی تھیں اور قدم قدم پر غلاظت اور سنگ ریزوں کے ڈھیر تھے، جب کہ آج بھی قبضہ مافیا نے یہاں کچرے کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ باغ کی ڈیوڑھی اور مقبرے کے درمیان ایک راہ داری تعمیر کی گئی ، جس کے دونوں اطراف درخت لگائے گئے تھے، لیکن اب صرف راہ داری کے آثار ہی باقی ہیں۔ باغ میں پودوں، درختوں کا نام و نشان تک نہیں۔ عمارت کا ایک حصّہ اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے اور مقامی افراد اس کے گرنے ہی کے منتظر ہیں، تاکہ وہ یہاں اپنے مکانات تعمیر کر سکیں۔ مقبرۂ دائی انگہ کے قریب بنے زینے ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہیں۔ تاہم، اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ علاقہ مکین مقبرے میں بیٹھ کر چرس پیتے اور تاش کھیلتے ہیں۔

ہر چند کہ گلابی باغ کی وجۂ تسمیہ تو معلوم نہیں ہو سکی، البتہ تاریخی کُتب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ گلابی باغ سے چند قدم دُور شمال کی جانب دائی انگہ کی قبر ہے، جو شاہ جہاں کی صاحب زادی، سلطان بیگم کی دائی تھیں اور انہوں نے یہ باغ اپنی دائی کو بخش دیا تھا۔ دائی انگہ کا اصل نام زیب النّساء تھا ۔ مغل شہنشاہ، شاہ جہاں کے زمانے میں انہیں عروج حاصل ہوا۔ وہ ایک مغل منصب دار، مراد خان کی اہلیہ تھیں ۔ انہوں نے لاہور میں مسجدِ دائی انگہ بھی تعمیر کروائی تھی، جس پر بعد ازاں انگریزوں نے قبضہ کر لیا اور 1905ء میں مسلمانوں کے حوالے کیا۔ دائی انگہ کے مقبرے کے پُختہ اینٹوں سے بنے فرش سے اس کی قدامت کا پتا چلتا ہے۔ مقبرے میں دائی انگہ کی آخری آرام گاہ کے علاوہ ایک دوسری قبر بھی ہے۔ تاہم، اس صاحبِ قبر کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ 

دونوں قبریں ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں۔ دائی انگہ کی اصل قبر تہہ خانے میں ہے، جہاں اس کے علاوہ دوسری کچی قبریں بھی موجود ہیں۔ مذکورہ دونوں قبریں سنگِ مرمرسے تیار کی گئی تھیں، لیکن مقامی افراد نے بیش قیمت پتّھر اُکھاڑ کر مسمار کر دیں۔ بعد ازاں، انگریز سرکار نے ان کی مرمّت کروائی۔ دونوں قبروں کے ارد گرد دریچے موجود ہیں، جب کہ مقبرے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی گل کاری کے نقوش آج بھی واضح ہیں۔ مغل فنِ تعمیر کی ندرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مقبرے کی چھت اور گنبد کو سریے کے بغیر تعمیر کیا گیا تھا اور یہ آج تک قائم ہیں۔

مقبرے کے اندر نہایت خُوب صُورت انداز سے قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی ہے ، مگر نشے، جوئے کے عادی افراد ان کا بھی احترام نہیں کرتے۔ دائی انگہ کے مقبرے کے نقش و نگار اور شہزادی نادرہ بیگم اور شہزادی زیب النّساء کی آخری آرام گاہوں کی گل کاری میں مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغلیہ دَور میں اسی قسم کے نقش و نگار بنانے کی روایت عام تھی اور اس مقصد کے لیے ایک جیسے رنگوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ دائی انگہ کی قبر کے کتبے پر کندہ ہے کہ ’’کتبہ محمد صالح غضر اللہ ذنوبہ رننہ عیوبہ 1082ھ۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ خطّاط کا نام، محمد صالح تھا اور دائی انگہ کا انتقال 1082ھ بہ مطابق 1671ء میں ہوا۔ محرابوں کی بیرونی جانب فوّارے بنائے گئے تھے، لیکن اب ان کا نام و نشان بھی موجود نہیں۔ مقبرے کی چھت پر چار چھوٹی چھوٹی اور نہایت خُوب صُورت بُرجیاں ہیں، جن میں دو افراد بیٹھ بھی سکتے ہیں۔ ان بُرجیوں پر بھی نہایت دل کش نقش و نگارکندہ ہیں۔ مقبرے کے ارد گرد 8کمرے ہیں اورچھت پر ڈھلواں گنبد ، جس کے مینار زیادہ بلند نہیں۔

گلابی باغ اور دائی انگہ کے مقبرے کے سروے کے دوران عمارت میں کسی زمانے میں ڈپٹی کمشنر، لاہور کی جانب سے باغ اور مقبرے کی حفاظت کے لیے جاری کیا گیا ایک حکم نامہ بھی چسپاں نظر آیا۔ تاہم، اس سے متعلق کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ باغ اور مقبرے کا حُسن خراب کرنے والوں کو کون کون سی سزائیں دی گئیں اور کتنے افراد پر جرمانہ عاید کیا گیا؟ واضح رہے کہ قوانین کی رُو سے تاریخی عمارات کی اہمیت کے پیشِ نظر ان کے آس پاس 200فٹ کے احاطے میں کوئی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت نہیں، جب کہ گلابی باغ سمیت لاہور کے دیگر تاریخی مقامات کے گرد نہ صرف تجاوزات کی بھرمار ہے، بلکہ قبضہ مافیا انہیں تباہ کرنے کے درپے ہے، تاکہ یہاں اپنی املاک قائم کر سکے۔ 

لہٰذا، محکمۂ آثار قدیمہ فوری طور پر قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان تجاوزات کا خاتمہ کرے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ شالا مار باغ، لاہور کا وہ واحد علاقہ ہے کہ جہاں کسی دَور میں بے شمار تاریخی عمارات موجود تھیں، جن میں سے کچھ سِکّھوں نے اپنے عہد میں تباہ کر دیں اور بعض تجاوزات کی نذر ہو گئیں، البتہ بچے کھچے آثار تاریخ کے ایک اہم باب کی گواہی دے رہے ہیں۔

تازہ ترین