• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیب النّساء، مغل حُکم راں، اورنگ زیب عالم گیر کی سب سے بڑی صاحب زادی تھیں۔ وہ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ عالمہ، فاضلہ اور شاعرہ بھی تھیں۔ مخفی کے تخلّص کے ساتھ فارسی میں نہایت عُمدہ اشعار کہتیں۔ نیز، عربی میں بھی شاعری کرتیں۔ زیب النّساء دِیدہ زیب عمارات تعمیر کروانے کی بے حد شوقین تھیں ۔

انہوں نے لاہور اور دہلی میں کئی عمارات تعمیر کروائیں۔ لاہور میں واقع چوبرجی باغ اور اپنا مقبرہ انہوں نے خود تعمیر کروایا تھا۔ مقبرے کی تعمیر میں سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر استعمال کیا گیا، جب کہ اس میں خالص سونے کا کلس بھی نصب تھا۔ شاہی خاندان کی فرد ہونے کے ناتے زیب النّساء نے فارسی ، عربی کے علاوہ ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی ۔

شہزادی کی ذہانت و لیاقت کے باعث محل کے بیش تر معاملات میں اُن سے مشاورت کی جاتی اور اُن کی رائے کو فوقیت دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ زیب النّساء شادی شُدہ تھیں، جب کہ بعض روایات کے مطابق شہزادی کی مرضی معلوم کیے بغیر اُن کی منگنی تو کی گئی، لیکن شادی نہیں ہوئی۔ 

مغل شہزادی کی آخری آرام گاہ خستہ حالی کا شکار
برسوں سے جاری مقبرے کے فرش کی مرمت تاحال مکمل نہیں ہوسکی

شہزادی نے عشقیہ شاعری بھی کی، جس کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ زیب النّساء کو علمی تقریبات سے بے حد لگائو تھا، چناں چہ وہ لاہور اور دہلی کے درباروں میں اکثر علمی محافل منعقد کیا کرتیں، جن میں اُس دَور کے معروف دانش وَر، شعراء اور پڑھے لکھے افراد شرکت کرتے ۔

نیز، اُن کی ایک ذاتی لائبریری بھی تھی، جس میں قدیم زمانے کے عربی مخطوطات بھی موجود تھے، جن کا انہوں نے فارسی میں ترجمہ کروایا۔ اپنے والد، شہنشاہ اورنگ زیب کےدین سے لگاؤ کے سبب زیب النّساء تصوّف میں بھی خاصی دل چسپی لیا کرتیں۔

شہزادی کی موت کے 50برس بعد اُن کی 400فارسی نظموں کو جمع کر کے فارسی میں ’’دیوانِ مخفی‘‘ شایع کیا گیا۔ زیب النّساء نے تصوّف پر بہت کچھ لکھا۔ تاہم، اُن کی شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ عشقِ حقیقی پر مبنی ہے یا عشقِ مجازی پر۔

1681ء میں، جب زیب النّساء کی عُمر 44برس تھی، اُن کے چھوٹے بھائی، اکبر نے اپنے والد سے بغاوت کرتے ہوئے شہنشاہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ یہ بغاوت ایک ماہ تک جاری رہی ، اس کے بعد اکبر نے مُلک چھوڑ دیا۔ تاہم، اپنی ہم شیرہ سے رابطہ برقرار رکھا۔ جب اورنگ زیب عالم گیر کو یہ بات پتا چلی، تو اُنہیں بے حد دُکھ ہوا اور اُنہوں نے زیب النّساء کو دہلی کے قلعے میں قید کر دیا۔ تاہم، وہ قلعے سے غائب ہو گئیں اورپھر 1702ء میں اُن کا انتقال ہو ا۔

انتقال کے بعد انہیں اُسی مقبرے میں دفن کیا گیا، جو انہوں نے بڑے شوق اور چاہ سے تعمیر کروایا تھا۔مُغل دَور کے خاتمے کے بعد جب سِکّھوں کا دَور شروع ہوا، تو لاہور میں تین حاکم مقرّر ہوئے۔ شمالی لاہور کا حاکم، سوبھا سنگھ تھا۔

اُس کے درباریوں میں محکم دین آرائیں بھی شامل تھا اور تمام باغات اُس کے سُپرد تھے۔ محکم دین نے سوبھا سنگھ سے اجازت لے کر نواں کوٹ نامی علاقہ آباد کیا۔ اس مقصد کے لیے اُس نے چوبرجی باغ کی مغربی دیوار کو منہدم کروا کر یہاں مکانات تعمیر کروائے۔ نیز، فوّارے، حوض اور سنگِ مرمر سے بنا دیگر آرایشی سامان بھی ہٹوا دیا، البتہ مقبرہ بہ دستور اپنی جگہ رہا۔

جب مہا راجہ رنجیت سنگھ، محکم دین کی سازش کے نتیجے میں لاہور میں داخل ہوا، تو اس نے شہر کے دروازوں کی کُنجیاں تک محکم دین کے حوالے کر دیں ، جب کہ بیرونِ شہر واقع دیہات میں بھی اُسی کی حُکم رانی تھی۔ نیز، نواں کوٹ ایک بڑی منڈی قرار پائی۔ محکم دین اور مہاراجہ کے درمیان گہری دوستی تھی، لیکن جب رنجیت سنگھ نے موراں نامی طوائف کے سحر میں گرفتار ہو کر اس کے نام کا سکّہ، شاہی گز اور شاہی باٹ جاری کیا، تو محکم دین کے دل میں موراں سے نفرت و حسد پیدا ہو گیا۔ 

نتیجتاً، ایک روز دربار میں مہاراجہ کی موجودگی میںموراں اور محکم دین کے درمیان شدید تکرار ہوئی ۔ محکم دین نے موراں طوائف کو کچھ سخت جملے کہے، جس پر مہاراجہ نے محکم دین کا سارا مال و ا سباب قرق کر لیا۔ اس کے بعد رنجیت سنگھ کو حضوری باغ میں بارہ دری کی تعمیر کے لیے سنگِ مرمر کی ضرورت پڑی، تو اس نے زیب النّساء کا مقبرہ اُکھڑوا لیا۔

آج اس تاریخی مقبرے کی حالت یہ ہے کہ اس کے ارد گرد دُکانیں ، مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد مقبرے کے ساتھ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں اور دن بھر بچّے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ یہاں صبح سے شام تک تو ایک چوکی دار تعینات ہوتا ہے، جب کہ رات میں مقبرے کی نگرانی کا کوئی بندوبست نہیں۔

مقبرے کے فرش کی مرمّت کا کام پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے، جو تاحال مکمل نہیں ہو سکا، بلکہ اس میں موجود پتّھر بھی ایک ایک کر کے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ 

کبھی مقبرے کے گرد جالیاں ہوا کرتی تھیں، جن کا اب نام و نشان تک نہیں ملتا، جب کہ طویل و عریض اور عالی شان چبوترے پر اہلِ علاقہ نے مکانات تعمیر کر لیے ہیں۔

یاد رہے کہ نواں کوٹ میں واقع زیب النّساء کے مقبرے کی تعمیر نہایت مضبوط ہے۔ اگر محکمۂ آثارِ قدیمہ اس کی حفاظت کی ذمّے داری لے لے، تو مغل شہزادی کی یہ نشانی کئی سو برس تک برقرار رہ سکتی ہے۔

اگرچہ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ زیب النّساء سلیم گڑھ میں فوت ہوئی تھیں اور انہیں دہلی میں دفن کیا گیا تھا، لیکن تاریخ کی کُتب میں شہزادی کے مقبرے کا تذکرہ نواں کوٹ اور دہلی دونوں ہی میں ملتا ہے اور ملتان روڈ پر واقع یہ مقبرہ آج بھی ز یب النّساء کے مقبرے کے نام سے مشہور ہے۔

تازہ ترین