• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: حبیب الدین جنیدی

24ویں برسی پر خصوصی مضمون

” چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے“

وطن عزیز میں ٹریڈ یونین تحریک کئی دہائیوں سے انحطاط کا شکار ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ اس تحریک کے حوالہ سے اگر گفتگو کی جائے تو زوال پذیری کے باوجود متعدد شخصیات نے اس ضمن میں نمایاں خدمات انجام دیں یہاں تک کہ چند ایک نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔انہی میں سے ایک شہید عثمان غنی بھی تھے جن کا بنیادی طور پر تعلق مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ سے تھا مگر انہوں نے اپنی جدوجہد اور قربانیو ں کے حوالہ سے نہ صرف یہ کہ بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین تحریک میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ بحیثیت مجموعی انہوں نے پاکستان کی مزدور تحریک میں بھی اپنی قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت ایک محترم مقام حاصل کیا۔عثمان غنی ایک نظریاتی سیاسی کارکن بھی

تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے بحالی جمہوریت کی تحریک میں فوجی آمریت کے مختلف ادوار میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔وہ پرائیویٹائزیشن کے عمل کے سخت ناقدین اور مخالفین میں سے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی نجکاری کے خلاف تحریک چلی انہوں نے اس میں بھی

بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔اُنہیں مزدور دشمنوں اور جرائم پیشہ افراد نے 17ستمبر 1995کی صبح اُن کی رہائش گاہ چنیسر گوٹھ(کراچی) کے قریب کالا پُل کے مقام پر اس وقت شہید کردیا کہ جب وہ MCBکے ہیڈ آفس واقع آئی آئی چندریگرروڈ کے لئے اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق روانہ ہوئے تھے

(انا للہ و انا الہ راجعون)

عثمان غنی نے 1970کی دہائی کے آغاز میں مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ میں ملازمت اختیار کی اور اپنی شہادت تک وہ اس ادارے سے وابستہ رہے ۔انہوں نے اس بینک میں اجتماعی سودے کار یونین کے تعین کے لئے منعقد ہونے والے تمام انتخابات اور ریفرنڈم میں حصّہ لیا اور کبھی ناکام نہیں ہوئے۔انہوں نے اپنی زندگی کے آخری یوم تک ملک کے مالیاتی ادارہ جات کی ایک انتہائی فعال ٹریڈ یونین ”مسلم کمرشل بینک اسٹاف یونین آف پاکستان (سی بی اے)“ کی صدارت کا اعزاز اپنے پاس برقرار رکھا ۔1974 اور بالخصوص پاکستانی کمرشل بینکس کے قومیائے جانے کے بعد ان اداروں میں ٹریڈ یونین تحریک زیادہ بہتر انداز میں منظم ہوئی اور ان تنظیموں نے محنت کشوں کے حالاتِ کارمیں بہتری ،ان کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ جات کے لئے بڑی بڑی منظم اور مشترکہ تحریکیں چلائیں۔ان میں سے ایک 1975کی کمرشل بینکس اور مالیاتی ادارہ جات کے تقریباً 80(اسّی)ہزار ملازمین کی وہ مشترکہ جدوجہد تھی جو انہوں نے "Wage Commission Award"کے نامنصفانہ فیصلوں کے خلاف ”پاکستان بینک ایمپلائز فیڈریشن “کے پرچم تلے چلائی۔اس تحریک کے عروج پر پاکستان میں بینکنگ کاکا روبار کئی روز کے لئے معطل ہوگیا تھا جبکہ بینکس کی انتظامیہ نے اسے کچلنے کے لئے بڑے پیمانے پر ٹریڈ یونینز کی قیادت پر کریک ڈائون کیا اور سیکڑوں کی تعداد میں مزدور رہنما اور سرگرم کارکن گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیئے گئے تھے ۔شہید عثمان غنی اس تحریک میں سب سے پہلے گرفتار ہونے والے مرکزی قائدین میں سے تھے جنہیں کئی ماہ قید کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔ مزدور تحریک میں قربانیوں کے علاوہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بحالی جمہوریت کے لئے چلائی جانے والی تمام تحاریک میں بھی بڑھ چڑھ کر شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں حصّہ لیا۔فوجی ڈکٹیٹر ضیاءالحق اور نواز شریف کے ادوارِ حکومت اور خود اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بھی متعدد مرتبہ جیل و قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔شہید عثمان غنی کی زندگی کی آخری گرفتاری 1991 میں نواز شریف کے مزدور دشمن دورِحکومت میں اس وقت عمل میں آئی کہ جب وفاقی حکومت نے نجکاری کے ایک بہت بڑے پلان کا اعلان کیا جس میں سیکڑوں صنعتوں بشمول مسلم کمرشل بینک کی پرائیویٹائزیشن کا منصوبہ بھی شامل تھا۔نجکاری کے اس منصوبہ کے خلاف پورے ملک کی 160سی بی اے ٹریڈ یونینز کا ایک ملک گیر اتحاد تشکیل پایا جس کو آل پاکستان اسٹیٹ انٹر پرائز ورکرز ایکشن کمیٹی (APSEWAC) کا نام دیا گیا تھا ۔لاہور میں ایک اجلاس میں یہ اتحاد تشکیل پایا جس کی ایک سپریم کونسل منتخب کی گئی جس میں ملک کے سینئر مزدور رہنما شامل تھے (راقم الحروف کو اس کا سینئر نائب صدر منتخب کیا گیا تھا)۔اس ایکشن کمیٹی نے نواز شریف کے نجکاری کے منصوبوں کے خلاف اپریل 1991 میں ایک روزہ ملک گیر علامتی ہڑتال کی کال دی اور چاروں صوبوں میں احتجاجی جلسے اور جلوس نکالے گئے۔یہ ہڑتال انتہائی موثر اور نجکاری کے خلاف پاکستان میں سب سے بڑی ہڑتال تھی جس کو کچلنے کے لئے نواز شریف حکومت نے مگر صرف صوبہ سندھ میں چار مزدور رہنمائوں کو گرفتار کیا جس میں شہید عثمان غنی اور راقم الحروف شامل تھے۔

شہید عثمان غنی بینکنگ انڈسٹری کے اُن ٹریڈ یونین رہنمائوں میں سر فہرست تھے جنہوں نے ہر دور میں کامیابی حاصل کی اور وکٹری اسٹینڈ میں نمبر ون کے حقدار بنے۔آج بینکنگ انڈسٹری میں ٹریڈ یونین تحریک کا شیرازہ بکھر چکا ہے مختلف اداروں کی ٹریڈ یونینز کو منظم کرنے کے لئے کوئی ٹریڈ یونین فیڈریشن موجود نہیں ہے۔ہر ادارے کی ٹریڈ یونین اپنی بقاءکی جدوجہد میں مگر علیحدہ علیحدہ مصروف اور انتہائی بدترین حالات سے دو چار ہے ۔ ان بدترین اور مزدور کُش حالات میں ہمیں شہید عثمان غنی جیسی شخصیات کی انتہائی کمی محسوس ہوتی ہے، ایسی شخصیات کہ جنہوں نے اپنا تن،من،دھن سب کچھ محنت کشوں کے حالاتِ کار اور اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے لٹا دیا تھا۔یہ درست ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر نے اپنی پوری قوت کے ساتھ ان اداروں پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ اپنے تماتر ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات کو اپنی خواہش کے مطابق اُن کی قانونی تاویلات کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے مگر یہ صورتحال ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں اس لئے کہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ ع

ثبات عبث ہے قدرت کے کارخانے میں

شہادت کی 24ویں برسی پر ہم شہید عثمان غنی کی خدمات اور اُن کی قربانیوں کو محنت کشوں کی جانب سے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ شہید کے فرزند ارجمند اُن کے سب سے بڑے صاحبزادے، پاکستان پیپلز پارٹی کے معروف سیاستدان،صوبہ سندھ کے صوبائی وزیر محنت سعید غنی اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محنت کشوں اور مظلوم غریب طبقہ کے حالات میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لئے ہمیشہ کی طر ح اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
تازہ ترین